عشق عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی کسی شے کو بہت دوست رکھنا ہے۔ چند طبیبوں کی رو سے عشق ایک مرض ہے جنون کی قسم سے جو حسین شکل دیکھنے سے پیدا ہوتا ہے۔ لفظ عشق ماخوذ ہے عشقہ سے جسے لبلاب بھی کہتے ہیں۔ لبلاب ایک بیل (لتا) ہے ۔یہ وہی بیل ہے جسے عشق پیچاں کہتے ہیں ۔ اس بیل کا قاعدہ یہ ہے کہ جس درخت سے لپٹتی ہے اس کو خشک اور زرد کر دیتی ہے۔عشق مجازی اس عشق کو کہتے ہیں جو اپنی ذات سے ہو ‘ اس کائنات سے ہو اور اس سے وابستہ کسی بھی شے سے ہو‘ یعنی اس چیز سے انسان کو انتہائی محبت ہو۔ یہاں عشق مجازی سے مراد اس عشق سے ہے جو شاعر اسرارالحق ’مجاز ‘ کو ہوا ۔ انھوں نے حسین شکلیں دیکھیں ‘ مرض عشق میں مبتلا ہوئے ۔ لبلاب انھیں بھی لپٹی ‘ خشک ہوئے ‘ زرد ہوئے ‘ سودائی ہوئے اور اس جہان فانی سے مریض عشق ہی رخصت ہوئے۔ خود ان کے الفاظ میں ؎
خوب پہچان لو اسرار ہوں میں
جنس الفت کا طلبگار ہوں میں
عشق ہی عشق ہے دنیا میری
فتنٔہ عقل سے بیزار ہوں میں
اسرارالحق نام ’مجاز ‘ تخلص، ایک روایت کے مطابق ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۱۱ء کو قصبہ ردولی ضلع بارہ بنکی ، اتر پردیش میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم لکھنؤسے حاصل کی اس کے بعد ۱۹۳۱ء میں علی گڑھ چلے گئے۔ ۱۹۳۵ء میں وہاں سے بی۔ اے۔ پاس کیا۔علی گڑھ اس وقت روشن خیالی کا مرکز بنا ہوا تھا۔ روشن اور اعلیٰ خیال اساتذہ اور طلباء کی قطار لگی تھی۔معین احسن جزبی اور آل احمد سرورسے تو تعلقات پہلے سے تھے ، علی گڑھ آنے پر جاں نثار اختر ، علی سردار جعفری، سبط حسن ، اختر حسین رائے پوری ، سعادت حسن منٹو اور حیات اللہ انصاری سے ان کے دوستانہ مراسم استوار ہوئے۔ ایسی روشن فضا میں مجاز کو اپنے شعری ذوق کو نکھارنے کامناسب موقعہ ہاتھ لگا۔ انکی شعری سرگرمیاں پروان چڑھنے لگیں ۔ جلد ہی یونیورسٹی میں انھوں نے غیر معمولی مقبولیت حاصل کر لی اور ہر دلعزیز بن گئے۔ مجاز بنیادی طور پر حسن پرست تھے ۔ حسن سے لطف اندوز ہونا ، محبت کے اسرار سے واقف ہونا اپنا حق سمجھتے تھے۔ وہ تو سراپا عشق تھے۔ کسی حسین کو دیکھ کر فوری طور پر اس کا اسیر ہو جانا ان کی عادت تھی۔ ایسا ہی تھا مجاز کا مزاج۔ انھیں ہر اس شخص ، اس شے اور اس جگہ سے پیار ہوا جس سے وہ وابستہ رہے۔ علی گڑھ تعلیم کی غرض سے پہونچے ، یونیورسٹی سے پیار ہو گیا۔ اپنی محبت اور عقیدت کا اظہارانتہائی پر جوش انداز میں نظم ’ نذر علی گڑھ ‘ میں اس طرح کیا ؎
یہ میرا چمن ہے میرا چمن، میں اپنے چمن کا بلبل ہوں
سرشار نگاہ نرگس ہوں ، پابستہ ٔ گیسوئے سنبل ہوں
