ڈاکٹر رانا دجانی اُردن سے تعلق رکھنے والی ایک مالیکیولر بیالوجسٹ ہیں۔ ڈاکٹر رانا دجانی کے والد فلسطینی جبکہ والدہ شامی تھیں۔ اُن سے جب اُن کی شہریت کے متعلق پوچھا جاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو آدھا فلسطینی اور آدھا شامی بتاتی ہیں جس کے پاس اُردن کی شہریت ہے۔ ڈاکٹر رانا نے یونیورسٹی آف جارڈن سے بیالوجی میں بیچلرز اور ماسٹرز کیا۔ ڈاکٹر رانا نے 1992 میں یونیورسٹی آف آئیووا سے مالیکیولر بیالوجی میں Phd. کیا۔ اُنھوں نے Philadelphia یونرسٹی میں بطور لیکچرر کام کیا۔وہ Yale یونیورسٹی میں genetics ڈیپارٹمنٹ میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر وزٹ کرتی رہیں۔ وہ 2012 سے Stanford یونیورسٹی کے ایک پروگرام میں بطور mentor کام کر رہی ہیں۔
لیکن ڈاکٹر رانا دجانی کی ایک خاص بات ہے جو اُنھیں مسلمان سائنسدانوں میں ممتاز بناتی ہیں۔ اور وہ خاص بات یہ ہے کہ وہ اُن چند مسلمان سائنسدانوں میں سے ایک ہیں جو Theory of Evolution پر قطعیت کے ساتھ یقین رکھتے ہیں۔ بلکہ ڈاکٹر رانا ایک قدم اور آگے بڑھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ نظریہ ارتقاء اب محض نظریہ(theory) نہیں ہے بلکہ یہ ایک سائنسی حقیقت (Scientific Fact) ہے۔ اس موضوع پر ان کے بہت لیکچرز YouTube پر موجود ہیں۔ ذیل میں انہی لیکچرز میں سے ایک میں اس موضوع پر اُن سے کیے گئے سوالات، اور ان کے دیے گئے جوابات تحریر کیے گئے ہیں۔
سوال: ارتقاء(Evolution)، سائنس کی یہ مشہور متنازعہ شاخ، کیا یہ ایک حقیقت ہے یا نظریہ؟
ڈاکٹر رانا: ارتقاء(Evolution)، خاص طور پر حیاتیاتی ارتقاء((Biological Evolution) دراصل ایک حقیقت ہے، یہ سائنس نےتجربات اور شواہد کی مختلف شکلوں کا استعمال کرتے ہوئے ،سائنسی طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ زمین کی پوری تاریخ میں حیاتیات ایک بہت ہی سادہ ابتداء سے اس پیچیدگی تک ارتقاء پذیر ہوئے ہیں جسے ہم آج تنوع(diversity) پر دیکھتےہیں۔ ہم آج دیکھتے ہیں اور ارتقاء(Evolution) دراصل ہو رہا ہے پوری زمین پر مختلف انواع اور مختلف جگہوں پر جیسا کہ ہم ابھی بات کر رہے ہیں ارتقاء ابھی بھی جاری ہے۔ تو یہ ایک حقیقت ہے، یہ ایک نظریہ(theory)نہیں ہے کیونکہ عام طور پر کوئی نظریہ(theory)ایسی چیز ہوتی ہے جسے آپ جانچتے ہیں اور آپ اسے آزماتے ہیں کہ ہو سکتا ہے یہ ثابت ہو یا نہ ہو تب تک یہ درستنہ ہو لیکن ساتھ ساتھ ہمیں اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ سائنس ہمیشہ بدلتی رہتی ہے اس لیے آج ہم کیا جانتے ہیں، آج کےحالات اور آج کے سائنسی طریقہ کار کی کسوٹی پر ارتقاء ایک حقیقت ہے لیکن ہم نہیں جانتے کہ مستقبل میں کیا نئی دریافتیں آسکتی ہیں کہ ارتقاء کے عمل اور حیاتیات میں تنوع(diversity) کی وضاحت کرنے کے لیے موجود مختلف میکانزم کے بارے میں ہماریسمجھ مزید آگے بڑھ سکے۔ تو ہمارے آس پاس کی دنیا کے شواہد نے ثابت کیا ہے کہ ارتقاء(Evolution)، حیاتیاتیارتقاء(Biological Evolution) ایک حقیقت ہے۔ یہ ہر وقت ہورہا ہے اور ہمارے پاس ایسے سائنس دان ہیں جو اس عمل کے پیچھےکام کرتے ہوئے میکانزم اور حقائق کی وضاحت کے لیے مختلف تجاویز لے کر آتے ہیں، یہ میکانزم جو ہم تجویز کرتے ہیں آج ہمارے پاسموجود ثبوتوں کے اندر درست ہو سکتے ہیں لیکن وہ تبدیل بھی ہو سکتے ہیں اگر وہ کسی نئے شواہد کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ بلکل اسی طرح ہے جیسے سائنسدان کسی ماڈل کے ذریعے کسی physical اور biological مظاہر، جن کی کہ ہم موجودہ میسّر سائنسی آلاتکے ذریعے پیمائش کرسکتے ہیں، کوسمجھتے ہیں۔
سوال: اس بات کے ثبوت کی کیا اہم خطوط ہیں کہ حیاتیاتی ارتقا(Biological Evolution) واقعی واقع ہوا ہے؟
ڈاکٹر رانا: تو ماضی میں سائنس دانوں کے پاس جو شواہد دستیاب تھے وہ یا تو فوسل(Fossils)شواہد تھے یامورفولوجیکل(Morphological) شواہد یا ایمبریالوجی(Embryology)۔ یہ ہمارے ثبوت کے ذرائع تھے یہ ثابت کرنے کے لیے کہارتقاء ایک حقیقت ہے اور یہ کہ یہ واقعتاً ہو رہا ہے لیکن ثبوت کے یہ ذرائع بھی بعض اوقات فوسل شواہد کی طرح مکمل نہیں ہوتے۔ اورلوگ کبھی کبھی اسے ارتقاء کے حقائق کے خلاف دلیل کے طور پر استعمال کرتے ہیں لیکن اب سالماتی حیاتیات(Molecular Biology) اور جینیات(Genetics) کی ترقی اور ڈی این اے کی دریافت اور اس کے نتیجے میں کھلنے والے تمام شعبوں کی دریافتکے ساتھ اب ہمارے پاس اس بات کا قطعی ثبوت(Absolute Evidence) موجود ہے کہ ارتقاء ایک حقیقت ہے اور یہ ابھی بھی ہو رہاہے اور یہ ثبوت درحقیقت ڈی این اے، جو تمام جانداروں کو بناتا ہے، میں موروثی طور پر موجود ہے لہذا ہر جاندار بیکٹیریا یا وائرسسے لے کر انسان جتنا پیچیدہ تک بنیادی مالیکیول سے بنا ہے جو کہ ڈی این اے ہے اور DNA چار نیوکلیوٹائیڈز C T G A سے بنا ہےاور نیوکلیوٹائڈس کی یہ ترتیب اپنے اندر وہ تمام معلومات رکھتے ہیں جو کسی بھی جاندار کو بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے جو ابھیوجود رکھتا ہے یا ماضی میں موجود تھے۔ اب جب آپ ان شواہد کو دیکھتے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ تمام جاندار اپنے انتہائی تنوعکے ساتھ ایک ہی اصل سے آتے ہیں تو آپ مختلف جانداروں میں ایک خاص پروٹین کی ترتیب اور مماثلت کا موازنہ کرتے ہیں تو مثالکے طور پر ہم انسان میں موجود ایک پروٹین لے سکتے ہیں جیسے سائٹوکروم سی اور اس کا موازنہ پرائمیٹ سے کریں یا اس کا موازنہچوہے یا مینڈک سے کریں یا پودے میں کریں یا یہاں تک کہ بیکٹیریا میں بھی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ مماثلت بہت زیادہ ہے۔ کچھایسی چیزیں ہیں جو species کے درمیان بہت زیادہ محفوظ ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم سب ایک سادہ سے مادہ سے پیداہوئے ہیں اور یہ کہ حیاتیات کی ہر ایک شاخ اپنے ارد گرد کے ماحول کے مطابق آگے بڑھی ہے تاکہ آنے والی نسلیں اس نئے ماحول میں بہتر طور پر زندہ رہ سکیں۔ لیکن یہ حتمی ثبوت ہے۔
