اسلامی معاشی نظام ہے کیا؟
کل کہ میرے اسلامی معاشی نظام کہ نفاز والے بلاگ پر عجیب و غریب تبصرہ ہوئے ۔ جن پر مجھے تعجب بھی ہوا اور ہنسی بھی آئ ۔ میرے قریبی دوست اور جرنلسٹ میک لودھی فرمانے لگے کہ اسلام کا تو کوئ معاشی نظام ہے ہی نہیں اور کوئ ایسا ملک بتائیں جہاں یہ نافز ہے ۔ اور حضور صلعم نے تو ایک rudimentary سا خاکہ دیا کوئ بھی اسے سسٹم کی شکل دے ہی نہ سکا کیونکہ ناقابل practice تھا ۔ ایک اور خاتون فرماتی ہیں آپ کوئ ایسا مسلمان اسلامی معیشت کا سکالر بتا دیں جس کو قادیانی کی جگہ رکھا جا سکے مشاورتی کونسل میں ؟ مجھے ان سب لوگوں کی نادانی پر بہت ہنسی آئ ۔ پھر دوست کلاسرا صاحب یاد آ گئے کہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم پڑھتے ہی نہیں ہے اور اپنا ایک تاریخ کہ بارے میں خیال اپنا لیتے ہیں اور پھر اس کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کلاسرا صاحب کا اسی بات پر سوشل میڈیا میں مزاق بنایا جا رہا ہے ۔ کہ کلاسرا کو وزیراعظم بنا دو ۔ عمران ہر چیز پہلے کلاسرا سے پوچھا کرے ۔ مجھے کاوزجی یاد آ گئے جب وہ بینظیر کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے تو نواز شریف نے کہا آپ کو گورنر بنا دیتے ہیں ۔ کاوزجی نے جواب دیا ، میں اس کہ اہل نہیں ۔ میرے سے بہت زیادہ لوگ اہلیت کہ حامل ہیں اگر ان کو لگایا جائے تو شاید میں تنقید نہ کروں ۔
میں اس بلاگ میں کچھ اہم نقطوں پر آپ کی توجہ دلوانا چاہوں گا ۔ سب سے پہلا “کیا اسلام مکمل ضابطہ حیات نہیں؟” کیا قرآن حکیم میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ “اکملت لکم دینکم” یہ وہی معاملہ ہے جسے اشفاق احمد صاحب ایک بزرگ کی وساطت سے فرماتے تھے کہ “ہم رب کو مانتے ہیں اس کی نہیں مانتے “ پہلے تو یہ چیز زہن نشین کر لیں کہ اسلام مزہب کم ضابطہ حیات یا way of life زیادہ ہے ۔ اسی وجہ سے اسلامی philosophical thought کو بہت اہمیت رہی ۔ یہ western thought سے بلکل مختلف تھا ۔ گو کہ کچھ جگہوں پر یہ دونوں over lap کرتے ہیں ۔ اگلے دن ہی میں نے کہا تھا کہ Peter Veriek وہ شخص ہے جس نے یہ ثابت کیا کہ تاریخ کی materialist interpretation بلکل غلط ہے ۔ خواہ وہ کیمونسٹ کرے یا سرمایادار۔ دراصل اس کہ نزدیک moral یا اخلاقی interpretation یا تشریح تاریخ کی، صرف اور صرف درست ہے ۔ اس نے بہت سارے مغربی سکالرز کہ ارسطو اور افلاطون سے لیکر آج تک کہ حوالے بھی دیے یہ ثابت کرنے کے لیے ۔ مجھے Amy Chau کا Tribal State کا بیانیہ یاد آ گیا ۔
