اسلام آباد کا صدیوں پرانا سید پور گاؤں
تین سو برس پرانا مندر
مٹی کی ریل گاڑی
سیاحوں کے لئے جدید لیکن مکینوں کے لئے قدیم
ایک عجب سحر انگیز مقام
سرکاری، مشین نما، بے ربط، بے تعلق، کاغذی، بھانت بھانت زبانوں اور مکینوں کا شہر اسلام آباد، نہ کسی کو اپنا کیا نہ کسی کا اپنا ہوا، اس شہر میں بسے کئی لوگ ایک ساتھ ہو کر بھی اجنبی ہیں، کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں، یہاں اپنوں کو اپنوں سے ملتے بھی کئی کئی ماہ گذر جاتے ہیں۔ اس شہر کی اپنی پہچان بھی تو کوئی نہیں، یہاں بسنے والا ہر ایک شہری اپنی زبان، ثقافت، تہذیب اپنے ساتھ لایا ہے۔
شہر تو تھا بھی نہیں، پتھروں کا ٹیلہ تھا، پہاڑوں کا ایک سلسلہ۔ بس اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ایوب خان نے جنگل میں منگل لگانے کی ٹھان لی، پھاوڑے خریدے اور بے روح قسم کا شہر بنا ڈالا۔
کراچی سے وفاقی دارالحکومت کی اس جگہ منتقلی کے پیچھے سیاسی، عسکری، اور معاشی محرکات اپنی جگہ لیکن ایک سادہ سا سبب یہ بھی تھا کہ یہ علاقہ جنرل ایوب خان کے والد کے گاؤں گڑہی حبیب اللہ اور جنرل صاحب کے دفتر جی ایچ کیو کے بیچ میں تھا۔
پہاڑوں، پگڈنڈیوں، پتھریلے راستوں والے اس علاقے کے آس پاس آج بھی صدیوں پرانے گاؤں موجود ہیں، ان میں سے ایک گاؤں سیدپور بھی ہے جس کی بنیاد ہمایوں کے والد ظہیر الدین بابر کے زمانے میں رکھی گئی، بابر نے 1526ء میں مغل سطلنت کی بنیاد رکھی تھی۔
مانا جاتا ہے کہ ظہیر الدین بابر کے دور میں پوٹھوہار کے گکھڑ قبیلے کا سردار سلطان سارنگ خان تھا، جس نے یہاں ایک بستی آباد کی، اور اس گاؤں کا نام اپنے بیٹے سید خان کے پیچھے سید پور رکھا۔ ۔سلطان سارنگ خان ایبٹ آباد اور جہلم کے بیچ مغلیہ شہنشاھت کے امور چلاتا تھا، سلطان سارنگ نے دنیا چھوڑی تو پگ بیٹے کو ملی۔ بغیر کسی تصدیق کے کہا جاتا ہے کہ اسی سید خان نے اپنی ایک بیٹی اکبر کے بیٹے جہانگیر سے بیاہی تھی، اور پھر یہ گاؤں بھی بیٹی کو تحفے میں دے دیا تھا۔ لیکن ہمایوں کے بعد اکبر کے زمانے میں اس گاؤں نے تب بڑی ترقی کی، جب راجا مان سنگھ نے یہاں ڈیرے ڈالے۔
کابل سے جنگی مہم سے واپسی پر راجا مان سنگھ کی نظر مارگلا کی پہاڑیوں سے نکلتے چشموں اور آبشاروں سے سیراب ہونے والی اس خوبصورت زمین پر پڑی تو یہیں کا ہو کر رہ گیا۔ مان سنگھ اکبر کا چہیتا اور دین اکبری کا پیروکار بھی تھا، اس نے یہاں ایک مسجد، کچھ فاصلے پر مندر اور ایک گردوارہ تعمیر کروایا، مندر اور گردوارے کے عین عقب میں ایک دھرم شالا بھی بنوائی گئی۔اکبری پالیسی کے تحت سب کو مذھبی آزادی تھی، سید پور کے اس مندر میں بھی پوجا پاٹھ عام ھو گی، یہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ اس مندر میں ایک مورتی تو ابھی ابھی کچھ عرصہ پہلے اٹھائی گئی ہے۔
اب سید پور کے اس مندر میں نہ پوجا ہوتی ہے نہ ہی گردوارہ آباد ہے، مندر کا دروازہ تو ھمیشہ کھلا رہتا ہے لیکن اس میں نہ کوئی بھگوان ہے، نہ اس علاقے میں کوئی پجاری، اور سکھوں کا گردوارہ بھی مستقل طور پر مقفل ہے۔
مسجد اور مندر سے دو سو میٹر کے فاصلے چھوٹی سی پہاڑی پرایک جگہ زندہ پیر کی بیٹھک کے نام سے مشہور ہے، کون سا زندہ پیر؟ کیا نام تھا؟ کون تھا، کہاں سے آیا کہاں گیا ؟ پتہ کسی کو نہیں بس ہرایک اپنی کہانی سناتا ہے۔
کوئی کہتا ہے کہ بری امام یہاں کچھ عرصہ رہے تھے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت خضرعلیہ السلام نے اسی جگہ پر کئی دنوں کا چلہ کاٹا تھا۔ اس زندہ پیر کی بیٹھک پر ابھی بھی عقیدت مند آتے ہیں، پھول رکھ کر دعائیں مانگتے ہیں۔ دیوار کے بیچ خانوں میں دیے جلاتے ہیں۔ یہاں ہر جمعرات کو دیے جلانے والے عقیدت مندوں کا بڑا رش ہوتا ہے۔