یہ نظم اس قدر مقبول ہوئی کہ طلباء کی انجمن نے اسے اپنا ترانہ بنا لیا اور آج یہ ترانہ نہ جانے کتنی زبانوں سے فخریہ ادا ہوتا ہے۔ مجاز جن دنوں علی گڑھ میں تھے ان دنوں وہاں سال میں ایک بار نمائش لگا کرتی تھی ۔ یہ وہ موقعہ ہوتا جب لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کو دیکھتے، ملتے ، کچھ دو قدم آگے بڑھ کر اپنے دل کی بات بھی کہہ لیتے لیکن زیادہ تر دور دور سے ہی حسینوں کا نظارہ کر لیتے۔ سب کو اس نمائش کا بیچینی سے انتظار رہتا۔ مجاز کو بھی یہ موٍقعہ نصیب ہوا۔ نمائش میں گئے۔ دوشیزگان ناز پرور پر نگاہ پڑی ، دل میں ہلچل ہوئی، تخلیقیت جوش میں آئی، لطیف خیالات در آئے، حسین الفاظ مچلے ، نوک قلم سے نکلے اور نمائش کی منظر کشی کچھ یوں ہو گئی۔
وہ کچھ دوشیزگان ناز پرور، کھڑی ہیں ایک بساطی کی دوکان پر
نظر کے سامنے ہے ایک محشراور ایک محشر میرے دل کے اندر
وہ رخساروں پر ہلکی ہلکی سرخی، لبوں پر پرفشاں روح گل تر
وہ خوشبو آ رہی ہے پیرہن سے ، فضا ہے دور تک جس سے معطر
نشاط رنگ وبو سے چور آنکھیں ، شراب ناب سے لبریزساغر
وہ جنبش سی ہوئی کچھ آنچلوں کو ، وہ لہروں سی اٹھی کچھ ساریوں کو
خرام ناز سے نغمے جگاتی، وہ چل دیں ایک جانب مسکراکر
یعنی حسن کے دلدادہ مجاز حسن سے روبرو ہوئے نہیں کہ مذکورہ نظم ’ نمائش ‘ تخلیق ہو گئی۔ یہ کوئی ۱۹۳۱ء کی بات ہے۔ اس نظم کی دھوم پورے علی گڑھ میں مچ گئی ۔ بھلا ایسی رومان پرور نظم سن کر نوجوان دلوں کی دھڑکن کیوں نہ تیز ہو جاتی۔ آل احمد سرور نے تو مجاز کو ’ رومانیت کا شہید ‘ قرار دے دیا۔ اردو میں عشقیہ یا رومانی شاعری کی روایت قدیم ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ روایت فارسی شاعری سے اردو میں در آئی۔ یہاں ایک فرضی محبوب کا تصور ہوتا ہے ۔ محبوب کا نام زبان پر لانا عیب میں شمار ہوتا ہے۔مدتوں اسی خیالی محبوب کے ہجر اور وصال کے قصے بیان کئے جاتے رہے۔ رفتہ رفتہ اس تصور میں تبدیلی آئی۔ حتیٰ کہ مجاز نے تو اپنی محبوبہ کو خیالوں میں نہ تراش کر اسے تقاضہ دل اور تقاضہ حیات کی جیتی جاگتی تصویر بنا دیا۔ ۱۹۳۵ء میں جب آل انڈیا ریڈیو کاقیام عمل میں آیا تو مجاز نے اس کے اردو رسالے کے مدیر کے لتقرر کے لئے درخواست بھیجی کیونکہ اس سے ان کے دو مقصد حل ہونے والے تھے ۔ ایک تو معاشی حالات درست ہوتے ،دوسرے ان کے شعرو ادب کے مذاق کو بھی فروغ ملتا۔ ان کا تقرر رسالے کے اڈیٹر کی حیثیت سے دہلی آل انڈیا ریڈیو میں ہو گیا ۔ انھوں نے رسالے کا نام ’آواز ‘ رکھا۔ الغرض مجاز اب علی گڑھ کے دلنوازان چمن کو چھوڑ دہلی کی بزم آرائی میں مصروف ہو گئے۔ وہ دہلی جسے انھوں نے ’رشک شیراز کہن ‘ اور ’ہندوستان کی آبرو ‘ سے تعبیر کیا۔ شہر دہلی نے بھی ان کی خاطر خواہ پذیرائی کی۔ یہاں بھی وہ بہت جلد اپنی رنگینی کلام ، نغمگی، تازگی اور سحر آگین آواز کی بناپر مقبول عام ہو گئے۔ دہلی کے باذوق اور اعلیٰ خاندانوں میں مجاز کے لئے خصوصی محفلیں آراستہ کی جانے لگیں ۔ ایسی ہی ایک محفل کے میزبان کی بیٹی نے ان کے دل کے دروازے پر دستک دے دی۔ حسن پرست شاعر مریض عشق ہو گیا۔ وقت کی ستم ظریفی کہ یہ عشق غم عشق میں تبدیل ہوگیا انھیں دنوں آپسی چشمک کی بنا پر ریڈیو کی ملازمت ترک کی جس سے غم روزگار بھی ساتھ ہو لیا۔ اس موقع پر ان کی قلبی واردات نظم ’مجبوریاں ‘ کے سانچے میں ڈھل کر سامنے آئیں۔
نہ طوفاں روک سکتے ہیں نہ آندھی روک سکتی ہے
مگر پھر بھی میں اس قصر حسیں تک جا نہیں سکتا
وہ مجھ کو چاہتی ہے اور مجھ تک آنہیں سکتی
میں اس کو پوجتا ہوں اور اس کو پا نہیںسکتا
اوردلبرداشتہ مجاز نے دہلی کو خیر باد کہہ دیا۔
رخصت ،اے دلی!تری محفل سے اب جاتا ہوں میں
نوحہ گر جاتا ہوں میں ،نالہ بلب جاتا ہوں میں
دل میں سوز غم کیاکہ دنیا لئے جاتا ہوں میں
آہ !تیرے میکدے سے بے پئے جاتا ہوں میں
حالانکہ مجاز نے زبردست چوٹ کھائی،مگر ان کا سماجی شعور انتہائی پختہ تھا ۔ انھیں اپنی شاعری سے بھی عشق تھا۔ خود ان کا قول ہے ’ میں عشق بھی کرتا ہوں تو اپنی شاعری کے لئے، اپنے فن کی تب وتاب کے لئے‘۔ ان کے شعر خوبصورت ہیں کیوںکہ ان کی محبوبہ اس کی مکین ہے۔
میرا حرف حرف ہے دلنشیں ،کہیں تو تو اس میں مکیں نہیں
یہ جنون شوق سخن کہیں تیرا چہرہ سب کو دکھا نہ دے
یہاں مجاز عشق کے معاملے میں انتہائی احتیاط برتتے نظر آ رہے ہیںکیونکہ انھیں تہذیب عشق کا پاس ہے۔ ایسے ہی چند پر کیف اشعار ملاحظہ ہوں۔
میں کہ میخانہ الفت کا پرانا میخوار
محفل حسن کا اک مطرب شیریںگفتار
ماہ پاروں کا ہدف زہرہ جبینوں کا شکار
نغمہ پیرا و نواسنج و غزل خواں ہوں میں
میں ہوں مجاز آج بھی زمزمہ سنج و نغمہ خواں
شاعر محفل وفا ،مطرب بزم دلبراں
سرشار عشق مجاز کے یہاں نئی فضا ، نئے جذبے اور نئے ذائقے کا احساس ہوتا ہے کیونکہ انھیں فراق محبوب میں جینے کا سلیقہ آتا ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ اب ان کے ذاتی غم وآلام اور غم جہان ایک دوسرے میں مدغم ہو چکے ہیں۔ وہ لذت طلب کو برقرار رکھنے کی خاطر جئے جا رہے ہیں۔
اللہ رے کامیابی آوارگان عشق
خود گم ہوئے تو کیااسے پائے ہوئے تو ہیں
مٹتے ہوئوں کو دیکھ کے کیوں رو نہ دے مجاز
آخر کسی کے ہم بھی مٹائے ہوئے تو ہیں
مجاز کی ایک خوبصورت رومانی نظم ’ آج کی رات ‘ ہے۔ عشق حسن کے روبرو ہے، بہت قریب ہے۔ معشوقہ کا سر ان کے شانے پر ہے۔ گرم عارض ، شوخ نگاہیں، کپکپاتے لب، شدت احساس کو یوں پیش کرتے ہیں ؎
دیکھنا جذبہ محبت کا اثر آج کی رات
میرے شانے پر ہے اس شوخ کا سر آج کی رات
عارض گرم پہ وہ رنگ شفق کی لہریں
وہ میری شوخ نگاہی کا اثر آج کی رات
اف ! وہ وارفتگی شوق میں اک وہم لطیف
کپکپاتے ہوئے ہونٹوں پہ نظر آج کی رات
