اسلامی بینکاری اور جدید مالیاتی نظام
(پہلا حصہ)
ملکی معیشت میں ترقی زر مالیات اور قیمتوں کا تعلق بنکاری کے نظام سے ہوتا ہے ۔ کیوں کہ صنعتی و زرعی ترقی اور سرمایا کاری کے لیے سرمایا کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کا انحصار بینکوں سے آسان شرائط پر سرمایا کی دستیابی پر ہوتا ہے ۔ اس کے لیے ملک میں بینکاری کا نظام اور مضبوط مالیاتی اداروں کا کافی تعداد میں ہونا ضروری ہے ۔ جب صورت حال اس کے برعکس ہوجاتی ہے تو معاشی ترقی کا خواب نامکمل رہتا ہے اور ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے ۔ چنانچہ مرکزی بینک عام بینکوں کی مدد سے پیدائش زر کرتا رہتا ہے تاکہ ملک میں اشیاء کی پیداوار اور صنعت و تجارت میں ترقی و روزگار میں وسعت اور قیمتوں میں استحکام کے لیے بچت و سرمایا کاری کے لیے توازن قائم رکھے ۔
جدید مالیاتی نظام میں زر کی گرتی قدر کی وجہ سے لوگ مجبور ہیں کہ اپنی بچتیں کسی کاروبار یا صنعت میں لگائیں یا مختلف اشیاٗ کی خریداری کریں یا بینک میں جمع کرائیں گے ۔ لیکن بینک ان بچتوں کے لیے پرکشش اسکیمیں پیش کرے تو لوگ اپنی بچتیں ان اشیاء کی خریداری میں لگا دیتے ہیں جو کہ غیر مالیاتی بچتیں کہلاتی ہیں ۔ مثلأ زیور یا جائیداد کی خریداری ۔ جو کہ معاشی ترقی میں کسی طرح کا حصہ نہیں لیتی ہیں ، اس وجہ سے بچت کی اسکیموں کو پرکشش بنایا جاتا ہے ۔ اس لیے ملکی معیشت میں شرح سود نہایت اہم ہوتی ہے ۔ یہ شرح سود بچتوں اور سرمایا کاری کے توازن کے لیے تجویز کی جاتی ہے ، تاکہ لوگ اپنی بچتیں بینک میں جمع کروائیں اور اس سے سرمایا کاری کے وسائل مہیا ہوسکیں ۔ اس سے نہ صرف افراط زر میں تخفیف ہوتی ہے ، بلکہ روزگار میں ترقی اور خود انحصاری میں مدد ملتی ہے اور ادائیگیوں کا توازن درست ہوتا ہے ۔
ترقی یافتہ ملکوں بچتوں پر شرح سود کم ہوتی ہے ۔ کیوں افراط زر وہاں نہایت کم ہوتا ہے اور بچت کی عادت بھی ہوتی ہے ، جس کی وجہ سے وافر مقدار میں سرمایا میسر ہوجاتا ہے ۔ یہ مالک ترقی کی انتہائی بلندیوں پر پہنچ چکے ہوتے ہیں اس لیے نئی سرمایا کاری محدود بھی ہوتی ہے ۔ جبکہ غریب اور ترقی پذیر ملکوں میں اس کے برعکس ہوتا ہے ۔
جب کوئی ملک روزگار میں ترقی کے لیے خسارے کی سرمایا کاری کرتا ہے تو بازار میں زر کی رسد بڑھا دیتا ہے ، اس کی وجہ سے افراط زر پیدا ہوجاتا ہے ۔ حکومت افراط زر کو کنٹرول کرنے کیلیے جو مالیاتی اقدامات کرتی ہے ان میں سے ایک شرح سود میں اضافہ بھی شامل ہے ، تاکہ کنٹرلوگ زیادہ سے زیادہ اپنی بچتیں بینکوں میں جمع کر وائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے بلند شرح سود ہی روپیہ جمع کرانے والوں کے لیے کشش کا باعث ہوتی ہے ۔ اس کا ثبوت ہمیں اس سے ملتا ہے کہ ماضی میں انویسٹمنٹ کمپنیاں عوام کا کا اربوں روپیہ لوٹ کر فرار ہوگئیں ۔ اس کے لیے انہوں عوام کو سود کی بلند شرحوں کے سبز باغات دکھا کر اپنی طرف راغب کیا تھا ۔
