اسلام آباد ،پنڈی کے ساٹھ لاکھ شہری پریشان
فیض آباد انٹر ایکسچیج وہ راستہ ہے جہاں سے اسلام آباد کے شہری راولپنڈی اور راولپنڈی کے شہری اسلام آباد جاتے ہیں ۔یہاں پر الیکشن کمیشن آف پاکستان سے منظورشدہ مذہبی جماعتوں نے گزشتہ کئی دنوں سے دھرنا دیا ہوا ہے ،اس دھرنے کی وجہ سے پنڈی اسلام آباد کے ساٹھ لاکھ شہری زلیل و خوار ہورہے ہیں ،لیکن کسی کو کوئی پرواہ ہی نہیں ہے۔اسلام آباد راولپنڈی کے ساٹھ لاکھ شہری ایک ہفتے سے اس مخمصے کا شکار ہیں کہ اسلام آباد سے پنڈی کس راستے سے جائیں ۔پنڈی والے اسلام آباد کس راستے سے جائیں ۔حکومت اس قدر بے بس ہے کہ اسے سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیسے اس دھڑنے کو ختم کرائے ۔بے بس اور لاچار ھکومت حیران و پریشان ہے اور عوام پنڈی سے اسلام آباد اور اسلام آباد سے پنڈی جانے کے لئے گھنٹوں گھنٹوں خوار ہورہے ہیں ۔شہری سوشل میڈیا پر کھل کر کہہ رہے کہ وہ پریشان ہیں ،لیکن ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہے۔ادھر سے دھڑنے میں عوام کو اکسیایا جارہا ہے ،ان کو وہ وزیر قانون زاہد ھامد کے خلاف اکسیا جارہا ہے ۔دھرنا رہنما خادم حسین رضوی کے خلاف اب تک گیارہ کیسز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں ۔کچھ روز قبل اسی دھڑنے کی وجہ سے ٹریفک جام تھا تو آٹھ ماہ کا بچہ حسن بلال جاں بحق ہو گیا تھا ۔حسن کو جناح گارڈن کے راستے پمز اسپتال لایا جارہا تھا کہ فیض آباد انٹر ایکسچینج پر دھرنے کی وجہ سے ٹریفک جام تھا جس سے بیچارے بچے کی ان چلی گئی ۔بچے کے والدین نے خادم حسین رضوی کے خلاف ناقابل ضمانت ایف آئی آر درج کرادی ہے ۔دھڑنا اس قدر خوفناک انداز میں جاری ہے کہ اس راستے سے ایمبولینسز نہیں گزر سکتیں ،جنازے اور باراتیں نہیں گزر سکتیں ،شہری نوکریوں پر نہیں جارہے ،بچے اسکول نہیں جارہے ،زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے ،فیض آباد سے اسلام آباد تک کا آدھے گھنٹے کا راستہ ہے ،بیچارے شہری چار سے پانچ گھنٹوں کے بعد کٹھن راستوں سے گزرتے ہوئے اسلام آباد تک پہنچ پاتے ہیں ۔عام شہری ایک ہفتے سے پریشانی کی خوفناک کیفیت کا شکار ہیں ،دھڑنے والوں کے تمام مطالبات تسلیم کر لئے گئے ہیں ،انتخابی اصلاحات کے بل کا جو حلفنامہ غلطی سے تبدیل ہوا تھا ،وہ تبدیلی بھی ختم کر دی گئی ہے ،وزیر قانون نے معافی بھی مانگ لی ہے ،ایک غلطی تھی جو ٹھیک کردی گئی ہے ،پھر بھی دھڑنے والے وہاں سے اٹھنے کا نام نہیں لے رہے ،چند ہزار افراد نے ساٹھ لاکھ عوام کی زندگی مفلوج کرکے رکھ دی ہے۔بھیا مسئلہ ختم ہو گیا ہے ،احتجاج کیوں جاری ہے ،یہ جو دھڑنے کا خون لگا ہوا ہے ،یہ انسانیت کی بربادی کا سبب بنتا جارہا ہے ،لیکن کسی کے پاس کوئی حل نہیں ہے۔بھیا انہوں نے این ائے 120 سے ووٹ لئے تھے ،اب وہ اپنی طاقت تو دیکھائیں گے ۔وزیر داخلہ احسن اقبال نے فرمایا ہے کہ جلد دھڑنا ختم ہو جائے گا ،یہ جلد کب آئے گی ،ایک ہفتہ تو گزر گیا ہے ،عوام کو مزید کتنا زلیل کرنا ہے ۔ھکومت طاقت کے استعمال سے گھبرا رہی ہے ،حکومت کے مطابق طاقت کا استعمال کیا گیا ،کچھ شہادتیں ہو گئی تو معاملات تباہی کی طرف جاسکتے ہیں ۔ان کو یعنی دھڑنے والوں کو کچھ شہیدوں کی ضرورت ہے ،حکومت انہیں یہ شہید دینا نہیں چاہتی ،حکومت کی صبر و تحمل والی پالیسی سے میں بطور ایک سیاسی طالبعلم مکمل اتفاق کرتا ہوں ۔ریاست کی رٹ جب ایک بار کمزور ہو جاتی ہے تو پھر جو بھی چاہے شہر اقتدار پر حملہ آور ہوجائے ،ایسی ہی کیفیت کا شکار ہے بیچارہ اسلام آباد ۔جو چاہتا ہے چند ہزار افراد لیکر دھڑنا دے دیتا ہے ،کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ۔پہلے علامہ طاہر القادری نے دھڑنا دیا ،پھر خان صاحب نےدھڑنے دیئے ،اب رضوی صاحب سیاسی پاور کا ناجائز استعمال کرتے نظر آرہے ہیں ۔داخلہ امور کے وزیر مملکت طلال چوہدری نے دھڑنے کے خلاف ایکشن لینے کی دھمکی تو دی ہے ،اب دیکھتے ہیں دھڑنا پولیٹیکس کیا صورتحال اختیار کرتی ہے ۔دھڑے والوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر زاہد حامد مستعفی نہ ہوئے تو 12 ربیع الاول کے تمام جلوس اسلام آباد کا رخا کر لیں گے ریلوے ،ائیر پورٹس اور ریاست کی علامات پر چڑھائی کردی جائے گی ۔سوشل میڈیا پر اسلام آباد پنڈی کے شہری سرگرم ہیں اور اپنے مسائل بیان کررہے ہیں ،لیکن ان بیچاروں کو کیا معلوم کے اصلی گیم کیا ہے ؟شہریوں سول سوسائیٹی اور علاقہ معززین کو چاہیئے کو وہ کردار ادا کریں ،اب صرف پنڈی کے علاقہ معززین ہی عوام کو اس پریشانی سے نجات دلاسکتے ہیں ۔علاقہ معززین جب چاہیں وہ یہ دھڑنا ختم کرادیں ،لیکن وہ بھی خاموش بیٹھے ہیں اور تماشا دیکھ رہے ہیں ۔حکومت سمجھ داری کا مظاہرہ کرے اور علاقہ معززین سے مدد لے ،یہی حکومت کے لئے بہترین راستہ ہو سکتا ہے۔دیکھتے ہیں اس دھڑنے کا انت کیسے ہوتا ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