مسلمانوں کی تاریخ کے تمام خلفاء پر ایک ایک ویڈیو سیریز بننی چاہیے۔ اموی خلفاء، عباسی خلفاء ، فاطمی خلفاء اور عثمانی خلفاء پر فلمیں بننی چاہییں۔ مغل بادشاہوں پر بھی فلموں کی سیریز بننی چاہیے۔ عوام کو بتانا چاہیے کہ ہمارے نام نہاد بزعم خود خلفاء عورتوں کے کتنے رسیا تھے، کون کون سا خلیفہ ہم جنس پرست اور خوبصورت لڑکوں کا دلدادہ تھا۔
مشہور خلیفہ ہارون الرشید کو لونڈیاں بہت پسند تھیں، ہارون الرشید کے بعد خلیفہ بننے والا مامون الرشید ایک لونڈی کی ہی اولاد تھا۔ ہارون کو اپنے چھوٹے بیٹے معتصم سے بہت پیار تھا۔ اس نے معتصم باللہ کو پڑھانے کے لیے ایک نہایت پڑھا لکھا غلام بھرتی کیا جو چوبیس گھنٹے معتصم کے ساتھ رہتا مگر معتصم ایک لفظ تک پڑھ نہ سکا۔ آخرکار غلام مر گیا تو معتصم نے کہا شکر ہے کتاب سے جان چھوٹی۔ یہ معتصم باللہ اعلانیہ ہم جنس پرست تھا۔ اس نے خوبصورت اور چکنے لڑکوں کی پوری ٹیم رکھی ہوئی تھی۔ راہ چلتے بھی لڑکوں پر نظر رکھتا اور جو پسند آ جاتا اسے شاہی محل میں مہمان بنا لیتا۔ سلطان محمد فاتح بھی ہم جنس پرست اور لڑکوں کا شوقین تھا۔ ایران کا شاہ عباس بھی شوقین مزاج تھا، یہانتک کہ ایران کے مشہور مصور رضا عباس نے ایک تصویر میں شاہ کو لڑکے کے ساتھ رومینٹک موڈ میں بنایا ہے۔
برصغیر میں محمود و ایاز کے قصے زبان زد عام ہیں، سلطان محمود غزنوی کو ایاز سے محبت ہو گئی تھی اور اس جوڑی کو اہل فارس لیلیٰ مجنون پکارتے تھے۔ اور محمود کو کہا جاتا کہ ایسا غلام جو اپنے غلام کا غلام ہو گیا۔ محمد شاہ رنگیلا کا نام تو آپ نے سنا ہی ہو گا۔ وہ الف ننگا دربار میں آ جاتا تھا وزیروں مشیروں کو بھی کپڑے اتارنے کا حکم دے دیتا۔ وہ بھرے دربار میں پیشاب کر دیتا اور تمام دربار واہ واہ بادشاہ سلامت کے نعرے لگاتا۔ اس نے اپنے پسندیدہ گھوڑے کو بھی وزیر کا درجہ دے رکھا تھا، گھوڑے کو بھی شاہی خلعت پہنائی جاتی اور گھوڑا بھی دربار میں حصہ لیتا۔ ہندوستان کا ایک اور بادشاہ قطب الدین مبارک شاہ ہم جنس پرست تھا۔ وہ ایک ہندو لڑکے پر عاشق تھا۔ بادشاہ ایک دن دلہن بنتا تھا اور ہندو لڑکا دلہا۔ دربار میں دونوں کا باقاعدہ نکاح ہوتا تھا، رخصتی ہوتی تھی، ولیمہ ہوتا تھا اور سارے عمائدین سلطنت ’’جوڑے‘‘ کو باقاعدہ سلامیاں دیتے تھے۔ دوسرے دن وہ لڑکا دلہن اور بادشاہ دلہا بنتا تھا اور اس تقریب میں بھی تمام درباری اورشرفاء شریک ہوتے تھے۔
سید نصیر شاہ اپنی کتاب اسلام اور جنسیات میں لکھتے ہیں:-
مسلمان سلاطین نے بڑے بڑے 'حرم' بنا کر لاتعداد عورتوں کے باڑے بنا رکھے تھے۔ خلیفہ المتوکل کے پاس چار ہزار لونڈیاں تھیں۔ سپین کے عبد الرحمان سوم کے حرم میں چھ ہزار تین سو کنیزیں تھیں جو شاہی عیش سامانیوں کے لئے جمع کی گئی تھیں۔ عثمانی خلفا کے حرم میں کنیزوں کی تعداد تین سو سے بارہ سو تک رہتی تھی۔ برصغیر میں بھی مسلمان بادشاہوں کے حرم میں سینکڑوں عورتیں ہوتی تھی۔
جلال الدین اکبر اور جہانگیر کے حرم میں تین تین سو لونڈیاں موجود تھیں۔ یہ عورتیں بے حثیت اور بے قدر ہوتیں۔ زرا سا شک ہونے پر ان کا گلہ گھونٹ کر یا زہر دے کر مار دیا جاتا تھا۔ ان کنیزوں کا کوئی والی وارث رشتے دار نہیں ہوتا تھا۔ سلاطین عثمانیہ میں کنیزوں کو بوری میں ڈال کر سی دیا جاتا اور سمندر میں پھینک دیا جاتا تھا۔ جب دل بھر جاتا، نئی کنیزوں کی کھیپ لانی ہوتی، تب بھی پچھلی کنیزوں کو قتل کر دیا جاتا۔ کنیزیں وہ عورتیں ہوتیں، جو 'اسلامی' جنگوں میں دوسری قوموں کی اٹھا کر لے آئی جاتی، یہ بدنصیب اور مصیبت زدہ عورتیں اپنے پیچھے بار بار یاد آنے والا ماضی اپنے عزیز و اقارب اور اپنے محبت بھرے تعلقات چھوڑ کر آتیں۔ منڈیوں میں بکتیں، ذلت آمیز سلوک کا سامنا کرتیں ان کی حثیت کھلونوں جیسی ہوتی جس سے جنس کے مارے مسلمان امراء کھیلا کرتے۔ خاندانی بیویوں اور کنیزوں کی چپقلش ہو جاتی۔ تب بھی ان کو قتل کروا دیا جاتا۔ ایک بار خلیفہ ہارون الرشید کسی مغنیہ پر فریفتہ ہو گیا تو ملکہ زبیدہ نے اس کی توجہ ہٹانے کے لئے دس دوشیرہ کنیزیں خلیفہ کو بطور تحفہ پیش کیں۔ جب جنگیں نہ ہونے کی وجہ سے کنیزوں کی سپلائی رک جاتی، تو غلاموں اور کنیزوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والے عورتوں اور بچوں کو آس پاس کے قبائل سے پکڑ لاتے۔ کنیزوں کے بچوں کو گھڑ سواری، تیر اندازی، فن سپاہ گری میں طاق کیا جاتا اور اٹھائی گئی عورتوں کو بناؤ سنگھار، گلوکاری، رقص اور موسیقی سکھائی جاتی اور پھر ان کو نئے آقاؤں کے پاس بیچ دیا جاتا۔ انہی کنیزوں کے کئی بچے بعد میں بادشاہ اور امراء بنے محمود غزنوی غلام کا بیٹا اور کنیز ماں کے بطن سے تھا۔"