نام کتاب : عشقم شاعرہ : فرح ناز فرح
کراچی کی مصنفہ اور شاعرہ فرح ناز فرح کا مجموعہ کلام “عشقم” شائع ہو کر خوب دھوم مچا رہا ہے۔اسے پریس فار پیس فاؤنڈیشن ( یُوکے ) نے شائع کیا ہے۔ خیال افروز شاعری کے اس مجموعہ پر اردو کی ممتاز شاعرات نیلما ناہید درانی اور بشریٰ حزیں کے تبصروں نے چار چاند لگا دئیے ہیں۔دیدہ زیب رنگوں سے مزین اس کتاب کی ڈیزائننگ اور طباعت بہت عمدہ اور معیاری کاغذ پر کی گئی ہے۔ بیک کور پرفرح ناز فرح کے فن اور تخلیقی سفر کے بارے میں پر دو نامور شاعرات کی آراء دی گئی ہیں۔ کتابت اور املا کی غلطیوں سے پاک اور حسن ترتیب کے ساتھ ساتھ اس کتاب کی پشت پر موجود آئی ایس بی این کوڈ اس کے عالمی معیار کا ثبوت ہے۔
ایک سو چوالیس صفحات پر مشتمل “عشقم ” کے سرورق پر نگاہ پڑتے ہی تصور مولانا روم ؒ اور شمس تبریز ؒ کی جانب منتقل ہوجاتاہے ۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ سرورق کے لیے ماہر ڈیزائینر جناب ابرار گردیزی نے ترکی ٹوپی اور روایتی لباس میں ملبوس ایک رقاص کو یُوں محوِ رقص دکھایا ہے کہ کتاب کا مرکزی خیال پلک جھپکنے میں سامنے آجاتا ہے ۔حقیقت و مجاز کی بحث میں پڑے بغیر ہی قاری عشق کی وادیوں کی سیر پر چل پڑتا ہے۔ میرے خیال میں یہ کسی بھی سرورق کی بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے کہ اس پر نگاہ پڑتے ہی قاری کا خیال موضوع سُخن کی طرف متوجہ ہوجائے۔
کتاب کا انتساب ماں کے نام ہے۔ وہ ماں جس کے متعلق فرح کہتی ہیں کہ اسے نرم ہاتھوں سے گوندھی ہوئی مٹی کے ایک حسین پیکر کا درجہ ہی نہیں بلکہ آسمان سے اترے ہوئے نور کی حیثیت حاصل ہے۔ حرف آغاز کے طور پر شاعرہ کے تعارف کے عنوان سے پروفیسر ظفر اقبال نے فرح ناز فرح کا تعارف لکھا ہے جس میں ان کی پیشہ ورانہ اور ادبی و فنی زندگی کا بہت خوبصورت الفاظ میں احاطہ کیا ہے۔ اگلے صفحے پر دی گئی دعا شاعر مشرق علامہ اقبال کی مشہور زمانہ نظم “لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری ” کی یاد دلا دیتی ہے ۔ اس دعا میں بھی شاعرہ نے بہت خوبصورتی سے روشنی، امید، عطا و رضا، عاجزی اور حمد و ثنا جیسے اعلیٰ و ارفع خیالات کو متانت، سنجیدگی اور خیالات کی پاکیزگی کے ساتھ خوب برتا ہے۔
اگلے ہی صفحے پرایک پری چہرہ کو محو ِ رقص دکھایا گیا ہے۔ مجھ ایسے رقص کی زباں سے نابلد قاری کے لیے فرح ناز نے اگلے صفحے پر ساری بات کھول کے بیان کر دی ہے۔
جنونِ عشق کی گہرائیوں سے ڈرتی ہوں
کتابِ عشق کی سچائیوں سے ڈرتی ہوں
نہیں میں ڈرتی کبھی حق بیان کرنے سے
پر اس کے بعد کی تنہائیوں سے ڈرتی ہوں
عشقم کی شاعری بلاشبہ عشق و محبت سے لبریز شاعری ہے۔ عشقم ”میرا عشق “کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ مگر اس لفظ کو اردو سے زیادہ فارسی شعرا نے بہت خوبصورتی سے برتا ہے۔ ایک مثال یہ ہے :
روز بہ روز چشمات بیشتر مال من میشن
عشقم روز بہ روز میشی عاشق تر پیشم
فرح کی غزلوں میں اگرچہ عشق ایک مرکزی موضوع کی حیثیت رکھتا ہے مگر ان کا تصور عشق زندگی کا جاری و ساری استعارہ معلوم ہوتا ہے۔ وہ عشق و سرمستی کی کیفیات میں دنیا و مافیہا سے بے خبر نہیں ہو جاتیں بلکہ زندگی کے دیگر حقائق کی طرح عشقیہ جذبات کو بھی زندگی کےحقیقی و رومانوی پہلو کے اظہار کے ایک ذریعہ کے طور پر لیتی ہیں۔ ان کا عشق بے قراری والا نہیں بلکہ آسودگی بخش محبت کا بے مثال اظہاریہ ہے۔
