اسلام شکارپوری کا تعلق ہندوستان سے ہے، اردو کے ممتاز شاعر ہیں، آپ کا اصل نام اسلام قریشی ہے، مہتاب قریشی مرحوم کے فرزند ہیں، قلمی نام اسلام شکارپوری کے نام سے لکھتے ہیں، آپ کی پیدائش 12 اگست 1971 شکارپور ضلع بلند شہر یوپی انڈیا میں ہوئی اس وقت دہلی میں مقیم ہیں، آپ کا پہلا مجموعہء کلام “بہار و خزاں” زیرِ طباعت ہے۔ آپ کی اردو زبان میں شاعری بہترین عقیدتی اور توحید پر مبنی بہترین اور مثالی شاعری ہے، شاعر نے اس فانی دنیا کی عارضی زندگی کے چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے عقیدت اور احترام پر مبنی افکار و خیالات کو شاعری میں سمویا ہے، آپ کے اکثر اشعار روحانیت کے ساتھ گہرے تعلق کی عکاسی کرتی ہیں، اور الله تعالیٰ کے رحم و کرم اور الله کی محبت کی قدرت و طاقت پر بھروسہ کرنے پر زور دیتی ہیں۔ مزید برآں راقم الحروف (رحمت عزیز خان چترالی) کی کھوار زبان میں ترجمے کی کوششوں کا مقصد اسلام شکارپوری کی فکر انگیز خیالات پر مبنی شاعری کو شمالی پاکستان کے کھوار بولنے والے وسیع تر قارئین تک بھی پہنچانا ہے۔
اسلام شکارپوری کی شاعری کا مرکزی موضوع روحانی لچک اور اٹل ایمان کے گرد گھومتا ہوا نظر آتا ہے۔ آپ کی شاعری الٰہی قدرت سے مدد حاصل کرتے ہوئے زندگی کی مشکلات میں ثابت قدمی کا پیغام دیتی ہیں۔ آپ کی شاعری کا تھیم اس خیال میں نظر آتا ہے کہ زندگی کے راستے میں کانٹوں کے باوجود ایمان کا شعلہ آگے بڑھنے اور صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کر سکتا ہے۔
آپ کی شاعری کی ساخت اور تھیم کے لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام شکارپوری نے اپنی شاعری میں ایک سادہ لیکن طاقتور ساخت کا استعمال کیا ہے۔ اشعار ایک خوبصورت تال میل کی پیروی کرتی ہیں اور ایک سریلی بہاؤ پیدا کرتی ہے جو گہرے موضوعات اور بہترین افکار و خیالات کی تکمیل کرتی ہے۔ خالق اور واحد رب کے طور پر الله کا مستقل حوالہ الله کے “وحدہ لا شریک” ہونے کی نشاندہی کرتا ہے، جو الٰہی تعلق اور رہنمائی کے مرکزی موضوع پر زور دیتا ہے۔
شاعر اپنی شاعری کے اثرات کو بڑھانے کے لیے خوبصورت ادبی آلات کو مہارت سے اپنی شاعری میں استعمال کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ استعاراتی طور پر “آپ کی محبت کے شعلے” الٰہی تعلق کے جذبے اور شدت کی علامت ہیں۔ ان شعلوں میں چمکتے چراغوں کی منظر کشی کا استعمال روحانی روشن خیالی کے تصور کو مزید تقویت دیتا ہے۔ مزید برآں زندگی کے راستے کو “کانٹوں اور جھگڑوں سے بھرا” کے طور پر بیان کرنا ایمان کے سفر میں درپیش چیلنجوں کی تصویر کشی میں گہرائی کا اضافہ کرتا ہے۔
اشعار کی گہرائی میں جانے سے شاعر کا حکمت کو رہنمائی کی روشنی کے طور پر تلاش کرنے پر زور علم اور روشن خیالی سے وابستگی کی نشاندہی کرتا ہے۔ منظر کشی میں روشنی اور اندھیرے کا باہمی تعامل روحانی سفر کی واضح تصویر پیش کرتا ہے۔ مزید برآں اسلام شکارپوری کی طاقت کا حوالہ ایک وسیع تر سماجی اور ثقافتی تناظر کی نشاندہی کرتا ہے، جو عقیدے کو ایک کمیونٹی کی اجتماعی طاقت کے ساتھ جوڑتا ہے۔
راقم الحروف کا کھوار زبان میں ترجمہ اسلام شکارپوری کی شاعری تک رسائی کو تراجم کے زریعے وسعت دینے۔ کی پہلی کوشش ہے۔ کھوار تراجم میں محفوظ لسانی باریکیاں جذباتی اور روحانی اثرات کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہیں اور ثقافتی اور لسانی دوریوں کو ختم کرتی ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام شکارپوری کی اردو شاعری لچک، ایمان اور روحانی روشن خیالی کے عالمگیر پیغام کو قارئین تک پہنچانے کے لیے لسانی حدود سے بالاتر بہترین شاعری ہے۔ ساخت کی سادگی، ادبی آلات کے بھرپور استعمال کے ساتھ شاعر کی لازوال اپیل میں حصہ ڈالتی ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے اسلام شکارپوری کی حمد اور کھوار تراجم پیش خدمت ہیں۔
***
حمد شریف
***
روز طوفاں نیا رخ بدلتے رہے
تیری رحمت سے ہم بھی تو چلتے رہے
کھوار: انوسی طوفان نوغ وولٹی بیکا پرانی
تہ رحمتہ اسپہ دی تھے کوسیکا پھریتام
میرا خالق ہے تو تو ہی مالک مرا
تیری الفت کے یہ دیپ جلتے رہے
کھوار:مه خالق آسوس تو، تو تان اسوس مالک مه
تہ محبتو ہمی دیوا چوکیکا پرانی
راہیں پرخار تھیں زندگی کی بہت
نام لیکے ترا ہم بھی چلتے رہے
کھوار: زندگیو راہا زوخان پولوغ اوشونی بو
نامو گنی ته اسپہ دی کوسیکا پھریتام
رہنما ہم نے تو بس خرد کو کیا
دل میں ارماں بہت سے مچلتے رہے
کھوار:رہنما اسپہ تھے بس عقلو اریتام
ہردیہ ارمان بو زیات اوسنیکا پرانی
اس کی قدرت ہے دیکھو اسلام سب
چاند سورج یہاں جو نکلتے رہے
کھوار:ہتو قندرت شیر لوڑے اسلام سف
مس یور ہیارا کہ نیسیکا پرانی
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...