اسلام بطور زرعی مذہب
اسلام زرعی نظام زندگی کا نمونہ پیش کرتا ہے زرعی دور کا باقاعدہ اور جدید مذہب ہے ان کے پانچ +ایک ستون ہیں
1۔توحید 2۔نماز 3۔روزہ 4۔زکوٰة 5۔حج 6۔جہاد
1۔توحید :دینِ اسلام کاانتہائی بنیادی عنصر ہے۔اسلام قدرتی و فطرتی و شخصی خدا کا قائل ہیں۔ شخصی خدا نے انسانوں کے اعمال پر جنت دوزخ بنائی ہے جبکہ قدرت سے تمام کائنات کی تخلیقات اشرف المخلوقات انسان کیلیے کی ہیں اور فطرت کے اس کی قانون سازی کردی ہے۔ اسلام باقی تمام مذاہب سے پرستش کے نسبت عبادت کی بات کرتا ہے عبادت بندگی کی علامت ہے تاکہ شخصیت پرستی کئی شامل نہ ہوجائے۔ اس کا سماجی عنصر اسلامی تاریخ میں بالکل معدوم رہا ہے۔ دورِ نبوتﷺ کے بعد شفافیت کی جگہ شخصیت پرستی پوری اُمت پر چھا گئی۔ زرعی دور میں لوگ ہر ایک کی نسبت کسی نا کسی سے منسوب کرکے معاملے طے پاتے تھے۔ جیسے بارش سے زمین کی تروتازگی، سورج سے فصلوں کی پکائی، ہواوؤں سے شادابی، نہروں سے سیرابی، پرندوں کی آمد سے کام کا ہونا، منہ لگنا، بادشاہوں اور دوسری شخصیات سے تہذیبی وقار وغیرہ کی نسبتیں بنتی اور پھولتی رہیں جس نے اسلام پر صنعتی دورکی شفافیت پر جمود کے تالے چڑھا دئیے ۔ بجائے وحدانیت صنعتی دور کا پیش خیمہ ہوتی اس نے نئی سوچوں پر چوکیدار بٹھادئیے اور اسکی بنیاد پر تفریق پیدا کرنی شروع کردئیے۔ مسلمان بت پرستی نہیں تو شخصیت پرستی میں ہر فرقے کا فرد شامل ہے بنیادی طور پر فرقہ یا روائیتی مذہب بنتا ہی شخصیت پرستی پر ہی ہے اس سے پہلے تک وہ ایک تحریک کی شکل ہوتی ہے
دعا مانگنا مذہب کا انتہائی بنیادی عمل ہے جسے اسلام نے تمام عبادات کا مغز قرار دیا ہے جب انسان نے دعائیں مانگنا چھوڑ دیں تو مذہب کی برہمنیت سے جان چھڑالیں گے
2۔نماز: نماز ایک طرح کی دعا ہی ہے لیکن اس میں اوقات کارکی پابندی، وضو سے صفائی ستھرائی، ذہنی تشنگی سے تروتازگی اور سب سے بڑھ کر جسمانی ورزش وغیرہ شامل ہیں۔ پورے دن یا 24 گھنٹوں کی توانائیوں کو بھرپور استعمال کی جاسکے۔ زرعی زندگی نے اپنی ترتیب سورج گردش کے لحاظ سے مرتب کیے ہیں۔ اسی لیے لوگ سورج اُگنے سے پہلے جاگ کر تیاری کرتے ہیں جس کیلیے گھر کے تمام افراد مل کر طہارت حاصل کرکے ایک مقصد کے حصول کیلیے جُت جائیں اور مختلف اوقات کے وقفے متعین کیے گئے ہوں تو تروتازگی سے تمام کام دن کی روشنی میں مکمل کرکے رات کو سکون سے سوجائیں۔ فرقہ واریت سے پہلے مسجد کمیونٹی سینٹر کا کردار ادا کرتی تھی لوگ مل کر معاشرہ میں لوگوں کے مسائل کیلیے امداد کرتے تھے ایک زرعی اشتراکیت کی شکل بنتی تھی۔ کمیونسٹ صنعتی مذہب یا صنعتی اشتراکیت ہے برٹنڈرسل نے کہا تھا قریباً 400 سال بعد کمیونزم کے لوگوں کے ساتھ تحریمی ناموں کا اضافہ ہوجائے۔ ایک جگہ اور فرماتے ہیں کمیونزم اسلام کی طرح بڑی تیزی سے پھیلنے والی ایک تحریک ہے
