مغرب میں زرتشیت پر جو تحقیقات کی اور اب تک جاری ہیں اس سے ہم لوگ واقف نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جو کچھ زرتشتی مذہب کے بارے میں جانتے ہیں وہ ہم نے فارسی کتابوں جس میں شاہنامہ پیش پیش ہے اور پارسیوں کی دی ہوئی معلومات کی روشنی میں جانا ہے۔ جس کے مطابق زرتشت ایک پیغمبر تھا اور اس کو ماننے والے آگ کی پوجا کرتے ہیں اور زرتشتیت ایک ثنوی مذہب جانتے ہیں۔ یہاں تک ہمارے یہاں زرشت کے بارے میں جو کچھ کتابوں میں پیش کیا جاتا ہے وہ اس سے زیادہ نہیں ہے۔ لیکن ہم نے براہ راست کبھی اوستا کا مطالعہ نہیں کیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ اوستا اور دوسری چند کتب جو پہلوی میں لکھی گئین تھیں ان تک مسلمانوں کی رسائی نہیں رہی۔ اس کے علاوہ پارسی سے مسلمان ہونے والوں نے اوستا کا ترجمہ اور عقائد کے بارے میں لکھنے سے گریز کیا اور وہ یہ پہلو بچاگئے۔ صرف اوستا کی صخامت کے فسانے گائے گئے۔
قدم مورخین اس پر متفق تھے کہ پارسیوں کی مذہبی کتابیں بہت ضخیم تھیں۔ یونان کا ہرمیپسHermippus لکھتا ہے کہ زرتشت نے بیس لاکھ شعر کہے ہیں۔ عربی مورخ ابو جعفر زرتشت کی تصانیف بارہ ہزار بیلوں کی کھالوں پر لکھی جاسکتی تھیں۔ طبری نے لکھا ہے کہ زرتشت کے کہنے پر گشتاسپ نے اوستا کا ایک نسخہ بارہ ہزار بیلوں کی کھالوں پر آب زر سے لکھوا کر ایک مقام دربیشت (زر بہشت) میں رکھوادیا تھا۔ بعض کا خیال ہے یہ نسخہ گنج شایگان میں رکھا گیا تھا۔ نیز یہ بھی کہا جاتا ہے جاماسپ نے اوستا کی نقل زرتشت کی تعمیل میں تیار کی تھی۔ پارسیوں کا کہنا ہے کہ بشتر زرتشتی کتابیں سکندر اعظم کے زمانے میں جلا دی گیں تھیں اور باقی مسلمانوں کی فتوحات میں ضائع ہوگئیں۔
بشتر مسلمان زرتشت کو پیغمبر کی حثیت سے جانتے ہیں۔ لیکن حقیقت نے کوئی نیا مذہب پیش نہیں کیا تھا بلکہ قدیم مذہب کی تجدید اور اصلاحات کیں تھیں اور زرتشت کے بعد بھی اس مذہب میں ارتقاء جاری رہا اور اب جو زرتشتی مذہب ہمارے سامنے ہے اس کی تکمیل نویں صدی عیسوی تک ہوچکی تھی۔ تاہم اگر دبستان مذہب کی مانیں تو پندرہ صدی تک اس میں تبدیلی ہوتی رہی ہے۔
لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے قدیم زرتشتی بہت سے خداؤں کو مانتے تھے اور اس مذہب میں ہندوؤں کے دیوتاؤں کی طرح خداؤں کی کمی نہیں تھی۔ یہ عہد قدیم میں بہت سے خداؤں کو پوجتے تھے اور اہریمن کا نام اوستا میں ضرور ملتا ہے لیکن گاتھا میں یہ تصور بہت مبہم ہے اور ساسانی عہد میں زرتشتی خداؤں کی فہرست میں ہمیں نظر نہیں آتا ہے۔ اہریمن کو تصور کو تقویت زروانیت اور عرفانیت سے ملی۔ مگر اس کو ترقی مانییت اور مزوک مذہب سے ملی جنہیں پارسیوں نے مٹا تو دیا مگر ان کے اہریمن کے تصور کو مکمل طور پر اپنا کر ساسانیوں کے ذوال کے بعد زرتشتی مذہب دو خداؤں (ثنویت) کی بنیاد بنا اور زرتشتی مذہب کی نئی تصویر ہمارے سامنے آئی۔
اوستا کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے آسان نہیں ہے۔ بہت سی باتیں ان کی فہم سے بالاتر ہوتی ہیں اور جب کہ البیرونی اور پروفیسر ایڈویر براؤن نے کہا تھا اوستا کو پڑھنے سے طبعیت گھبرا جاتی ہے۔ اس کی نسب قران کو پڑھنے میں دلچسپی اور جستجو ختم نہیں ہوتی ہے۔
زرتشتیت کے بارے میں اردو کیا مشرقی زبانوں میں بھی بہت کم اور محدود مواد ملتا ہے مسلمانوں میں بہت سے لوگ میں زرتشت کو نبی مانتے ہیں۔ مثلاً مولانا ابوکلام زرتشت کو کہتے تھے۔ اردو میں زرتشت کے بارے صرف ایک کتاب سید ممتاز علی نے لکھی تھی۔ جو پہلی دفعہ ۴۰۹۱ میں چھپی تھی اور اس کتاب اب سو سال سے زیادہ عرصہ کے بعد اس کتاب کو کچھ پبلیشروں نے دوبارہ چھاپا ہے۔ اس کتاب میں اگرچہ محدود معلومات ہیں اور پرانے انداز کی ہے لیکن ایک اچھی کتاب ہے اور یہ کتاب بنیادی طور پر زرتشت کی سوانعمری ہے۔ اس میں زرتشتی مذہب اور اوستا کے بارے میں محدود معلومات ملتی درج ہیں۔ پھر بھی اس کتاب میں اردو کی دوسری کتب سے زیادہ تفصیل ملتی ہے۔ جب کہ اردو کی دوسری کتابوں میں زرتشتی مذہب کو ثنویت اور فلسفہ کو سرسری اندازہ میں درج کیا گیا اور بتایا گیا ہے کہ پارسی آگ کی پوجا کرتے ہیں۔ جب کہ ان کے عقائد اور رسومات کے بارے کچھ بھی نہیں ملتا ہے۔ اس لیے عام لوگوں کے علاوہ عام بہت کم جانتے ہیں۔ کیوں کہ ان کا ماخذ مسلم تاریخ دانوں تک محدود رہا ہے۔ حتیٰ اقبال نے فلسفہ عجم لکھی تو ان کا ماخذ زیادہ تر ان کا ماخذ بھی یہی کتب (انگلش ترجمہ) رہیں ہیں۔ تاہم اس میں بعض الہیات کے نکات کی طرف انہوں نے ان نکات کی طرف توجہ دلائی ہے جو زرتشتی مذہب میں اہم رہے ہیں اور اقبال نے انہیں زیادہ تر انگلش ترجمہ نگاروں کے حواشہ سے اخذ کیا گیا ہے۔ مغرب میں لکھی زرتشتی کتابوں میں سے کسی کتاب کا اردو میں ترجمہ نہیں ہوا ہے۔ البتہے پروفیسر براؤن کی کتاب ادبیات ایران اور پروفیسر کرسپٹین کی کتاب عہد ساسان میں اس مذہب کے بارے میں عمدہ معلومات میں ملتی ہیں۔