اسلام آباد میں قبائلیوں کا دھڑنا اور راو انوار
گزشتہ ماہ کراچی میں بے گناہ اور ماورائے عدالت قتل کئے جانے والے نقیب محسود کے لئے قبائلی بھائیوں کا اسلام آباد میں پانچ روز سے پرامن دھڑنا جاری ہے۔یہ دھڑنا کراچی کے علاقے ملیر کے ایس ایس پی راو انوار کے خلاف ہورہا ہے جنہوں نے ایک جعلی پولیس مقابلے میں نقیب محسود کو قتل کردیا تھا ۔راو انوار اس کے بعد سے غائب ہیں ۔کہا جارہا ہے کہ وہ اسلام آباد راولپنڈی میں چھپے ہیں ،المیہ یہ ہے کہ پورے پاکستان کی ریاستی مشینری انہیں ڈھونڈنے میں ناکام ہو گئی ہے ۔دھڑنے کو پانچ روز مکمل ہو گئے ،لیکن قبائلی بھائی پرامن انداز میں بیٹھے ہوئے ہیں ،اس دھڑنے میں قبائلی عمائدین ،قبائلی اراکین اسمبلی کے ساتھ ساتھ ہزاروں افراد بیٹھے ہیں ،ان کا مطالبہ ہے کہ جب تک راو انوار کو گرفتار نہیں کیا جاتا وہ دھڑنا ختم نہیں کریں گے ۔پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان ،سراج الحق ،عوامی نیشنل پارٹی کے اسفند یار ولی وغیرہ اظہار یکجہتی کے لئے ان دھڑنے والوں سے ملے ہیں ۔سنا ہے کہ آج دھڑنے والوں کی ایک کمیٹی کے کچھ عمائدین وزیر اعظم پاکستان سے ملیں گے اور ان کے سامنے اپنے مطالبات رکھیں گے ۔دھڑنے والوں نے مطالبہ کیا ہے کہ آرمی چیف ان کے مطالبات حل کرانے میں ان کی مدد کریں ۔ان کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ جعلی انکاونٹر اسپیشلسٹ راو انوار کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے ۔دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ قبائلی علاقوں سے لینڈ مائینز یعنی بارودی سرنگوں کو صاٖف کیا جائے ،ان لینڈ مائینز کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں 78 ہلاک ہو چکے ہیں ۔ان کا تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ قبائلی علاقوں سے جو افراد لاپتہ ہیں ،انہیں بازیاب کرکے عدالت میں پیش کیا جائے ،اگر ان میں سے کوئی مجرم ہے تو اس کو سزا دی جائے اور بے گناہوں کو رہا کیا جائے ۔ان کا تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں جب بھی کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو سیکیورٹی فورسز والے عام انسانوں کی زندگی تنگ کردیتے ہیں ،کرفیو نافذ کردیا جاتا ہے اور بے گناہ افراد کو گرفتار کر لیا جاتا ہے ۔یہ تمام مطالبات بہت ہی معمولی ہیں ،ریاست کی زمہ داری ہے کہ وہ ان قبائلیوں کے مطالبات تسلیم کرے اور ان مطالبات کو حل کرے ،ایسا نہ ہو کہ مطالبات بڑھتے بڑھتے خطرناک شکل اختیار کر جائیں ۔نقیب محسود کے قتل کے حوالے سے سپریم کورٹ نے سوموٹو نوٹس لیا تھا ۔عدالتی کاروائی جاری ہے،سوال یہ کہ کیا ISI اور MI راو انوار کو ٹریس نہیں کرسکتیَ؟راو انوار کا غائب ہونا اور پھر نہ ملنا اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے ؟آخر کیا وجہ ہے کہ راو انواز کو گرفتار نہیں کیا جاسکا ؟راو انوار کو گرفتار نہ کیا گیا تو یہ قبائلی دھڑنے میں بیٹھے رہیں گے ،مطالبات نہ ماننے کی صورت میں ان کی بے چینی بڑھے گی اور حالات خطرناک صورتحال اختیار کر لیں گے ۔جعلی پولیس مقابلوں میں بے گناہ افراد کا مارا جانا صرف پشتونوں کا مسئلہ نہیں ،یہ قومی مسئلہ ہے اور یہ بھی قوم کا مطالبہ ہے کہ راو انوار کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے ۔جبری گمشدگی بھی ایک قومی مسئلہ ہے ،یہ بھی پاکستان کا ایک بہت بڑا بحران ہے ،ریاست کی زمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرے ۔دھڑنے والوں کو اب بھی یقین ہے کہ ریاست ان کے مطالبات کے حل کے لئے ان کی مدد کرے گی ،اس لئے وہ پرامن دھڑنا جاری رکھے ہوئےہیں ۔ریاست کی زمہ داری ہے کہ وہ اپنا وجود ثابت کرے اور قبائلیوں کو عزت دے ۔ایک بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ میڈیا اس دھڑنے کو کور کیوں نہیں کررہا ؟ کس نے میڈیا کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ اس پرامن دھڑنے کی کوریج نہ کرے ؟یہ دھڑنا غیر سیاسی ہے ،نہ ہی حکومت کے خلاف ہے اور نہ ہی فوج کے خلاف ہے ۔لیکن میڈیا دھڑنے کو کور نہ کرکے اسے سیاسی رنگ دے رہا ہے ؟ہزاروں افراد اپنے حقوق کے لئے بیٹھے ہیں ،اپنی آزادی کے تحفظ کی خاطر بیٹھے ہیں ،وہ لوگ جو دھڑنے کا سہارا لیکر جلاو گھراو کرتے رہے ہیں ،اداروں ،ریاست اور حکومت کو گالیاں دیتے رہے ہیں ،ان کے مطالبات تو پورے کئے گئے ۔فیض آباد دھڑنے میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے ،کیسے ان کے مطالبات پورے کئے گئے ؟قبائلی لوگ تو پرامن انداز میں بیٹھے ہیں ،پھر کیوں راو انوار کو ریاست تلاش کرنے میں ناکام ہے؟راو انوار قومی سیکیورٹی کے لئے بہت بڑا خطرہ بن گیا ہے ،اب دھڑنے والے پاکستان کے خلاف باتیں کرنے پر مجبور ہیں ،علیحدگی کی باتیں کرنا شروع ہو گئے ہیں ،انہوں نے سوالات اٹھانا شروع کردیئے ہیں کہ کیا وہ پاکستانی ہیں یا نہیں ؟اگر ہیں تو کیوں ان کے مطالبات تسلیم نہیں کئے جارہے ہیں ؟ریاست کی زمہ داری ہے کہ فاٹا اصلاھات کرے ،راو انوار کو گرفتار کرے ،اور بارودی سرنگیں صاف کرے کیونکہ اس سے معصوم بچے مررہے ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