حضرت محمدمصطفیﷺ کا نام ِمبارک لب پر آتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ وفورِ عقیدت سے دل بھر آیا۔گفتار کے اسلوب پر قابو پانا مشکل ہوگیا کیونکہ روح کے اندر خیالات متلاطم ہوں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ان کے لبوں کی جنبش سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا تھاکہ دل ہی دل میں درود وسلام کا ورد جاری ہے بلکہ وہ مجھے اپنے ہی شعر کی بولتی ہوئی تصویر نظر آئے۔
الفاظ جھجکتے ہیں لرزتے ہیں معانی
کچھ اور بجز صلِ علیٰ کہہ نہیں سکتے
سید فخر الدین بلے عشقِ رسولﷺ مقبول سے سرشار ہیں۔ میرا اور ان کا ساتھ دو چاربرس کا قصہ نہیں،بیس،پچیس برس کی بات ہے۔جب کبھی حضور علیہ الصلوۃٰ والسلام کا ذکرِ خیرکرتے ہیں، ان کی آنکھیں اشکوں سے وضو کرتی نظر آتی ہیں۔پنجتن پاک کا موضوع ِ گفتگو ہوتو بھی پلکیں بھیگ جاتی ہیں۔بظاہر دنیا دار ہیں لیکن بباطن ان کی دنیا سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے بھرپور اورپنجتن ِ پاک کی عقیدت سے معمور ہے۔ یہ محبت، یہ عقیدت، یہ نسبت ان کی مدحیہ شاعری میں جلوہ گرہے۔
سیدفخرالدین بلے نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بڑی گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے۔ اس مطالعہ نے انہیں آگہی اور عرفان کی دولت سے مالامال کیا ہے۔ آگہی اور عرفا ن نے ان کی آتشِ شوق کو ہوا دی ہے۔ اس آتشِ شوق نے انہیں توانائی اور روشنی بخشی ہے۔اس روشنی نے ان کے قریہ ءدل کو منور کردیا ہے۔ مشامِ جاں کو معطر کردیا ہے۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی شان یہ ہے کہ آپ کو مبالغہ آرائی کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ مبالغہ آرائی کریں بھی کیا؟اس لئے کہ آپ ﷺ تمام مخلوقات سے افضل ہیں۔ انسان ہی تمام مخلوقات سے اعلیٰ ہے اور اسے اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل ہے۔ انبیاء ومرسلین بلاشبہ تمام انسانوں سے اعلیٰ اور افضل ہیں۔ قرآن حکیم کا فیصلہ ہے اللہ تبارک وتعالیٰ نے بعض انبیاء کو بعض انبیاء پر فضیلت بخشی ہے اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو بلاشبہ تمام انبیاء مرسلین پر سبقت وبرتری حاصل ہے۔ عالم ِ ارواح میں میثاق النبیین ہوا۔ اس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمام انبیاء ومرسلین سے عہد لیا کہ جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام دنیا میں تشریف لائیں گے تو وہ سب ان پر ایمان لائیں گے اور ان کی نصرت فرمائیں گے۔ پھر تمام انبیاء مرسلین کو ایک دوسرے پر اس حلف کا گواہ بنایا اور اللہ تبارک وتعالیٰ خود بھی گواہوں میں شامل ہوگیا۔ شبِ معراج النبی ﷺ کو مسجد اقصیٰ میں تمام انبیا ومرسلین کو مقتدی اور حضور کوان کا امام بناکر بھیجا،انہیں تمام عالمین کیلئے رحمت بنایا اور ختمِ رسالت کا تاج بھی حضورﷺ کے سر پر سجایا۔ حضورﷺ کے ان فضائل کے بعد کیا کسی مبالغے کی ضرورت رہ جاتی ہے؟یقیناً نہیں لیکن یہ بھی طے ہے کہ نعت گوئی ایک نازک مقام ہے۔ ذرا سا مبالغہ ہوتو حمد کی سرحدوں کو انسان عبور کرسکتا ہے۔ البتہ مقامِ رسالت ﷺ کو سمجھنے والے اس مقام سے بڑی آسانی کے ساتھ گزر جاتے ہیں اور اتنی خوبصورتی کے ساتھ یہ منزل طے کرجاتے ہیں کہ لوگ سوچتے رہ جاتے ہیں۔ اب ذرا سید فخرالدین بلے کا خوبصورت نعتیہ شعر سنئے اور سردھنئے۔