کسی شخص کی فوتگی پر پڑھی جانے والی نمازِ جنازہ کا مقصد بھی مذہب کی شمولیت اختیار کرنا ہے تاکہ تمام تر اُمور مذہب کے مطابق کام سرانجام دئیے جاسکیں ورنہ ہر شخص اپنے مطابق، لگاؤ اور استطاعت کے تحت سرانجام دیتا تو وسائل کا بے انتہاء نقصان ہوجاتا۔ اسی طرح دوسری نمازیں جس میں اجتماعی مقاصد کا حصول ممکن ہو ان میں لوگ کیلیے ترتیب قائم کی گئی ہے تاکہ لوگوں کی زندگیاں تضاد سے تفریق کا شکار نہ ہوسکے۔
3۔روزہ:انتہائے سحر سے مغرب تک بھوکا ، پیاسا اور دوسرے ذاتی لوازمات سے دور رہنے کا نام ہے۔ سردیوں میں انتہائے سحر کا وقت دیر سے ہوتا ہے جبکہ گرمیوں میں ۳ بجے کے قریب ہوتا ہے۔ زرعی نظامِ زندگی کا معمول روشنی سے پہلے بیداری ، کھیتی باڑی، مال مویشی کی دیکھ بھال اور دوسری مصروفیات سے سبکدوش ہوکر انتہائی گرمی میں جب دن لمبے ہوتے ہیں سستاتے رہتے ہیں جبکہ سردیوں میں دن چھوٹے ہونے کی وجہ سے دوسرے کام کاج دن کی روشنی میں تکمیل تک پہنچائے جاتے ہیں اور مغرب تک تمام کام ختم کرنے کے بعد کھانا کھاکر عشاءتک فارغ ہوجاتے ہیں اور سو جاتے ہیں جبکہ صنعتی نظامِ زندگی کی ابتداءکا سورج کے اوقات کارسے کوئی لینا دینا نہیں جو توانائی سورج دیتا ہے صنعتی زندگی میں لوگ بجلی سے حاصل کرلیتے ہیں کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو 12بجے کے بعد سوتا ہے اور 3-5بجے صبح نہیں جاگ سکتا کیونکہ انسان کی نیند کی ترتیب کم از کم 4-6 گھنٹے ہے اگر صبح سحری کرکے فوراً سو جاتا ہے تو پیٹ خراب ورنہ نیند خراب اوپر سے گرمی سے جسم کا پانی کم ہونے سے صنعتی مزدوروں کے کمزور جسم بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔روزہ رکھ کر جسم نرم گرم رہتا ہے بلکہ جسم کے ہر حصے سے دھواں نکلتا رہتا ہے جسم سلگتا رہتا ہے۔ روزے کی حالت میں طبیعت بوُجھل اور تھکان محسوس کرتا ہے۔ اور اگر کسی نے آٹھ پہرہ روزہ رکھ لیا نیند تو پوری ہوجاتی ہے پر پیٹ خالی ہونے سے نمکیات اور شیرینی سطح کم ہوجاتی ہے ۔ اس سے گردے، اور معدے کے ساتھ کام کی پیش رفت میں بھی کمی آتی ہے۔ روزہ رکھ کر بندہ آدھ مویا ہوجاتا ہے صنعتی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ ظاہری سی بات ہے کہ اسلام نے روزہ کے نفاذ کیا تھا تو اس میں کئی حکمتِ عملیاں بھی ہونگی جیسے کئی سماجی کاموں کے دباؤ سے لوگ نشہ آوراشیاءکا استعمال شروع کردیتے ہیں جس میں سگریٹ، پان، نسوار، شرآب، جوا، زنا وغیرہ شامل ہیں ان سے تطہیر کا بندوبست بھی کرتا تاکہ انسان دوبارہ صحت مند زندگی کا آغاز کرسکے۔
