عالم ِ اسلام یعنی مسلمانوں کے حالات بالعموم و اہلیانِ پاکستان کے حالات بالخصوص (کہ پاکستان مسلمانوں کا نظریاتی ملک بنا ہی کلمے کے نام پر ہے) تب ہی اصلاح و فلاح کی جانب گامزن ہو سکتے ہیں جب ہم ہر تعلق و چیز سے ماورا ہو کر اللہ کریم کے کلام قرآن اور اللہ کریم کے پیارے حبیب ﷺ کے اسوہ کی پیروی کریں ۔ یہی اور صرف یہی راہ اصلاح وفلاح و راہِ نجات ہے۔
شعیب علیہ السلام سے تو ان کی قوم نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ کیا تمہاری نماز ہمیں اپنے اموال تک اپنی مرضی سے خرچ کرنے سے بھی روکتی ہے؟؟ وہ سمجھ گئے تھے کہ نماز کیا ہے اور کس قدر وسیع مفہوم کی حامل ہے ۔ صرف مسجد میں ہی نہیں مسجد سے باہر کی زندگی یعنی معاملات زندگی میں بھی مسجد و نماز والے خشوع و خضوع سے اللہ کریم کے احکامات پہ عمل پیرا ہونا ہے ۔ اسوہ رسول ﷺ میں ہمیں معاملات زندگی کا کامل نمونہ یعنی قرآن پہ عمل کا عملی نمونہ ملتا ہے ۔
قَالُوۡا یٰشُعَیۡبُ اَصَلٰوتُکَ تَاۡمُرُکَ اَنۡ نَّتۡرُکَ مَا یَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ اَوۡ اَنۡ نَّفۡعَلَ فِیۡۤ اَمۡوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُاؕ اِنَّکَ لَاَنۡتَ الۡحَلِیۡمُ الرَّشِیۡدُ سورہ ہود ﴿۸۷﴾
انہوں نے جواب دیا کہ اے شعیب! کیا تیری صلاۃ تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور ہم اپنے مالوں میں جو کچھ چاہیں اس کا کرنا بھی چھوڑ دیں تو تو بڑا ہی با وقار اور نیک چلن آدمی ہے۔
ہم سے تو ایک سورہ الماعون زندگیوں میں نہیں اپنائی جاتی ۔۔۔۔۔ سورہ الماعون کا مطالعہ بھی کر لیجئے اور آئیے ہم سب اسکی روشنی میں اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں؛
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ ١
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے،
فَذَٰلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ ٢
تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (یعنی یتیموں کی حاجات کو ردّ کرتا اور انہیں حق سے محروم رکھتا ہے)،
وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ ٣
اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا (یعنی معاشرے سے غریبوں اور محتاجوں کے معاشی اِستحصال کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتا)،
فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ ٤
پس افسوس (اور خرابی) ہے ان نمازیوں کے لئے،
الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ٥
جو اپنی نماز (کی روح) سے بے خبر ہیں (یعنی انہیں محض حقوق اﷲ یاد ہیں حقوق العباد بھلا بیٹھے ہیں)،
الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ ٦
وہ لوگ (عبادت میں) دکھلاوا کرتے ہیں (کیونکہ وہ خالق کی رسمی بندگی بجا لاتے ہیں اور پسی ہوئی مخلوق سے بے پرواہی برت رہے ہیں)،
وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ ٧
اور وہ برتنے کی معمولی سی چیز بھی مانگے نہیں دیتے۔
اب قرآن حکیم کی سورہ الماعون کی روشنی میں ہمارا انفرادی و اجتماعی فرض ہے کہ اللہ کریم کی عطاء کردہ صلاحیتوں نعمتوں، اور وسائل کو ساتھی انسانوں، مخلوق و معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کریں اور تن من دھن سے معاشرے کے مسکینوں، غریبوں، محتاجوں، مظلوموں اور پسے ہوئے طبقے کے معاشی اِستحصال کے خاتمے کی کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں شعور و آگاہی دیں و اپنے قدموں پہ کھڑے ہونے اور معاشرے کا مفید فرد بننے میں حتی المقدور مدد کریں۔
جب انسان مال و دولت جوڑنے اور اسے سنبھال سنبھال کر رکھنے کی ہوس میں مبتلا ہو جائیں تو اخلاقی اور معاشرتی برائیاں بلکہ المیے جنم لیتے ہیں۔ ویسے بھی معاشرے کے پسے ہوئے طبقوں و مساکین کی مدد کرنا ان پہ احسان کرنا نہیں ہے بلکہ یہ ان کا حق ہے جو دینے والے پر عائد ہوتا ہے ، اور دینے والا کوئی خیرات نہیں دے رہا بلکہ اس کا حق ادا کر رہا ہے ، یہ بات سورہ ذاریات آیت 19 میں بیان کی گئی ہے کہ
وَفِىٓ اَمْوَالِـهِـمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (19)
اور ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا حق ہے ۔
دراصل ہم آخرت کو اور اپنے رب سے ملاقات کو بھولے بیٹھے ہیں اس لئے یہ معاشرتی خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں کہ ہم یتیموں کو دھتکارتے ہیں اور مسکینوں کو نہ خود کھانا دیتے ہیں نہ دوسروں کو ایسا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور یہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقوں کو ان کا حق نہیں دیتے تو یہ سب مل کر باقی بیشمار معاشرتی برائیوں، خرافات و مسائل کو جنم دیتا ہے اور ہم جیتے جی اپنے معاشرے و ماحول کو اپنے اور آنے والی نسلوں کے لئے جہنم بنا دیتے ہیں۔ آخرت کا یقین رکھنے والوں کے اوصاف سورہ عصر اور سورہ بلد میں بیان کیے گئے ہیں کہ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ (وہ ایک دوسرے کو خلق خدا پر رحم کھانے کی نصیحت کرتے ہیں) اور وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ (وہ ایک دوسرے کو حق پرستی اور ادائے حقوق کی نصیحت کرتے ہیں)۔
وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...