شیخ محمد شعراوی مصر کے بڑے عالم تھے
ایک بار جب سنہری جالیوں کو چومنے آگے بڑھے وہاں موجود شرطہ کہنے لگا
شیخ آپ اتنے بڑے عالم ہو کر یہ بدعت کر رہے ہیں
آپ ایک پتھر کو کیسے چوم سکتے ہیں جبکہ علم والے ہیں
شیخ شعراوی نے فوراً کہا تم نے بدعت سے بچا لیا شکریہ تمہارا, مجھے اپنا سر چومنے دو کیونکہ تم نے مجھے بدعت سے بچا لیا ھے
شرطہ متذبذب ہوگیا
شیخ نے زبردستی اُسکے سر پہ موجود ٹوپی کو چوم لیا
پھر اچانک شیخ ہنسنے لگے
شرطہ کہنے لگا شیخ کیوں ہنستے ہو
فرمایا اے مسکین تم گمان کر رہے ہو میں نے تمہیں چوما ھے شرطہ کہنے لگا شیخ آپ علامہ مفتی ہو کر یہاں حرم پاک میں مذاق کر رہے ہیں یعنی اپ نے میرا سر ہی تو چوما ھے
شیخ نے فرمایا کہ میں نے ٹوپی چومی تمہیں نہیں چوما
شرطہ کہنے لگا ٹوپی تو میرے ہی سر پر ہے نا
شیخ نے فرمایا
کیا یہ بابرکت جالیاں رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی قبر مبارک کے اوپر نہیں ہیں
یعنی جیسے تمہارے سر پہ موجود ٹوپی کو چومنا تمہیں چومنا ھے ویسے ہی اِن جالیوں کو چومنا رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو چومنا ھے یہ سن کر شرطہ بہت شرمندہ ہوا اور رونے لگا اور پھر خود آگے بڑھ جالیوں کو چومنے لگا
اللہ اللہ
کسی پہ عشق کا دروازہ لمحوں میں کھل جاتا ھے اور کسی پر ساری زندگی نہیں کھلتا
اللہ تعالی آخرت تک ہم پر عشقِ جناب محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا دروازہ کھولے رکھے
کبھی بند نہ فرمائے