سوال: انسانی ارتقاء کے بارے میں کیا خیال ہے؟
بہت سے مسلمان کہتے ہیں: میں حیاتیاتی ارتقاء کے حوالے سے بالکل ٹھیک ہوں، مجھے بیکٹیریا کے ارتقاء کی کوئی پرواہ نہیں ہے،لیکن انسانوں کے لیے، نہیں، میرے پاس قرآن اور حدیث سے واضح متن موجود ہے کہ ہم انسان بطور انسان بنائے گئے ہیں۔
ڈاکٹر رانا: ٹھیک ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ ارتقاء ایک حقیقت ہے اور اسی طرح یہ وہ عمل ہے جو اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ تمام مختلف جاندار آج زمین پر کیسے وجود میں آئے اور انسان ان مختلف جانداروں میں سے صرف ایک اور نوع ہے جو آج موجود ہےیا زندہ ہے لہذا ہم ماہر حیاتیات اور سائنس دان انسانی انواع کو اس عظیم الشا عمل سے خارج نہیں کر سکتے کہ فطرت کی تخلیقکہ خدا نے انسانوں کو اس تخلیق کا حصہ بنایا ہے اس لیے وہ اس عمل کا حصہ ہیں اور وہ اس لحاظ سے ارتقاء کی پیداوار ہیں،چاہے کچھ لوگ قرآن مجید کی آیات انسانوں کے ارتقاء کے خلاف بحث کرنے کے لیے استعمال کریں خاص طور پر جن باتوں پر میراخیال ہے وہ یہ ہے کہ وہ چیزوں کو لفظی طور پر نہ لیں، قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے جس پر وہ عمل کریں، انہیں اس کے ٹھوسثبوتوں کو دیکھنا چاہیے جو سائنس میں ہیں۔ جو سائنسی طریقہ کار اور سائنسی حقائق کے مطابق چیزوں کی وضاحت کرتا ہے اوراگر وہ بظاہر مذہبی متن اور جو سائنس پیش کر رہی ہے اس میں تضاد دیکھتے ہیں تو انہیں اپنی مذہبی کتابوں کی طرف واپس جاناچاہئے اور اگر اس سے انہیں بہتر محسوس ہوتا ہے تو اس کی دوبارہ تشریح کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس بات کو قبول کرنے کےلیے کہ سائنس درحقیقت جو پیش کر رہی ہے کہ انسانی ارتقاء فطرت کے عمل کا صرف ایک حصہ ہے جو مختلف جانداروں کی نشوونما میں ہم آج دیکھ رہے ہیں اور میں یہ بھی شامل کرنا چاہتا ہوں کہ انسانی ارتقاء بہت متنازعہ ہے اور اللہ قرآن نے ہمیں اسسے آگاہ رہنے کو کہا کیونکہ ہم مغرور ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں سب سے اہم ہونا چاہیے اور ہم بحیثیت انسان ایک چمپ سےکیسے پیدا ہو سکتے ہیں کہ ہماری اور چمپینزی کی اصل ایک ہے اور مجھے قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے۔ اس جال میں نہیں پھنسنا چاہیےہمیں متکبر نہیں ہونا چاہیے ہم اللہ کی تخلیق کا حصہ ہیں اس لیے ہم چمپینزی بیکٹیریا ہم سب اس منصوبے کا حصہ ہیں اور ہمیں متکبر ہونے کے بجائے اسے قبول کرنے کے لیے عاجزی سے کام لینا چاہیے اور یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ہم مختلف ہیں۔
سوال: پھر آدم کون تھے… قرآن جن کے بارے میں بات کرتا ہے؟ کیا آدم… پہلے انسان؟