ان کے الطاف کا اتنا ہی اثر کافی ہے
کم ہے پہلے سے بہت درد جگر آج کی رات
مجاز کی خوبی یہ ہے کہ وہ محبوب پر فریفتہ ہیں، اس کی قربت میسر ہے لیکن کیا مجال کہ تہذیب عشق کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے۔ وارفتگی کے عالم میں کوئی بے ادبی سرزد ہو جائے۔ انھیں عشق میں سلیقہ برتنا آتا ہے۔ محبوب سے شکایت ہے اور شکایت کرنا آداب عشق کے خلاف ہے۔ دیکھئے کتنے لطیف پیرائے میں اپنی شکایت درج کرتے ہیں ؎
یوں ہی بیٹھے رہو بس درد دل سے بے خبر ہو کر
بنو کیوں چارہ گر تم، کیا کروگے چارہ گر ہو کر
مجاز کی ایک اور نظم ’ جشن سالگرہ ‘ ہے۔اس میں ان کا محبت کا معصوم انداز چھلکا پڑ رہا ہے۔ کچھ نہ کہہ کر سب کچھ کہہ جانے کی اس ادا پر کو ن نہ قربان ہو جائے ؎
سرشار نگاہوں میں حیا جھوم رہی ہے
ہیں رقص میں افلاک زمیں گھوم رہی ہے
شاعر کی وفا بڑھ کے قدم چوم رہی ہے
چھلکے تیری آنکھوں سے شراب اور زیادہ
مہکیں تیرے عارض کے گلاب اور زیادہ
اللہ کرے زور شباب اور زیادہ
جذبہ عشق کو برتنے میں مجاز کے یہاں تازگی ، حرکت اور ندرت ہے۔ یوں تو انسان جب کسی کے عشق میں گرفتار ہوتا ہے تو اسے دنیا کی دیگر چیزوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ۔ اس کی غرض تو فقط اس کا محبوب ہوتا ہے۔وہ نہ ملے تو عاشق کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ دنیا کی تمام رونقیں ختم ہو جاتی ہیں ۔ دل ویران ہو جاتا ہے۔ مایوسی کی گھٹائیں اس کے دل و دماغ پر چھا جاتی ہیںاور یہ سب اس کے شعور پر اثر انداز ہوتا ہے، لیکن مجاز کا انداز منفرد ہے ۔ عشق میں ناکامی انھیں ایک سماجی شعور بخشتی ہے۔ نتیجتاًان کے اشعار اب جر أت مندانہ نظر آتے ہیں ؎
زمانے سے آگے تو بڑھئے مجاز
زمانے کو آگے بڑھانا بھی ہے
۔۔۔۔
بخشی ہیں ہم کو عشق نے وہ جرأتیں مجاز
ڈرتے نہیں سیاست اہل جہاں سے ہم
۔۔۔۔
لاکھ چھپتے ہومگر چھپ کے بھی مستور نہیں
تم عجب چیز ہونزدیک نہیں دور نہیں
۔۔۔۔
تو جہاں ہے زمزمہ پرواز ہے
دل جہاں ہے گوش بر آواز ہے
۔۔۔۔
مجاز علی الاعلان عشق فرماتے ہیں ۔ ان کی معشوقہ ایک عورت ہے۔ وہ کوئی پری نہیں ،آسمانی مخلوق نہیںبلکہ اسی زمین کی عام عورت ہے۔ وہ روبرو ہوتی ہے ، کبھی پہلو میں ہوتی ہے تو کبھی اس کا سر مجاز کے شانے پر ہوتا ہے ۔ جب کبھی وہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراتی ہے تو ان کے دل کا ہر ایک گوشہ روشن ہو جاتا ہے۔ معشوقہ کبھی ان کی ہمنوا ہے تو کبھی چارہ گر ۔ غرض کہ وہ جسم و جان کا جیتا جاگتا پیکر ہے ۔ پیش ہیں نظم ’کس سے محبت ہے ‘ کے دو خوبصورت بند ؎
بتائوں کیا تجھے اے ہمنشیں کس سے محبت ہے
میں جس دنیا میں رہتا ہوں وہ اس دنیا کی عورت ہے
سراپا رنگ و بو ہے پیکر حسن و لطافت ہے
بہشت گوش ہوتی ہیں گہر افشانیاں اس کی !
