اس سے قبل میں کچھ کم معروف مذاہب اور فرقوں جیسے کہ “دروز” اور “ایزدی مذہب” پر تفصیلاً لکھ چکی ہوں۔۔۔
مختلف مذاہب ، عقائد اور فرقوں و مکاتبِ فکر پر تحقیق و مطالعہ کے دوران مجھے ایک بات جان کر قدرے حیرت ہوئی کہ اکثریت مسلمان “اباضی” نام کے کسی فرقے یا برانچ سے آگاہ نہیں ہیں۔
میں نے اپنی دو مسلم دوستوں سے پوچھا کہ “اسلام کی تین بڑی شاخیں یا مرکزی فرقے کونسے ہیں؟” تو ایک کا جواب تھا “سنی ، شیعہ اور صوفی” جبکہ دوسرا جواب تھا “سنی، شیعہ اور سلفی ” ۔۔۔ حالانکہ ٹیکنیکلی صوفی ازم ایک روحانی تحریک ہے اور سلفی، سنی اسلام کا ہی ایک مکتبِ فکر ہے۔
تو آج ہم بات کرتے ہیں اسلام کی تیسری برانچ یعنی “اباضیت Ibadism” کی۔
لیکن اس سے قبل بتاتی چلوں کہ اباضی کوئی مسلک یا مکتبِ فکر نہیں ہے بلکہ سنی اور شیعہ سے بالکل ہٹ کے ایک ریگولر فرقہ ہے جسکے ماننے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور اس کے فالورز 2 براعظموں یعنی ایشیاء بالخصوص مشرق وسطی اور پھر افریقہ میں پائے جاتے ہیں اور یہ کہ عمان 🇴🇲 میں اکثریت ہی اباضی افراد کی ہے۔
تو چلیے جانتے ہیں اباضیت کے بارے میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ :
اباضیت کی تاریخ اسلام کی ایک ناپسندیدہ تحریک “خوراج” سے شروع ہوتی ہے کہ جن کا ظہور علی بن ابی طالب کے دورِ خلافت میں ہوا۔
بنیادی طور پر خوراج ایک ایسا گروہ یا تنظیم تھے کہ جنہوں نے اس دور میں اسلام کے دو سیاسی طور پر طاقتور سیاسی گروپس یعنی علی بن ابی طالب اور معاویہ بن ابی سفیان سے اختلاف کرتے ہوئے مین سٹریم اسلام سے الگ ہوتے ہوئے ایک نئی تحریک کی بنیاد رکھی۔
یہ تحریک عرصہ دراز تک اسلام بالخصوص عرب دنیا میں ایک بڑا دردِ سر بنی رہی یہاں تک کہ مین سٹریم اسلام کے خلاف انہوں نے کئی بغاوتیں چھیڑنے ، بحران پیدا کرنے اور علی سمیت کئی اہم شخصیات کے قتل تک کا ارتکاب کیا۔
لیکن۔۔۔۔ جیسا کہ میں نے بتایا یہ تحریک کوئی فرقہ یا مسلک نہ تھا بلکہ یہ ایک گروہ یا تنظیم کی طرح تھے۔ تو آنے والے سالوں میں ان کی یہ تحریک مردہ ہوتی چلی گئی۔
لیکن اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے خود کو مین سٹریم اسلام کے دونوں گروہوں سے تو باغی کر ہی لیا تھا مذہبی اور سیاسی دونوں اعتبار سے۔
تو تحریک کے دم توڑ جانے کے بعد اگلی یا اس سے اگلی نسل کے خوراج کا مذہبی مستقبل کس کروٹ بیٹھتا۔۔۔۔۔؟ کیا اب وہ سنی فرقہ کو جوائن کرتے یا پھر شیعہ فرقہ کو ؟
تو یہیں سے اس نئی برانچ یا فرقہ “اباضیت” کی بنیاد پڑی ۔ گویا انہوں نے اپنے آپ کو ایک تیسرے فرقے میں ڈھال لیا کہ جو نہ سنی تھا اور نہ شیعہ بلکہ ہر دو فرقوں سے الگ ایک نیا مسلک تھا۔
اب یہاں پر یہ بات یاد رکھیے کہ خوارج کی تحریک ختم ہوچکی اور اباضیت ایک نئے فرقے کے طور پر ڈیویلپ ہوئی اس لیے اباضیوں کو خارجی یا ان کے مسلک کو خارجیت سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بانی شخصیات :
اباضیت کو 2 شخصیات نے باقاعدہ طور پر ایک مسلک کی شکل دی ۔
1-عبداللہ بن اباض۔ از بصرہ ، عراق۔ متوفی، سنہ 708
2- جابر بن زبیر ، از عمان۔ متوفی 711
۔۔۔۔۔۔۔
عقائد :
یوں تو اکثریت اباضی عقائد سنی جبکہ کہ دیگر شیعہ جیسے ہیں تاہم اباضی فرقے میں کچھ الگ عقائد بھی موجود ہیں جیسے۔۔۔
1-بنیادی اباضی عقیدے کے مطابق علم ، دانائی، قدرت اور اللہ کی سب صفات دراصل صفات نہیں بلکہ بذات خود وجود الٰہی کا حصہ ہیں۔
2-قرآن کے بارے میں اباضی عقیدہ یہ ہے کہ قرآن کو تخلیق کیا گیا۔۔۔۔یہ عقیدہ معتزلہ عقائد کے قریب ہے ۔
3- دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے یا انسان جو کچھ کرتا ہے وہ سب پہلے سے خدا کی طرف سے ترتیب دیا گیا ہوتا ہے۔۔۔ یہ عقیدہ اشعری مسلک کے عقائد کے قریب ہے۔ جبکہ مین سٹریم اسلام میں اس کے برعکس یہ عقیدہ ہے کہ “خدا نے دنیا میں انسان کو اعمال کی آزادی دی ہے۔ اور نیک یا بد اعمال انسان اپنی مرضی سے چنتا اور کرتا ہے”.