یہ جہاں رہا یونہی بدگماں تیرے ساتھ بھی تیرے بعد بھی
رہا عشق یونہی یہ جاوداں، تیرے ساتھ بھی تیرے بعد بھی
تو سفر میں تھا میرے ساتھ تو تیری چال مجھ سے بھی تیز تھی
میں تو رہ گئی پسِ کارواں، تیرے ساتھ بھی تیرے بعد بھی
فرح ناز گنگناتی ہواؤں، رقص کرتے نطاروں اور کنواری شب کے آنچل پر ستاروں کو موضوعِ سُخن بنانے والی شاعرہ ہیں۔ تاہم وہ محض عشق و محبت کی باتیں ہی نہیں کرتی ہیں بلکہ دیمک زدہ رشتوں اور بوسیدہ راستوں کے تذکرے کو بھی بڑی مہارت سے اپنے شعروں میں سجا لیتی ہیں۔ وہ سماج پر نظر رکھنے والی، رشتوں کی نزاکتوں اور لطافتوں کو سمجھنے اور برتنے والی ایک حساّس شاعرہ ہیں۔
فرح بنیادی طور پر رومانویت کی شاعرہ ہیں ۔ تخیل پر ان کی گرفت بہت مضبوط ہے جس کی وجہ سے ان کے ہاں ندرت فکر، جدت، اختراع ، وسعت اور تنوع کی ان گنت مثالیں ملتی ہیں۔ یہی وہ عوامل ہیں جو ان کی رومانوی شاعری کو نت نئے سانچے عطا کرتے ہیں۔ وہ تخیل کی راہ میں حائل رکاوٹوں کوبہت آسانی سے عبور کر لیتی ہیں۔
رومانویت میں لطیف جذبوں اور وجدانی کیفیات کے اظہار کو ترجیح دی جاتی ہے، تاہم ایک رومانوی شاعر اگرعاشق و معشوق کے مابین تعلق،ناز وانداز، اور ہجر و فراق تک ہی محدود رہےتو تخلیقی کینویس کا دائرہ وسیع نہیں ہوپاتا۔ زندگی حسن کی جلوہ آرائیوں تک ہی محدود نہیں۔ جمالیاتی تحسین ، جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنا، بت تراشنا ، اور پرواز خیال رومانوی شعرا کا ۔ اس کے برعکس وسعت خیال اور تنوع گیری تخلیق کار کو تخلیقی اظہار ۔
غزل فرح ناز فرح کا پسندیدہ میدان ہے۔ تاہم انہوں نے نثری نظم پر بھی طبع آزمائی کی ہے ۔ غزلیات کے حصہ میں شامل مواد سے شاعرہ کے تخلیقی ہنر اور فکر و فن کے نت نئے تجربات سے گزرتا دکھائی دیتا ہے۔ ان کی نظمیات میں موضوعاتی اعتبار سے فکر معاش، معاشرتی جبر، غربت، لاچارگی، بے بسی، ذات پات کی اونچ نیچ، رشتوں ناطوں کی نزاکتوں، محبت و شفقت ، اور قدرت کی ستم ظریفیوں کا تذکرہ ملتاہے۔
فرح ناز فرح کی شاعری میں درد و الم کا اظہار جب سر اور تال کے ساتھ مل کر سماعتوں تک پہنچتا ہے تو قاری کے دل و دماغ تک دکھ کا احساس پھیل جاتا ہے۔
میری روح میں نہ جانے کتنے شگاف ہوں گے
کوئی جو اتر کے دیکھے نئے انکشاف ہوں گے
فرح کا اسلوب دل موہ لینے والا ہے۔ وہ اپنے اشعار میں لفظی موزونیت ، معنویت اور موسیقیت کا ایک خوبصورت امتزاج لے کر آئی ہیں۔ ان کی کئی غزلوں میں لفظوں کے انتخاب ، بحر اور وزن کی باہمی تشکیل سے ایک خاص صوتی آہنگ ظاہر ہوتا ہے۔ جس سے معنوی تاثر بھی نکھر کر سامنے آتا ہے۔ ان اشعار کو دیکھیے ۔
بہت کچھ گنوایا اناؤں کے پیچھے
نہ آئے کبھی ہم اداؤں کے پیچھے
نہیں بے سبب یہ عنایت تمہاری
کوئی راز تو ہے عطاؤں کے پیچھے
“عشقم” بلاشبہ اردو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔فرح ناز فرح کی شاعری معیاری اور اسلوبیاتی اعتبار سے سادگی اور سلاست سے بھرپور ہے۔ وہ اپنے ذاتی تجربات، احساسات اور مشاہدات کو اس فنی مہارت سے پیرایہءاظہار عطا کرتی ہیں کہ ان کی شاعری تخلیقی حسن اور فکر ی ابلاغ کا عمدہ نمونہ بن جاتی ہے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرح ناز کے قلم و ہنر میں مزید ترقی عطا فرمائے ۔ آمین
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...