مرے چہرے پر جب بھی فکر کے آثار پائے ہیں
مجھے تسکین دی ہے میرے اندیشے مٹائے ہیں
میرے شانے پر سر تک رکھ دیا ہے گیت گائے ہیں
میری دنیا بدل دیتی ہیں خوش الحانیاںاس کی!!
معشوقہ جب ان کے پہلو میں نہیںہوتی ، اس سے ملاقات کی بھی کوئی صورت نہیں ہوتی تواس کے ہجر میں یہ خوبصورت نغمہ یاد بن کر ان کے لبوں پر آ جاتا ہے ؎
مرے بازو پہ جب وہ زلف شبگوں کھول دیتی تھی
زمانہ نکہت خلد بریں میں ڈوب جاتا تھا
میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراتی تھی
میرے ظلمت کدے کا ذرہ ذرہ جگمگاتا تھا
عشق، محبت ، پیار ، وفا ، یہ سب مختلف کیفیتیں ہیں جن سے عشق پروان چڑھتا ہے۔ پر عشق ناکام بھی ہوتاہے، عاشق چوٹ بھی کھاتا ہے ۔ مجاز بھی ان تمام مراحل سے گذرے اور کیوں نہ گذرتے ؎
نہ پوچھ کیسا تھا ، کیا آب و تاب رکھتا تھا
حسیں تھا ، شوخ تھا ، ظالم شباب رکھتا تھا
انھوں نے بھی عشق میں چوٹ کھائی۔ ان کا بھی رشتہ عشق ٹوٹا ۔ اس غم کو برداشت کرنے کے لئے انھوں نے مے نوشی کا سہارا لیا۔ وہ جو جنس الفت کے طلبگار تھے، دختر رز کے گنہگار ہوئے۔ جس کا اعتراف کتنے حسین پیرائے میں کرتے ہیں ؎
عیب جو حافظ و خیام میں تھا
ہاں کچھ اس کا بھی گنہگار ہوں میں
مجاز علی گڑھ سے دہلی آئے تو یہاں انھیں نہ فقط ایک پسندیدہ ملازمت ملی بلکہ ایک دلنواز معشوقہ بھی ان کا مقدر بنی مگر جلد ہی دونوں سے انھیں ہاتھ دھونا پڑا۔ محبوبہ سے جدائی جاں گسل تھی۔ لہٰذا وہ بھی انھیں کیفیات سے ہمکنار ہوئے جن سے دیگر لوگ ہوا کرتے ہیں ۔ وہ غم جاناں کے گرہ گیر ہوئے تو دختر رز کے اسیر ہو گئے۔ مجاز نے اس کے باوجود لا شعور میں سوز غم کی ایک دنیا آباد کر لی اور ہجر کی لذت طلب کو برقرار رکھا۔اسی کیفیت سے دوچار دہلی کو چھوڑتے وقت پر عزم اشعار کہے۔ ملاحظہ فرمائیں ؎
جاتے جاتے لیکن ایک پیمان کئے جاتا ہوں میں
اپنے عزم سرفروشی کی قسم کھاتا ہوں میں
پھر تری بزم حسیں میں لوٹ کر آئوں گا میں
آئوں گا میں اور بانداز دگر آئوں گا میں
الغرض مجاز دہلی سے لکھنؤ آ گئے۔ ایک طرف بے روزگاری کی الجھن تو دوسری طرف محبوب سے بچھڑنے کا صدمہ۔ ان کے دماغ میں ایک ہیجان برپا تھا۔ اسی ہیجانی کیفیت کے نتیجہ میں ان کی نظم ’آوارہ ‘ تخلیق ہوئی جو انقلابی رومانیت کا شاہکار ہے۔ شاعر درد غم سے نڈھال ہے ۔ اس پر ایک وحشت کا عالم طاری ہے۔ پریشانی کے عالم میں وہ شہر کی روشن جگمگاتی سڑکوں پر پھرنے لگتا ہے۔ یہ شہر اس کا اپنا ہے پر آج اسے دیار غیر لگ رہا ہے ۔ شاعر کے گھائل دل کا درد اس نظم میں چھلکا پڑتا ہے ؎
