کل کسی دوست نے عشق کے بارے میں پوچھا میں نے کوٸی جواب دیا۔اسکے بعد وہ شروع ہوا اور لفظِ عشق کی ایسی بیخ کنی کی کہ مجنون، منصور حلاج اور رانجا کی روح تڑپ اٹھی ہوگی۔اب اس دوست کے لۓ یہاں عشق کے بارے میں اپنی ناقص عقل کے مطابق جواب تحریر کررہا ہوں ۔ہوسکتا ہے کہ وہ کسی حد تک مطمٸن ہوجاٸیں۔
عشق کا لفظ نہ قرآن میں ہے نہ ہی حدیث میں البتہ تصوف کی کتابوں میں اکثر و بیشتر استعمال ہوا ہے۔قرآن اور حدیث کی کتابوں میں عشق کی جگہ حُب اور محبت استعمال ہوا ہے۔امامِ غزالیؒ کا ماننا ہے کہ اگر محبت شدت اختیار کرے تو اُسے عشق کہتے ہیں۔اسمیں زیادتی ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ عاشق معشوق کا بندہٕ بےدام بن جاتا ہے اور مال و دولت بلکہ اپنا سب کچھ اُس پر قربان کردیتا ہے۔
عشق ایک مقناطیسی کشش کا حامل ہے۔کسی میں حُسن و خوبی کی ایک جھلک دیکھ لینا اور اسکی جانب طبیعت کا ماٸل ہوجانا،دل میں اسکی رغبت اسکا شوو اسکی طلب و تمنا اور اس کے لٸے بے چین ہوجانا اسی کے خیال میں شب و روز رہنا اسکے فراق سے اذیت پانا اسکے وصال سے خوش ہونا اسکی رضا میں اپنی رضا اور اسکی ہستی میں اپنی ہستی گُم کردینا یہ سب عشق و محبت کے کرشمے ہیں۔اسی لۓ کہا گیا ہے۔
عاشقی چیست؟ بگو بندہٕ جانان بودن
دل بدستِ دیگری دادن و حیران بودن
یعنی عاشقی کیا ہے؟ کہو معشوق کا غلام بن جانا اور اپنا دل کسی کو دینا خود حیران و پریشان رہنا۔
ایک اور شاعر کا خیال ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی غمِ دل موجود تھا اسکو اکٹھا کرکے اس کا نام عشق رکھا گیا ۔
بہ عالم ہر کجا دردِ دلے بُود
بہم کردند و عشقش نام کردند۔
مولانا رومی عشق کے درد کو تمام بیماریوں کا درمان سمجھتے ہیں اور عشق کو شاباشی دے رہے ہیں۔
شاد باش اے عشقِ خوش سوداۓ من
اے طبیبِ جملہ علتھاٸ من
مرزا غالب کا بھی کچھ ایسا ہی خیال ہے۔وہ کہتے ہیں۔
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا
درد کی دوا پاٸی دردِ بے دوا پایا
رومی کا یہ بھی ماننا ہے کہ
جس نے عشق کے جنون میں اپنا لباس پھاڑدیا اور دیوانہ ہوا تو سمجھو وہ تمام براٸیوں سے پاک ہوگیا عشق کی آگ میں جلنے سے ۔
ہرکرا جامہ ز عشقے چاک شُد
او ز حرص و عیب کُلی پاک شُد
حافظ شیرازی کہتا ہے کہ جب میں عاشق ہوا تو مجھے خیال تھا کہ گوہرِ مقصود پالونگا لیکن مجھے خبر نہ تھی کہ یہ کاروبارِ عشق کس قدر بے پایان لہریں مارتا ہوا سمندر ہے جسمیں ڈوب کر مرجانے کا خطرہ ہے۔
چُ عاشق می شُدم گفتم کہ بُردم گوہرِ مقصود
ندانستم کہ این دریا چہ موجِ بیکران دارد
یہ عشق کوٸی فلمی کہانی یا کوٸی اور چیز نہیں ہے جسکو آسانی سے حاصل کیا جاسکے۔یہ عاشق کو خاک میں ملادیتا ہے اپنے آپ سے بیگانہ بنادیتا ہے۔اس دنیا سے کسی اور دنیا میں لے جاتا ہے
غالب نے اسی لۓ کہا ہے
ہم وہاں ہیں جہاں سے ھمکو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
رومی عشق کو ایک دولت سمجھتے ہیں اور پایندگی کا باعث بھی۔
مُردہ بُدم زندہ شُدم گریہ بُدم خندہ شُدم
دولتِ عشق آمد و من دولتِ پایندہ شُدم
اب بات کو علامہ اقبال کے اس شعر سے ختم کرتا ہوں
جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی
والسلام ۔
مقبول فیروزی