پاکستان میں تجارتی بینک اپنی جمع شدہ رقوم میں لازمی ۳۰ فیصد جس پر شرح سود مارکیٹ سے نصف ہوتی ہے حکومت کو قرض دیتا ہے ۔ جب کہ پانچ فیصد روز مرہ کے لین دین کے لیے استعمال کرتا ہے اور باقی رقوم قرضوں اور سرمایا کاری کے لیے استعمال کرتا ہے ۔ جسے وہ حکومتی پالیسی کے مطابق صنعتی یونٹوں ،زرعی اور نجی شعبے میں سرمایا کاری کے لیے استعمال کرتا ہے ، جس پر شرائط کے مطابق سود لیا جاتا ہے ۔
تجارتی بینک نہ صرف عام گاہکوں کے لین دین کا حساب رکھتے ہیں بلکہ دولت رکھنے کے لیے ایک محفوظ مقام ہوتے ہیں ۔ اس طرح ملک میں سرمایا کاری کے لیے فروغ اور انحطاط کا باعث بھی ہوتے ہیں ۔ یہ نہ صرف تجارتی میدان میں اہم خدمات انجام دیتے ہیں ، بلکہ روپیہ کو گردش میں رکھ کر زندگی کے بہت شعبوں کو رواں دواں رکھتے ہیں ۔
بینک آج کے دور میں بہت سی مفید خدمات انجام دے رہا ۔ مگر اس کا اصل کاروبار عام لوگوں سے پیسہ جمع کرکے سرمایا کاری کرنا ہے ۔ یہی وجہ ہے معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ سود کے مخالف اپنے نظریات کی بنیاد پر ایک بینک قائم کرکے دیکھا دیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ علما کے نظریات پر معیشت تو کیا عام بینک بھی نہیں چل سکتا ہے ۔
یہ حقیقت ہے علماء اکرام معاشین سود کا متبادل نظام اب تک پیش نہیں کر سکے ۔ کم از کم کوئی ایسا جامع نظام جو مکمل معیشت کا احاطہ کرسکے ۔ اگرچہ بہت سی تجویزیں پیش کی گئیں ، جو جزوی تھیں ، مثلأ بغیر نفع کے بنک لوگوں کی بچتیں رکھے اور اس پر جو نفع حاصل ہو وہ حکومت حاصل کرے ۔ وہ اس سلسلے میں نظام اسلامی ترقیاتی بینک اور ایرانی بینکوں اور اس طرح کے وہ کچھ اور اداروں کی مثالیں دیتے ہیں جو مضاربہ یا شراکت کی بنیادپر اپنا کاروبار کررہے ہیں ۔
یہ حقیقت ہے کہ علماٗ کے نظریات پر معیشت چل نہیں سکتی ہے ۔ اسلامی ترقیاتی بینک اور ایرانی بنیک چونکہ سرمائے میں خود کفیل ہیں ، اس لئے وہ رقوم جمع کرنے والوں کو کوئی نفع نہیں دیتے ہیں ۔ البتہ وہ قرض پر کچھ رقم مصارف کے نام سے وصول کرتے ہیں ۔ یہ رقم اگرچہ کتنی کم کیوں نہ ہو مگر چوں کے مقرر ہے اس لئے سود کے زمرے میں آتی ہے ۔
علماء جن بینکوں کی مثالیں دیتے ہیں وہ حقیقت میں سرمایا کار کمپنیاں ہیں جہاں صرف کثیر سرمائے سے کسی کاروبار میں روپیہ لگایا جاتا ہے ۔ وہاں ادارہ پیسہ لگانے والے کے بطور نمائندے کے کام کررہا ہوتا ہے اور کاروبار کے اختتام پر ادارہ ایک خاص تناسب سے منافع کا حقدار ہوتا ہے ۔ اس طرح یہ ادارے ایک عام تجارتی بینک کی تعریف پر پورے نہیں اترتے ہیں ۔ کیوں کہ عام تجارتی بینک عام لوگوں سے پیسہ جمع کرکے سرمایا کاری کرتے ہیں ۔ جب کہ یہ ادارے جمع شدہ رقوم پر کوئی نفع نہیں دیتے ہیں ۔ ویسے بھی یہ چھو ٹی چھوٹی رقوموں سے سرمایا کاری نہیں کرتے ہیں ۔ (جاری ہے)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