پیارے بچو! صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو اسلام لانے پر بہت ستایا گیا۔ انہوں نے اسلام کی خاطر بڑی قربانیاں دیں، یہی وجہ ہے کہ صحابہ ؓ کا مرتبہ بہت بلند و بالا ہے۔ آئیے، ہم آپ کو ایک عظیم صحابی حضرت ابو جندل ؓ کے بارے میں بتاتے ہیں جن کو ایمان لانے پر قید میں ڈال دیا گیا تھا۔
حضرت ابوجندل ؓ کا اصل نام عاص تھا لیکن وہ اپنی کنیت "ابوجندل" سے مشہور ہیں۔ ان کے والد کا نام سہیل بن عمرو تھا جو قریش کے نامور خطیب تھے۔ جب ابوجندل ؓ اسلام لے آئے تو ان کے والد بہت غصہ ہوئے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیں اور قیدخانے میں قید کردیا۔ قیدخانے میں بھی انہیں مارا پیٹا جاتا تھا۔ ابوجندل ؓ قید سے فرار ہونے کی کوششیں کرتے اور نبی ﷺ سے ملنے کیلئے بے قرار رہتے۔
اسی دوران ہمارے نبی محمد ﷺ نے مدینہ ہجرت کی۔ پھر غزوہ بدر، احد اور خندق کی جنگیں ہوئیں۔ مقید ہونے کی وجہ سے ابوجندل ؓ ان جنگوں میں شرکت نہ کرسکے اور کافروں کے خلاف لڑ نہ پائے۔
آخر ایک دن ابوجندل ؓ کو قیدخانے سے بھاگنے کا موقع ملا۔ وہ بھاگ نکلے اور مسلمانوں کی پناہ میں آنے کیلئے حضور ﷺ کا پتہ پوچھتے پوچھتے حدیبیہ کے مقام پر پہنچے۔ یہاں مکہ کے قریش اور نبی محمدﷺ کے مابین صلح کی شرائط طے کی جا رہی تھیں۔
سالہا سال قید کی زندگی گزارنے کی وجہ سے ابوجندل ؓ کمزور اور لاغر ہوگئے تھے۔ جسم پر جگہ جگہ مار پیٹ اور زخم کے نشانات تھے۔ انہیں اس قدر برے حال میں دیکھ کر صحابہ ؓ بے چین ہوگئے۔ انہیں حضور ﷺ کے پاس لایا گیا۔ اتفاق دیکھئے کہ قریش کے نمائندے کے طور پر ابوجندل ؓ کے والد سہیل بن عمرو موجود تھے۔ انہوں نے ابوجندل ؓ کو دیکھا تو بڑے چراغ پا ہوئے۔ اور انہوں نے حضور محمد ﷺسے ابوجندل ؓ کو صلح حدیبیہ کی ایک شرط کے تحت واپس مانگا۔
حضور محمد ﷺنے اعتراض کیا کہ ابھی تو صلح کی شرائط لکھی ہی نہیں گئیں، ہم ابوجندل ؓ کو واپس کیوں کریں؟ لیکن سہیل اَڑ گئے۔ آخرکار حضور ﷺنے ابوجندل ؓ کو ان کے والد سہیل بن عمرو کے حوالے کردیا۔
یہ دیکھ، ابوجندل ؓ رونے لگے اور مسلمانوں کو غیرت دلانے لگے۔ لیکن چونکہ محمد ﷺ کا حکم تھا اسی لیے کسی صحابی نے کچھ نہیں کہا البتہ سبھی کی آنکھیں ان کے لیے اشکبار تھیں۔ محمدﷺ نے ابوجندل ؓ کو صبر کی تلقین کی۔
سہیل بن عمرو نے ابوجندل ؓ کو مکہ لے جا کر دوبارہ قید کردیا۔ اس طرح ابوجندل ؓ دو گھڑی کیلئے بھی آزادی کی سانس نہ لے سکے۔ لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ برابر قید سے فرار ہونے کی کوششیں کرتے رہے۔ کچھ عرصہ بعد دوبارہ قید سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ اب وہ محمدﷺ کے پاس مدینہ نہیں جا سکتے تھے کیونکہ صلح حدیبیہ کی شرائط کی وجہ سے انہیں دوبارہ ان کے والد اور مکہ والوں کے حوالے کردیا جاتا۔ وہ مدینہ کے ساحلی علاقہ "مقامِ عیص" میں جا کر رہنے لگے۔ انہی کی طرح ایک مظلوم صحابی ابو بصیر ؓ بھی وہاں رہتے تھے اور کفارِ مکہ کو پریشان کرنے کیلئے ان کے تجارتی قافلوں کو لوٹ لیتے تھے۔ ابوجندل ؓ نے بھی ابو بصیر ؓ کے ساتھ مل کر کفار کے قافلوں میں مسلسل لوٹ مار کرکے ان میں خوف و ہراس پھیلا دیا۔ مزید مظلوم صحابہ ؓ یہاں جمع ہونے لگے اور ان کی تعداد بڑھتی گئی۔
ان کی لوٹ مار سے قریشِ مکہ بہت پریشان ہوئے۔ کافی سوچ بچار کے بعد انہوں نے حضور محمد ﷺ کو پیغام بھجوا کر صلح حدیبیہ کی وہ شرط منسوخ کردی جس کی رو سے ان مظلوم صحابیوں کو قریش کے حوالے کیا جا سکتا تھا۔ حضرت محمد ﷺ نے ان صحابیوں کو خط لکھا اور مدینہ بلا لیا۔ مقامِ عیص کے تمام صحابہ ؓ مدینہ لوٹ آئے اور امن و سکون سے رہنے لگے۔
حضرت ابوجندل ؓ نے فتح مکہ، حنین، طائف اور تبوک وغیرہ غزوات میں حصہ لیا۔ اور دورِ خلافت میں مسلسل میدان جہاد میں رہے۔ ۱۸ ہجری میں طاعون کی وبا سے متاثر ہو کر عمواس شہر میں وفات پائی۔