سید پور گاؤں کی تاریخ کے بارے میں وہیں کے غلام نبی نامی ایک بزرگ سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ یہ گاؤں تقریباً چارسو پچاس سال پرانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس گاؤں میں پانی کے چشمے ہوا کرتے تھے باغات ہوا کرتے تھے جسے بقول ان کے سی ڈی اے والوں نے ختم کر دیا ہے۔
’بس اب ایک ہی چشمہ بچا ہے لیکن اس کی بھی حالت بہت خراب ہے۔‘
انہوں نے بتایا یہاں قریب میں ہی ایک مندر ہوا کرتا تھا جو تقریباً دو سو اسی سال پرانا ہے۔ جس میں تین چار پانی کے تالاب ہوا کرتے تھے جن سے پانی نکلتا تھا اور زمینیں سیراب ہوتی تھیں۔ بعد میں اس مندر کی عمارت کو سکول میں تبدیل کردیا گیا تھا لیکن اب سکول بھی نہیں رہا لیکن اس مندر کو عجائب گھر بنا دیا گیا ہے۔
غلام نبی کا کہنا تھا کہ یہاں تقریباً ہر روز شام کے وقت مختلف سیاسی شخصیات کے ساتھ ساتھ ملکی اور غیرملکی سیاح آتے ہیں جو یہاں اس مندر اور یہاں ایک بہت ہی مشہور مٹی کے برتن کھلونے دیکھتے ہیں۔
مٹی کے برتن اور کھلونے بنانے والے نیاز احمد سے جب بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ’یہ کام میرے والد لعل خان نے آج سے ایک سو دس سال پہلے ایک دوست کے ساتھ پانچ روپے کی شرط لگا کر شروع کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے والد پندرہ سال کی عمر میں سیالہ گاؤں گئے تھے جہاں انہوں نے ایک پل کے نیچے سے ریل گاڑی کو گزرتے دیکھا اور اس ریل کو مٹی سے بنانے کی خواہش ظاہر کی۔
اس بات پرمیرے والد لعل خان کی ان کے دوست سے پانچ روپے کی شرط لگی جو میرے والد نے پندرہ دن بعد بلکل ویسی ہی پل اور نوگز ریل گاڑی بنا کر جیت لی تھی۔
لعل خان کے بیٹے نیاز احمد نے بتایا کہ مٹی سے بنی اس ریل گاڑی کی جو کے ابھی تک اپنی اصلی حالت میں موجود ہے بہت نمائشیں ہو چکی ہیں جن میں اس شاہکار کو دیکھنے کے لیے اب تک ملکہ برطانیہ، لیبیا کے سفیر، بیگم بھٹو، نواز شریف اور کئی دوسری اہم شخصیات آچکی ہیں۔
زندہ پیر کی بیٹھک کے ساتھ ہی ایک قبر ہے جسے مائی جی کا مزار یا فقیرانی کی قبر کہا جاتا ہے، یہاں کے مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ اس خاتوں نے ساری زندگی اس زندہ پیر کی بیٹھک پر پانی بھرا اور جھاڑو پوچا دے کر زندگی گذار دی، اس خاتوں کا کوئی اتا پتا نہیں، بس زندہ پیر کی خدمت گذار کے تعارف سے مدفن ہے۔
سید پور گاؤں کی قدیم طرز اور پتھروں سے بنی عمارتوں، مندر، مسجد اور دھرم شالا سے یہاں مختلف تہذیبوں کے دھندلے نقوش ظاہر ہوتے ہیں، اب تو سرکاری سطح پر سید پور کو آرٹس اینڈ ہیرٹیج قرار دیا گیا ہے۔ پرانی عمارتوں کو مرمت اور تزیئن کے بعد اصلی حالت میں برقرار رکھا گیا۔ دھرم شالا کی جگہ کو گیلری بنا دیا گیا ہے، جہاں اسلام آباد کو آباد کرنے کی منصوبہ بندی سے لیکر شکرپڑیاں میں لگے پہلے پودے کی تصویریں رکھی گئی ہیں۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں اس جگہ کو کمہاروں کی بستی بھی کہا جاتا تھا۔لیکن اب ایسا کچھ نہیں بچا، البتہ موشیوں کی منڈی آج بھی لگتی ہے۔گاؤں جہاں سے شروع ہوتا ہے وہاں پر بکروں اور بھیڑوں کے لیے ایک جگہ مختص کردی گئی ہے۔بابر کے دور کا یہ گاؤں اب بھی ایک گاؤں ہے، اور گاؤں سے کما رہے ہیں جدید طرز پر بنے ہوئےہوٹلز اور ریستورانٹ، لیکن مکینوں کی حالت وہی ہے جیسے ان کی ترقی کی رفتار کے آگے کوئی بڑا سا اسپیڈ بریکر آ چکا ہے۔
بشکریہ:
ہم سب
bbc urdu. Com
وکی پیڈیا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