ڈاکٹر رانا: تو آدم کون تھے، اس کا جواب کسی کو نہیں معلوم اور یقیناً میرے پاس اس کا جواب نہیں ہے لیکن میں جو تجویز کرتی ہوںوہ یہ ہے اور یہ میری ذاتی رائے ہے کہ قرآن میں جس آدم کا ذکر آیا ہے وہ عمومی طور پر انسانیت کا ایک استعارہ ہے۔ اب اگر میں اس کے بارے میں بات کرنے جا رہی ہوں کہ اس کا لفظی مطلب کیا ہے کہ آدم کیسے پیدا ہوے جیسا کہ تاریخ میں بالکل وہی ہوا جیساکہ میرے پاس یہ علم نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے پاس یہ علم ہے تاہم یہ تحقیق کے لیے ایک کھلا میدان ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کااصل مطلب کیا ہے قرآن کا کیا مطلب ہے لیکن بحیثیت سائنس دان میرے نزدیک انسان دوسرے جانداروں کی طرح ارتقاء پذیر ہوا وہاںانسانی نوع ہومو سیپینز کی بتدریج ترقی ہوئی جو پچھلی نسلوں یا ذیلی نسلوں سے نکلی جیسا کہ آج ہم وائرس اور بیکٹیریا میں دیکھتے ہیں لیکن یہ عمل ایک طویل عرصے تک پھیلا ہوا ہے۔ ہم جن کو اب ہومو سیپینز کے نام سے جانتے ہیں اور یہاں تک کہ ہوموسیپینز اب بھی نشوونما اور ترقی کر رہے ہیں لیکن اس لیے کہ ہم صرف اس وقت کے مقابلے میں بہت چھوٹے پیمانے پر رہتے ہیں انسانوں کے ارتقاء کے لیے ہم شاید انسانیت کی زندگی میں کبھی کوئی چیز نہیں دیکھ پائیں گے، لیکن آدم کے بارے میں یہ میریوضاحت ہے۔
سوال: کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آدم وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے روحانیت اور خدا کو دیکھنے کی صلاحیت پیدا کی؟
ڈاکٹر رانا: شاید اسی لیے میں کہتی ہوں کہ یہ ایک استعارہ ہے کہ آدم انسانوں کے ایک گروہ کے نمائندے کے طور پر جو ارتقاء پذیرہوا اور جب ہم کہتے ہیں کہ ان کے سابقہ اجداد سے ارتقاء ہوا تو زیادہ تر ہم ادراک کی ترقی، تجریدی سوچ، اور شعور کی نشوونماکے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ بہت زیادہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ لوگوں کا یہ گروہ اس اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں اور اعلیٰ ادراک کے لیےتیار ہوا ہو، اگر آپ اسے روح کہنا چاہتے ہیں تو میرا مطلب ہے کیونکہ ہم اسے نہیں سمجھتے کیونکہ ہم اسے اچھی طرح سے بیان نہیں کر سکتے ہیں، ہمارے پاس اس کی تعریف نہیں ہے۔ لیکن میرے نزدیک یہ ایک اور بہت بڑا میدان ہے جس کی کھوج کرنا چاہیے کیونکہ ہم سائنس دان ابھی بھی نہیں جانتے ہیں کہ دماغ کیسے کام کرتا ہے، ادراک کیا ہے شعور کیا ہے یہ خلاصہ کیا ہے روح کیا ہے، انچیزوں کو ہم ابھی نہیں سمجھتے۔ اور یہ ایک بالکل نئی فیلڈ ہے جسے ہم سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں اور جتنا زیادہ ہم اسےسمجھیں گے، اتنا ہی ہم اس سوال کا جواب دے سکیں گے کہ آدم سے ہمارا کیا مطلب ہے اور اس ہزاروں سالوں میں ارتقاء کے عملمیں،لوگوں کے اس گروہ کی اصل میں نمائندگی کیا ہے۔
Thanks and Best Regards,
Muhammad Abdul Haris (Haris)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...