4- اباضی عقیدہ کے مطابق گناہ کبیرہ کا مرتکب شخص (اگر توبہ نہ کرلے تو) دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔اور یہ عقیدہ خوراج یعنی اباضیت کی بنیاد کے نزدیک ہے۔
5- اباضیت میں سربراہ “امام” کہلاتا ہے۔۔۔لیکن امام کے چناؤ کا طریقہ کار شیعہ اور سنی اسلام سے مختلف ہے۔۔۔اباضیت میں امام کا کسی خاص نسب سے ہونا ضروری نہیں ہے ۔ جیسا کہ شیعہ اسلام میں ہے۔ بلکہ اباضیت میں امام کو ، سینئیر یا جید علماء کا اکٹھ منتخب کرتا ہے۔۔۔یعنی اس طریقہ کار کو ہم “اندرونی اجماع” بھی کہہ سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقہ :
یوں تو اباضی فقہ میں بہت حد تک سنی پیٹرن کو فالو کیا جاتا ہے یعنی قرآن۔۔۔۔احادیث۔۔۔اجماع۔۔۔قیاس۔ لیکن۔ اس سے آگے یعنی “تقلید” پر یہ لڑی ٹوٹ جاتی ہے اور اباضی مسلک میں تقلید ناجائز ہے بلکہ اس کے بجائے “اجتہاد” کو ترجیح دی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ اب اس میں عدم تقلید کا عنصر سلفی اسلام کے نزدیک ہے جبکہ اجتہاد کا اباضی پیٹرن شیعہ اسلام کے نزدیک ہے۔
۔
بات کریں حدیث کی تو اباضیت میں نہ تو سنی اور نہ ہی شیعہ مجموعات حدیث کو فالو کیا جاتا ہے بلکہ اباضی مسلک کا اپنا مجموعہ احادیث ہے جسے “ترتیب المسند” کہا جاتا ہے جس میں 1 ہزار سے زائد احادیث ہیں۔ اس کے علاؤہ اباضیت میں “جامع صحیح” اور “مسند الرابعہ” جیسے کچھ الگ مجموعات حدیث بھی موجود ہیں۔
۔
اباضییت کے پیروکار نماز پڑھتے ہوئے ہاتھ چھوڑے رکھتے ہیں اور یہ طریقہ کار شیعہ برانچ کے اکثریت مکاتبِ فکر کا ہے۔
اباضیت کی تمام عبادات مین سٹریم اسلام کے جیسی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکومت :
شاید آپ کو یہ جان کر شدید حیرت ہو کہ جس طرح اسلام کے پہلی دونوں بڑی شاخیں تاریخ میں مختلف ادوار میں اور متوازی ادوار میں بھی اپنی خلافتیں قائم کرچکی اور چلا چکی ہیں۔۔۔۔ جیسے
1-خلافت بنو امیہ
2- خلافت عباسیہ
بالکل اسی طرح اباضی بھی ایک طویل عرصہ ، ایک بہت طویل عرصہ اپنے طرز کی خلافت چلا چکے ہیں۔
اب چونکہ اباضیت میں خلافت کے بجائے “امامت ” کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے یعنی خلیفہ ، حاکم کو امام کہا جاتا ہے تو اسی نسبت سے اس خلافت کو “إمامة عُمَان” یا Imamate of Oman کہا جاتا ہے۔۔۔۔اور۔۔۔۔ یہ حکومت نہ صرف عمان ، سقطری، یمن (ایشیاء) سے لیکر صومال، زنزبار اور تنزانیہ (افریقہ) تک ایک پٹی کی صورت میں پھیلی ہوئی تھی۔۔۔۔بلکہ۔۔۔۔ایک اسلام کی شاید سب سے طویل سلطنت تھی کہ جو سنہ 715 سے 1959 تک قائم رہی گویا اس نے 1244 سال حکومت کی۔۔۔۔۔یہاں تک کہ اس سلطنت کے آخری امام “غالب الحنائی” کی وفات ابھی 2009 میں ہوئی ہے۔
مطلب یہ بات انتہائی متاثر کن اور حیرت انگیز ہے کہ اباضی سلطنت کا دور اموی، عباسی، ترک عثمانی ، لودھی ، مغلیہ ، صفوی سمیت سبھی اسلامی سلطنتوں سے طویل رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ اباضیت :
جیسے کہ ہم بات کرچکے کہ اباضیت کی بنیاد اسلام کی سب سے سخت گیر تحریک خوارج سے ہوئی ۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اباضی بنیادی طور پر اسلام کی دیگر شاخوں کی نسبت کافی سافٹ اپروچ رکھنے والا مسلک ہے اسلام کے دیگر مسالک ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے لیے بھی ایک نرم اور معتدل مزاج رکھنے والے لوگوں پر مشتمل ہے۔۔۔۔ اس مسلک کے ماننے والوں میں فرقہ واریت یا تعصب بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ جس کی سب سے بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ اباضیت کے اندر اسلام کے تقریباً سبھی بڑے مسالک کے عقائد کا کچھ نہ کچھ حصہ موجود ہے۔
اور شاید یہی وجہ ہے کہ عمان ، مشرق وسطیٰ کے سب سے پرامن ممالک میں سے ایک ہے۔
****
تحریر: ستونت کور
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...