شہر کی رات اورمیںناشاد و ناکارہ پھروں
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غیر کی بستی ہے کب تک در بدر مارا پھروں
اے غم دل !کیا کروں ، اے وحشت دل !کیا کروں
۔۔۔۔
پھر وہ ٹوٹا ایک ستارہ ، پھر وہ چھوٹی پھلجھڑی
جانے کس کی گود میں آئی یہ موتی کی لڑی
ہوک سی سینے میں اٹھی، چوٹ سی دل پر پڑی
اے غم دل ! کیا کروں ، اے وحشت دل !کیا کروں
۱۹۴۵ء میں مجاز لکھنؤمیں تھے۔ اسی دوران ایک ایسا موقعہ آیا جب ان خاتون سے ان کی ملاقات ہو گئی جو ان کی بیماری دل کا سبب تھیں۔ اس وقت انھوں نے ’ نظم ‘ اعتراف کہی جو ان کی بے چارگی و بے بسی کی مکمل داستان ہے۔ملاحظہ ہوں اس نظم کے دو بند ؎
اب میرے پاس تم آئی ہو تو کیا آئی ہو
میں نے مانا کہ تم اک پیکر رعنائی ہو
چمن دہر میں روح چمن آرائی ہو
طلعت مہر ہو فردوس کی برنائی ہو
بنت مہتاب ہو گردوں سے اتر آئی ہو
مجھ سے ملنے میں اب اندیشہ رسوائی ہے
میں نے خوداپنے کئے کی یہ سزا پائی ہے!
کیا سنوگی میری مجروح جوانی کی پکار
میری فریاد جگر دوز میرا نالہ زار
شدت کرب میں ڈوبی ہوئی میری گفتار
میں کہ خود اپنے مذاق طرب آگیں کا شکار
وہ گداز دل مرحوم کہاں سے لائوں
اب میں وہ جزبۂ معصوم کہاں سے لائوں!!
۱۹۵۰ء تک شراب کی زیادتی نے مجاز کی صحت پر اثر دکھانا شروع کر دیا تھا ۔ ان کا جسم مفلوج ہونے لگا، دماغی توازن کھو بیٹھے اور رانچی کے پاگل خانے میں داخل کئے گئے۔ ایسی ہی نا گفتہ بہ حالت میں انھوں نے ۱۹۵۵ء میں لکھنؤ میں موت کو گلے لگا لیا۔
منجملہ مجاز عشق کے متعلق سنجیدگی سے سوچتے تھے اور اپنی فکر کو حسین پیرائے میں ڈھال دیتے تھے۔ وہی احساسات و خیالات نظم ہونے کے بعد غیر معمولی بن گئے۔ ان کی عشقیہ شاعری میں جمال آفرینی کا کمال ہے۔ اس میں عشق کا اتنا حسین امتزاج ہے، گویاہر ہر لفظ تازہ ہری کونپل کا احساس کراتا ہے۔ قاری کے دل میں کلام یوں اترتا ہے گویا کوئی نازک اندام ہولے ہولے قدم رکھتے چلی آ رہی ہو۔ انھیں خوبیوں کی بدولت مجاز کے عشقیہ نغمے دل کو سحر آگین کر دیتے ہیں اور قاری نے اسی لئے ان پر عمدہ کی مہر ثبت کر دی ہے۔