اصل مسئلہ ہی یہ ہے ۔ یا تو ہمیں کارل مارکس کو درست ماننا ہو گا کہ پیٹ یا پیسہ فیصلہ کرتا ہے کہ کونسا مزہب اور اخلاقیات رکھنی ہے ، جسے عام زبان میں کہتے ہیں “جینا دے کر دانے اوناں دے کملے وی سیانے “ اور جو آج ہو رہا ہے کہ ، فواد چوہدری ، رزاق داؤد ، علیم خان اور جہانگیر ترین ہمیں بتائیں گے کہ اخلاق کیا ہے ؟ مزہب کیا ہے ؟ فواد نے تو آدھی قوم کو دہشت گرد قرار دے کر کمال کر دیا ۔
دوسرا فلسفہ اس کہ برعکس ہے جس کی بہت زیادہ پزیرائی بہت سارے مغربی سکالرز کہ علاوہ علامہ اقبال نے بھی کی ۔ کنفیوشس غالبا پہلا وہ شخص تھا جس نے اس کو دیا اور نافز کیا ۔ اخلاقیات کو مادی زرائع پر ترجیح دینے کا معاملہ ۔ بُدھا نے بھی پیسہ اور تخت ٹھکرا کر اسی نظریے کو تقویت دی لیکن عملی نفاز نہ کر سکا لہٰزا myth بن کر رہ گیا ۔ حضور صلعم نے اس معاملہ میں دراصل آخیر کر دی ۔ ان کی آخری سنت مبارکہ ہی اس پر تھی جب اپنی محبوب ترین بیوی سے نزع کہ وقت دو درہم بھی نہ رہنے دیے ۔ اسے کہتے ہیں خدا باری تعالی پر توکل ، رازق ہونے کا ۔ ہمارا تو ایمان ہی نہیں اس بات پر ۔ لوگوں کہ پرس ، جرابوں ، بستروں اور الماریوں سے پیسہ ہی پیسہ برآمد ہو رہا ہے ۔ پیسہ باہر سے پاکستان واپس لانے کی اس طرح ترکیبیں لگائ جا رہی ہیں جیسے کوئ سیارہ دریافت کرنا ہے ۔
حضور صلعم نے تو اس سلسلہ میں بہت سادہ اور آسان اصول واضح کر دیے تھے ہم اپنانا ہی نہیں چاہتے ۔ اسلامی ریاست جو حضور صلعم نے قائم کی ، اس میں تو اکثر دفعہ ضرورت سے زائید پیسہ اکٹھا ہو جاتا تھا ۔ کوئ لینے والا نہیں ہوتا تھا ۔ پیسہ اور مال و دولت کی حوس بند کرنی ہو گی ۔
اسلام کہ معاشی نظام کہ چند سنہرے اصول جو حضور صلعم نے وضع کیے ۔ مثلا ، ہر قسم کا استحصال حرام ۔ سُود حرام ۔ خرچ کرنااللہ کی راہ میں رشتہ داروں اور عزیزوں ، یتیموں اور مسکینوں پر فرض ۔ پیسہ جوڑنا یا بچت گناہ کبیرہ ۔ اس کہ علاوہ باقی رہ کیا گیا؟ پھر “اجتماعی خود کفالت “ کی بات کی ۔ اجتماعیت کی بات کی اسی لیے کہا گیا کہ ان مردوں کہ گھر جلا دوں اگر عورتیں نہ ہوں جو گھر میں نماز پڑھتے ہیں ۔ خلیفہ وقت امامت کروایا کرتا تھا ۔ میری عمران سے درخواست ہے کہ ہر جمعہ فیصل مسجد یا بادشاہی مسجد میں با جماعت نماز پڑھیں اور لوگوں سے گھل مل جائیں ۔ ان کو پیار کریں ، حوصلہ دیں ، ان کہ مسائیل سنیں ۔ آج اللہ کی مخلوق چند ٹکے والوں کہ ہاتھوں بے بس ہے ۔ حضور صلعم نے تمام معاملات اپنی زات سے شروع کیے ۔ پہلے اپنے پر لاگو کیے ۔ دو درہم والی مثال یا ہم سمجھتے نہیں یا سمجھنا نہیں چاہتے ۔