4۔زکوٰة:صاحبِ نصاب اپنی دولت کا مخصوص حصہ نکال کر اجتماعیت کے استعمال کرنےکیلیے وقف کردیتا ہے زرعی اجناس، سونا، چاندی، پالتو جانوروں پر زکوٰۃ اور عشر دینے کا حکم ہے تاکہ اللہ انسان کا باقی مال کردے ورنہ وہ مال اس کے گلے کا طوق بن جائے گا اسکی ادائیگی خالصتاً خدائی طاقت کے تحت عمل پیرا ہوسکتی ہے۔اور خدائی خلیفہ خدائی تقسیم کا بندوبست کرتا ہےکچھ لوگ مالی دور میں کسی قسم کی مصروفیت سے پیچھے رہ جاتے ہیں یا اجتماعی معاشرتی معاملات، سیاسی معاملات اور تہذیبی معاملات پر خرچ کی جائے گی۔چونکہ چند لوگ مال کو ذکی کرنے کے بجائے مال کو بڑھانے کے چکروں میں ہوتے ہیں جب ان کی تعداد بڑھتی ہے تو وہ تہذیبی طور پر لوگ عدم تحفظ کا شکار ہوجاتے ہیں اور رقم چند ہاتھوں میں سمٹنے لگتی ہے صنعتی دور میں انسانوں کے باہمی مالی معاملات میں حکومت اسی وقت اپنا حصہ(ٹیکس) کاٹ لیتی ہے جس سے وہ زکوٰۃ کی حقدار نہیں رہتی لیکن کئی جگہ دونوں طرح سے بے وقوف بنا کر لوٹا بھی جارہا ہے۔ زرعی دور میں زکوٰۃ سے بادشاہت قائم ہوسکتی تھی اور سود تہذیبوں کھوکھلا کردیتا تھا لیکن جدید دور نے سود کی اہمیت بڑھا دی ہے جس سے انسان کا کسی قسم کا ذاتی یا اجتماعی نقصان نہیں ہے اور اسکی وجہ سے نظام معاشرت ترقی کرنے لگا ہے اور مسلمان اس سے پیچھے رہ کر اپنا مزید نقصان کر رہے ہیں حالانکہ مطلق العنان اخلاقیات کا اسلام بھی قائل نہیں
5۔حج:حج کا لفظی مطلب زیارت یا نظارہ کرناہے ۔ ایک ایسی سماجی عبادت ہے کہ لوگ سال میں ایک دفعہ اکٹھے ہوجائیں تاکہ دوسری علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں سے ملاپ کرنے ہم آہنگی اور قومی ینگانگت سے اسلامی ملت قائم ہوتی رہے جہاں سارے لوگ ایک پرودگار کے سامنے اپنی عبدیت ظاہر کرتے ہوئے لوگ ایک دوسرے کے قریب آتے رہیں۔زرعی دور میں لوگوں کا ماننا تھا کہ سات زمینیں اور سات آسمان ہیں جس سے سات چکر لگائے جاتے ہیں وہ روایت بھی قائم رکھنی تھی حالانکہ قرآن میں زمین کیلیے واحد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے لیکن مسلمان وہی تصور رکھتے ہیں اس کے علاوہ جنت سے آنے والے پتھر سے شروع کرنےکا مطلب ترتیب دینا ہے اس کو چومنے سے ایک شخصیت پرستی عنصر بھی نکلتا ہے جسے دوسرے مذہب کے لوگ اسی طرح کی دوسری چیزوں کو مانتے اور پوجتے ہیں۔ساری چیزوں سے سبکدوش ہونے کے بعد دور دراز کے علاقے کے لوگ سفر حج کرتے تھے ورنہ مقامی لوگ بھی کافی تعداد میں حج اور خدمت کرتے تھے اتنے زیادہ نہیں ہوتے تھے کہ خانہ کعبہ کی توسیع کی ضرورت پڑتی ۔ جیسا کہ صنعتی دور نے مختلف زرائع پیدا کردئیے ہیں جس سے اسکی وسعت کی ضرورت پڑی
حج کیلیے خانہ کعبہ میں لوگ اکٹھے ہوتے تھے اور یہی قومی عکاسی بھی کرتا تھا اور یہاں سے ہی مرکزی حکومت قائم ہوتی تھی اس کے علاوہ عمرہ کیلیے آنے والوں کیلیے کھانے پینے کی اشیاء، علمی، تہذیبی، قانونی اور دیگر اشیاء کی ترسیل کا بندوبست بھی ہوتا رہتا تھا
