کتاب = “ اسی کائنات میں کسی جگہ “
مصنف = محمود ظفر اقبال ہاشمی
تبصرہ = حسن امام
کہانی کا دامن بڑا وسیع ہے ۔ انسانی تہذیب کے آغاز سے اب تک کہانیوں نے مختلف صورتوں سے انسانی ذہن کو متاثر کیا ہے ۔ داستانوں ناولوں ، مختصر افسانوں ، قصوں اور حکایتوں سے لے کر جدید افسانوں تک اردو میں وسیع سرمایہ موجود ہے اور اس میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ جناب محمود ظفر اقبال ہاشمی کہانی کے دامن کو وسعت دینے میں اپنے حصے کی شمع جلا رہے ہیں ۔ چار ناولوں کے بعد ان کا افسانوی مجموعہ “ اسی کائنات میں کسی جگہ “ اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔ ہاشمی صاحب لفظوں کے کوزہ گر ہیں ۔ بنیادی طور پر ان کا تعلق سماجی حقیقت نگاری کے دبستان سے ہے ۔ ہر چند کہ یہ حقیقت نگاری پریم چند ، کرشن چندر ، منٹو اور عصمت چغتائی کے فکر و فن کا تسلسل ہے مگر موضوع اور ہیئت کے اعتبار سے بہت مختلف ۔ انسانی معاشرہ مسلسل تبدیل ہو رہا ہے اور تبدیلی کے اس عمل میں نت نئے روپ اختیار کرتا رہتا ہے ۔ پرانی اقدار اور روایات کی شکست و ریخت ہوتی ہے اور ان کے نتیجے میں نئے افکار اور خیالات جنم لیتے ہیں ، چنانچہ حقیقت نگاری کا تصور بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے ۔ ہاشمی صاحب کی تخلیقات میں یہ تبدیلی نمایاں طور پر نظر آتی ہے ۔
زیر نظر کتاب مصنف کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جس کا سرورق ، طباعت اور کاغذ ان کی شخصیت ہی کی طرح دلکش ہے ۔ مجموعے میں ایک ناولٹ ، سولہ افسانے ، تین مختصر کہانیاں اور تیرہ مائکرو فکشن شامل ہیں ۔ ذاتی طور پر مجھے جو بات اچھی لگی وہ فیس بک اور ادبی حلقوں میں یکساں طور پر مقبول ہم عصر فکشن نگاروں کی آراء کو اس کتاب کا حصہ بنانا ہے ۔ جناب محمد جاوید انور ، جناب فارس مغل اور جناب شاہد جمیل احمد کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ ان کی آراء قاری اور خصواً فیس بک کے قاری کے لیئے بہت اہمیت رکھتی ہے ۔ محترم حمید شاہد مستند ادبی شخصیت ہیں ، ان کی اور جناب نصیر احمد ناصر صاحب کے لکھے گئے فلیپ نے کتاب کے حُسن میں اضافہ کیا ہے ۔
ہاشمی صاحب کے افسانوں میں موضوع کا تنوع ہے ۔ ان کے افسانوں کے ابتدائی جملے چونکا دینے والے ہوتے ہیں اور اختتام سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ چند مثالیں پیش ہیں
“ میں ان حضرت کے ساتھ شروع سے ہوں مگر اس کے با وجود مجھے لگتا ہے کہ میں انہیں گیارہ فیصد سے زیادہ نہیں جانتا “ ( وہ حضرت )
“ کیا پوزیشن ہے پاکستان کی “ ( میرے ابو ) ۔ والد سے محبت اور اپنی پیکر تراشی میں والد کے کردار کو بیان کرتی ہوئی سچی تحریر ۔
“ مرجانہ ۔۔۔۔۔۔” برجستہ “ کے لیئے آپ کی اگلی نشست شہزادہ شرلی کے ساتھ ہوگی “ ( جُگت )
“ اس بد بخت کونسلر کو اللہ ہدایت دے “ ( مٹی اور سڑک )
“ سر آپ اس ملک کے مایہ ناز بلڈر اور Real Estate Tycoon ہیں ۔ آپ نے اس ملک میں شہر کے شہر بسائے ہیں ۔۔۔۔مگر سننے میں آیا ہے کہ آپ دو کمروں کے چھوٹے اور سادہ سے گھر میں رہتے ہیں “ ( اک گھر ایسا بنانا چاہیئے )
“ کوئی چراغ لے کر بھی نکلے روئے ارض پر مجھ جیسا دانا نہیں ڈھونڈ سکتا “ ( ایک دانا کی خود نوشت )
کہانی کے یہ ابتدائی جملے اتنی ہنر مندی اور دیدہ وری سے تخلیق کیئے گئے ہیں کہ ان کو پڑھنے کے بعد ذہن میں تجسس کی فضا پیدا ہو کر آگے پڑھنے کے لیئے بے قرار کر دیتی ہے ۔ ہاشمی صاحب لفظوں کے کوزہ گر اور سچے تخلیق کار ہیں ۔ تخلیق کا کرب انہیں بے چین کیئے رکھتا ہے جو کبھی پینٹنگ ، کبھی ناول اور کبھی افسانوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔ وہ کچھ لکھنے سے پہلے پوری تحقیق کرتے ہیں اور پھر اس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں ۔ “ میں جناح کا وارث ہوں “ اور زیر نظر کتاب میں شامل ناولٹ “ گل مہر اور یو کلپٹس “ اس کی زندہ مثالیں ہیں ۔ اس مجموعے کے مطالعے سے زندگی کے گونا گوں رنگ اور مسائل کے تیکھے تیور کا اندازہ ہوتا ہے ۔ انہوں نے ان افسانوں کے ذریعہ عصری شعور و آگہی کو بیان کیا ہے اور فنی تقاضوں کا پوری طرح خیال رکھا ہے ۔ انہوں نے آج کے سماج کے مختلف النوع مسائل ، انسانی کردار کی کمزوریوں اور زندگی کی بدلتی ہوئی قدروں کو پیش نظر رکھ کر کہانیاں بُنی ہیں اور انسانی جذبوں کو لفظوں کے ذریعہ نہایت درد مندی سے تسخیر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ زبان کی چاشنی ، تشبیہات اور استعارے ، فکر کی گہرائی ، موضوع کا تنوع اور الفاظ کا چناؤ قاری پر سحر طاری کر دیتا ہے ۔ ان کے افسانوں کو پڑھ کر کردار نگاری کا لطف بھی ملتا ہے اور منظر نگاری کا بھی اور معلومات کے کینوس پر نئے نئے نقوش کے ابھرنے کا احساس بھی جاگتا ہے ۔
یہ کتاب جہاں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے وہیں اہل ذوق کے کتابوں کے زخیرے میں قیمتی اضافہ بھی ثابت ہوگی ۔