مغربی معاشی سسٹم تو ابھی تک evolve ہی نہیں ہو سکا ۔ ہمیں اکیڈمی میں ڈاکٹر اکمل حسین جو کہ اس وقت کہ youngest معاشیات Sussex سے پی ایچ ڈی تھے ، اکیڈمی میں پڑھانے آئے ۔ انہوں نے کہا ایسے لوگ جو پہلے کسی بھی لیول پر اکنامکس پڑھے ہیں ہاتھ کھڑے کریں ۔ ۸۰ فیصد نے ہاتھ کھڑے کیے، میں غریب ہاتھ نہ کھڑے کرنے والوں میں تھا ۔ انگیزی ادب اور فلسفہ سے شغف رہا ، ہمارا کسا معاشیات اور حساب کتاب سے تعلق ۔ انہوں نے افسردگی اور مایوسی میں سر جھٹکایا اور کہا کہ دراصل وہ ۲۰ فیصد جنہوں نے ہاتھ کھڑے نہیں کیے میرے لیکچر سے زیادہ فائیدہ اٹھائیں گے ۔
“Economics is changing concept, what ever Ricardo, Adam Smith, Keynes and others said is all falsified”
کیا خوبصورت بات کی ۔ پہلے ہی ٹیسٹ میں ، میں نے بہت نمایاں پوزیشن لی ۔ ڈاکٹر اکمل کو چاہیے تھا مشاورتی کمیٹی میں لانا ۔ ان کا وسیع تجربہ ہے ڈیولپمنٹ اکنامکس کا ، بہت عرصہ PIDE میں رہے جو ڈیولپمنٹ اکنامکس کا بہترین انسٹیوٹ ہے ۔ انہوں نے ایک دفعہ پھل اور سبزیاں export کرنے پر زبردست thesis لکھا تھا ۔
اسکولوں اور کالجوں میں اسلامی فلاسفر پڑھائے جائیں ۔ حضرت علی رضی تعالی عنہ سے یہ سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔ اور پھر ، الکندی، الراضی، فرابی، یعقوب ساجستانی، ابو الحسن امیری ، ابن مسکاویہ ، ال ماری ، بو علی سینا، حامدالدین الکرمانی، ناصر خسرو ، افضل الدین الکاشانی، الغزالی، ابن طفیل ، نجم الدین کبرا ، الراضی ، شہاب الدین سہروردی ، ناصر الدین طُوسی ، رُومی ، ابن نفیس ، شیرازی ، ابن سبین ، سید حیدر امولی ، تفتازنی ، ابن خلدون ، عبدالکریم جلی، جامی ، بدرالدین عالمی اور اس کہ بعد کہ اب تک جتنے بھی بے شمار سکالر اور فلاسفر رہے ۔ اس لسٹ میں سنی ، شعیہ اور صوفی سب ہی شامل ہیں ۔ سب ہی صاحب علم و دانش تھے ۔
اب خیر سے ہمیں امریکہ نے بھی چھوڑ دیا ہے ۔ مغرب سارا زوال پزیر ہو رہا ہے اور نئے عمرانی معاہدہ اور بیانیہ پر بات ہو رہی ہے۔ پرانی تہزیب و تمدن ، ثقافت اور مزہب کی طرف واپس جانے کی بات ہو رہی ہے ۔ مزہب اور اخلاقیات سے رومانس کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے ۔ اس کی جانب خان صاحب پیش قدمی کریں ۔ اسلام اسکولوں کالجوں میں کبھی پڑھایا ہی نہیں گیا ابھی بھی آپ نے قرآن شریف کہ ترجمہ کا زکر کر دیا اسلامی فلسفہ پڑھانے کی ضرورت ہے ۔ اسلام دین فطرت ہے ۔ میرے روحانیت کہ امیر و آقا حضرت محمد صلعم ہی ہیں ۔ جتنا انہوں نے روح کو منور کرنا سکھایا انسانی سوچ سے باہر کا معاملہ ہے ۔ ان کی طرف ہی قبلہ و کعبہ رکھیں ۔ آج لوگ ان کی بجائے بابا فرید یا قادیان کی طرف قبلہ بنائے بیٹھے ہیں ۔ بہت دکھ ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت دے ۔ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ میں آپ سب دوستوں کہ لیے دعاگو ہوں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