6۔جہاد:جہاد ایک لازمی جز ہے جسے اکثر اسکی اہمیت کو جھٹلاتے ہیں لیکن چاہے اس میں اسلامی مُلا ہو یا لبرل دونوں شامل ہیں۔ اسکی اہمیت کو نظر انداز نہیں کرسکتے ۔ یہی وہ محنت بھی جسکا قیام نبیﷺ نے اپنے مخاطبین کیلیے چھوڑا تھا یہ جہاد ہی توہے جس نے بیکار بدوؤں کو اس قابل کیا کہ وہ اسلام کی حقانیت کا پرچم پوری دنیا میں گاڑ سکیں۔ خیر اسکا مطلب سوائے ابتدائی اور قرون وسطیٰ کے مسلمان سمجھ نہ سکے ۔ جہاد کا لفظی مطلب انتہائی کوشش کرنا۔ کسی کام کو اسکے درجہ کمال تک پہنچا دینا اس میں علمی ، ادبی، معاشرتی، معاشی،جنگی عمل کو درجہ کمال تک پہنچا دینا ہے جس دن سے مسلمانوں نے اسے جنگ(قتال) کیلیے مخصوص کیا ہے تب سے باقی چیزیں اپنی اصلیت کھونے کے ساتھ جنگ(قتال) فتنہِ فی الارض کا سبب بن گیا
صنعتی دور میں زرعی اخلاقیات:مذہبی علماءایسے دلائل رکھتے ہیں کہ جنکا آپس میں بھی میل نہیں کھاتا اور نا انکا اطلاق عملی زندگی میں ممکن ہے حکماءعوام کو بے وقوف بنا کر مذہبی جماعتوں کو اپنے مقاصد کیلیے استعمال کرتی ہیں۔ ایسا ہونا ناممکن ہے یہ بات ہمارے عالموں کو بھی پتہ ہے لیکن پیٹ پوجا مجبوری ہے
اللہ ہی وہ ذات ہے جس کے خوف سے لوگ سماجی معاملات احسن طریقے سے نبھاتے تھے کسی بھی چیزپر توکل یا سہارہ معاشرت کی بنیاد بنتا ہے۔ یہ توکل ذاتی سطح پر لوگوں کو طاقتور بناتا ہے اور معاشرے کا ایک سوچ پر متحد ہونا سیاسی یا تہذیبی یگانگت ہے۔ اچھے اور غلط فیصلے، قوموں کے مفاد اور ذاتی مفاد مل جائیں تو قومیں تہذیبی رنگ میں رنگ جاتی ہیں۔ کسی بھی تہذیب کا بنیاد ی جز گھرانے کا ادارہ ہوتا ہے۔ اسلامی گھرانے کی بنیاد بے وقوفی ، حق تلفی اور مردانہ طرز کے معاشرہ پر ہیں ۔ صنعتی دور میں برابری کی سطح پر قائم نہیں ہوسکتا۔ تہذیب کے آخری وقت میں چیزیں قابلِ عمل نہیں رہتی ان پر تقدس کا درجہ اتنا بڑھ جاتا ہے وہ اپنی عظیم سطح پر پہنچ کا ٹوٹ جاتا ہے جیسے یک دم کسی پر گستاخِ رسولؐ، منکر حدیث، پرویزی، غامدیت، قادیانی کہہ کر کسی انجام تک پہنچا دیتے ہیں نہیں یہ تو کہہ دیتے ہیں چھوڑوں یار فارغ ہے بھائی۔۔۔
اس وقت معاملات کی وسعت زیادہ نہیں تھی صنعتی دور میں زرعی دور کے کئی دوسرے معاملات پورے نظام بن گئے ہیں جیسےسیورج کا نظام،دودھ کی کھپت کا نظام، بازاری کھانوں کا نظام، ٹریفک کے قوانین کا استعمال، تعلیم کا نظام وغیرہ کیلیے حکومت کوقانون نافذ کرنے والے اداروں کی انتہائی ضرورت پڑتی ہے ورنہ منافع خور خدمت کے بجائے بےوقوف بناکر لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔ فرائض کے ساتھ خدمت والا پہلو زرعی دور کی تنصیبات میں معدوم ہوتا نظر آتا ہے قانون نافذ کرنے اداروں کی تعداد بڑھانے اور فعال کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ لوگوں پر اخلاق نقش نہیں کیے جاسکتے۔ کرپشن، بدعنوانی، دہشت گردی بنیادی طور پر صنعتی دور میں زرعی تنصیبات و نظام شامل کرنے کا نتیجہ ہے۔ صبر، شکر، تحمل، محنت، سکون، اطمینان وغیرہ علمی الفاظ کے بجائے تہذیبی الفاظ سے آشنائی پائی جاتی ہے کیونکہ اَن پڑھ تہذیبیں سیکھتی کم اور الفاظ و کردار کو تبدیل کرتی ہے۔ لفظ کرپشن، بد عنوانی، بد نظمی کی تشریح تبدیل ہوگئی ہے انکو پرانے معانی سے بے وقوف بناتے ہیں ۔ فرائض یا منصب ملکیت نہیں ہوتے ایسے ہی کئی چیزیں ذاتی ملکیت میں محدود ہونی چاہیے ورنہ طاقت حاصل کرکے لوگ اپنی چیزوں کو طقویت پہنچاتے ہیں سماجی و قومی چیزوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اسلام جمہوری روایات کی پاسداری کرنا۔ذاتی یا شخصی حکومت کا تصور پیش نہیں کرتا مسلمان علماء نے اسے خدائی نائب کا تصور پیش کیا اور حکومت جمہوریت سے نکل کر مائی باپ کے طرز پر چڑھ گئی کیونکہ زرعی دور میں بادشاہت کا دور دورہ تھا ۔ کلیسا کی طرح نظام تو نہیں تھا لیکن مسلمان علماء اور حکما ء نے ملکر ایسا ہی ادارہ قائم کیا ہوا تھا جسے صنعتی دور نے جمہوری روائیتوں سے توڑنے کی کوشش کی۔
انسان ذاتی سے معاشرتی ، تہذیبی اور عالمی لحاظ سے خدائی تخلیق کا آئینہ کار تھا جس پر وہ تمام چیزیں سپرد خدا کردیتا تھا۔ جبکہ صنعتی دور نے ان سارے کاموں کوخدا سے لےکر اپنے ہاتھ میں کرلیا اور بتایا کہ تخلیقی نمونہ Intelligent Design میں کئی چیزیں انسانی کی ترتیب کردہ ہیں جیسے بسوں کے اڈوں پر گاڑیوں اور لوگوں کے ہجوم لوگوں کو باہم ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا بندوبست قائم کرتا ہے ورنہ کوئی نہیں کہہ سکتا ہے کہ اسکی وجہ سے یہ نظام ہی رک جائے گا ایک دوسرے کی خدمت کرتے ہیں حالانکہ گندم کی روٹی کھانے والا ہوسکتا ہے کہ پوری زندگی گندم کیلیے کام نہ کرتا ہولیکن گندم پر کام کرنے والوں کی خدمت تو کرتا ہے جس سے اسکو گندم کھانے کا موقع ملتا ہے اور وہ اپنا پیٹ بھرتا ہے۔ دکانوں کی ضرورت آبادیوں میں پڑتی ہے اور وہاں ہی ہوتی ہیں ناکہ جنگلوں میں کوئی کھول کر نہیں بیٹھتا۔ سڑکوں پر چلنے والی گاڑیاں سنگل اور ڈبل روڈ پر چلتی رہتی ہیں کوئی کسی کو کسی وجہ کے بغیر صرف انسان ہونے کے ناطے قتل نہیں کردیتا حالانکہ بڑی گاڑیوں والے چھوٹی گاڑیوں اور بائیک کو کچھلتے ہوئے جائیں اور تلوار، چھری، چاقو، بندوق اور دوسری ضرررساں چیزوں سے خود بھی بچتے ہیں اور دوسروں کو محفوظ کرنے کیلیے کئی طبی اور علمی معلومات ورثے میں اگلی نسلوں کیلیے چھوڑتے جاتے ہیں یہی سفر انسان کو دوسرے جانوروں سے مختلف کرتا ہے کبھی کسی کو اپناتا ہے تو اس میں بھی اسکا فائدہ ہوتا ہے یہی مثالیں معاشرت کا قیام بناتی ہیں داخلی اور خارجی محرکات انسانوں میں تبدیلیاں لاتے ہیں اور یہی تبدیلیاں اکثر پورے نظام کو تبدیل کردیتی ہیں
زرعی دور میں ہل چلانے کے دوران جانوروں پر آوازیں (گندی گالیاں یا حدی خواں) کَسی جاتی تھی جس پر جانوروں مطلوبہ کام کرتے تھے صنعتی تنصیبات میں کام کرتے ہوئے ہل چلانے والےٹریکٹر کے شور سے بچنے کیلیے اونچی آواز میں مست گانے لگا کر سنتے ہیں۔ زرعی دور میں ذرائع اس قابل نہیں تھے کہ لوگ دوسرے علاقوں کی زبانیں، رواج، کلچر اور دیگر اشیاء کا موازناتی مطالعہ کرسکیں حتی کہ چاند دیکھ عید کرنے والے مسلمان ایک علاقے میں ایک دن پہلے ہورہی ہے اور دوسرے علاقوں میں اگلےدن ہورہی ہے۔ یہ چیزیں صنعتی دور نے دی اور اس نے زرعی دور کی ساری رعنائیاں ختم کردیں اور آئی ٹی نے عالمگیریت Global Village کا تصور دیا۔ حالانکہ مسلمان تبلیغ کیلیے وہی پرانی عملی مشقیں کرتے نظر آتے ہیں جبکہ حقانیت کو آئی ٹی سے دیکھا سکتے ہیں لیکن اپنے جنگل میں خود ہی شیر ہیں
زرعی سائنسی زبان میں سورج کا اگنا ،چاند کا چندہ ماموں، زمین کاشتکاری کیلیے سیدھی معلوم ہونا اور ماں کے الفاظ، ۔زرعی زندگی میں مٹی ہی اوڑھنا بچونا ہوتا تھا مکان، چھت، گھڑے، دیگچے وغیرہ مٹی کے بنے ہوتے تھے جبکہ صنعتی زندگی میں یہی چیزیں جراثیم سے پاک نہیں ہوسکتی جس کیلیےفومیک برتن استعمال ہونے لگے۔ زرعی مذاہب نے لوگوں کو نفسیاتی مسائل کے حل کئی چیزوں میں پوشیدہ کیے ہوئے تھے لیکن صنعتی دور انسانوں کو ایسی چیزیں دینے سے زیادہ تر قاصر ہیں اور لوگوں میں نفسیاتی ہیجان بڑھتے جارہے ہیں
صنعتی ممالک بنے :آج کل ممالک کی حدود اور سرحدیں نظر آتی ہیں اس میں سائنسی و صنعتی ترقی کی ملکیت ان کے باسیوں کی محنت تک محدود رکھی جاسکے لیکن کچھ لوگ ابھی بھی وہی زرعی دور کی خواہشیں رکھتے ہیں جیسے اسلام کا جھنڈا نیل سے کاشگر تک لگے گا، حدیثوں سے زرعی فوجوں کا تصور پیش کرکے اسلام کو دوبارہ کائنات کا مذہب بنائیں گے جس کیلیے وقت کے اختتام (قیامت) کا ذکر کیا جاتا ہے حالانکہ اسلام بنیادی طور پر ہیروازم(شخصیت پرستی) کی مخالفت کرتا ہے یہ اسی ہیرو کے منتظر ہیں جس سے عالمی زرعی ملک بنے گا۔
اسلام جدید زرعی مذہب ہونے کے ناطے اپنے اند ر اتنی وسعت رکھتا تھا کہ صنعتی دور میں اپنے ماننے والوں کیلیے بہترین زندگی کا بندوبست کرتا لیکن اس کے ماننے والوں نے اپنے لیے چھوٹے چھوٹے فریم بنا کر خود کبوتر کی طرح محفوظ کرنے کے چکروں میں زندگیاں بسر کر دیں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“