ہے خوفِ خدا ان کو خدا کہہ نہیں سکتے
کچھ اور مگر اس کے سوا کہہ نہیں سکتے
سبحان اللہ!سبحان اللہ،کیا کہنے۔کتنی خوبصورتی کے ساتھ ایک مشکل مقام سے بڑی آسانی کے ساتھ گزرے ہیں۔ یہ سب توفیق ِالٰہی کا مرہون منت، ان کے عرفان کا ثمرہ اور محبت وعقیدت کا حاصل ہے۔
عشقِ رسولﷺ میں ڈوبی ہوئی نعتیہ شاعری پڑھ کر مجھےسید فخرالدین بلے فنافی الرسول ﷺ کی منزل پر فائز نظر آتے ہیں۔ اوربڑے فخریہ اندازمیں کہتے ہیں۔۔
ہے عشق ِ نبی ﷺ میرا ایماں،ہے حُب ِ علی میرا مسلک
میں ایک قلندر زادہ ہوں، دم مست دما دم آج بھی ہے
تصوف کو بھی یہ مذہب ِ عشق ہی سمجھتے ہیں۔ان کاکہناہے سینہ تجلیات ِ الہی کا خزینہ ہوتا ہے۔اس لئے اس میں کوئی میل نہیں ہوناچاہئیے۔یہ تو ان کے کہنے کی بات ہے۔حقیقت یہ ہے کہ میں نے کبھی کسی کیلئے انہیں بدگمان پایانہ ہی کسی کے خلاف ان کے دل میں بغض محسو س ہوتاہے۔یہ بات میں پورے وثوق کے ساتھ اس لئے کہہ رہاہوں کہ جہاں یہ کسی سے بدلہ لے سکتے ہوں،وہاں یہ درگذرسے کام لے کرخاموش اندازمیں بتادیتے ہیں کہ معاف کردینے سے بہتر کوئی انتقام نہیں ہوتا۔دل آزاری کو یہ بہت بڑاگناہ سمجھتے ہیں۔خوش فکری،خوش مزاجی،خوش کلامی اور خوش لباسی ان کی پہچان ہے۔دل جوئی ان کا چلن،شب بیداری ان کا شوق،کتب بینی ان کاذوق،مصیبت زدگان کے کام آنا ان کا شیوہ،مروت و رواداری ان کا وطیرہ،دریا دلی ان کی ادا،صبر و تحمل ان کی رِدا،علم و حکمت ان کی روح کی غذا،محبتیں بانٹنا ان کا طریقہ، احسان کرکے بھول جانا ان کا انداز،مسکرانا ان کی عادت اور ذکرو فکر ان کی عبادت ہے۔سیرت النبی ﷺ کے گہرے مطالعے اور حب ِ رسول مقبول ﷺ نے انہیں بڑااعلیٰ ظرف بنادیا ہے۔جس کی جھلکیاں کئی بار دکھائی دی ہیں۔قول اور فعل میں ہم رنگی ہو تو ہی ایسا ممکن ہے۔ورنہ باتیں تو سب کرتے ہیں۔
مجھے کئی بار سیرت النبی ﷺ کانفرنس یا سیمینار میں انہیں سننے کا موقع ملا، فصاحت اوربلاغت کے ساتھ ساتھ معلومات کا سمندربہتاہوا محسوس کیا۔ قرآنی آیات اور احادیث ِنبوی ﷺ کے حوالے دے کر یہ اپنا نقطہ ءنظر بڑے توانا اور موثر پیرائے میں بیان کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ نئے زاویے تلاش کرنا کوئی ان سے سیکھے۔ ان کی نکتہ آفرینیوں نے ہمیشہ سامعین کو دعوتِ فکر دی۔ سوچ کو غدا، ایمان کو تازگی اور رو ح کو آسودگی بخشی۔ حضورﷺ کی محبت بولتی ہوئی اور بقول جوش ملیح آبادی سوچ کے در کھولتی ہوئی نظر آتی ہے۔
سیدفخرالدین بلے کے عشقِ رسول ﷺنے فضاؤں میں بڑے رنگ بکھیرے ہیں۔ یہ ہراُس ہستی سے محبت کرتے ہیں،جوحضور ﷺ کو پیاری رہی اور جس کسی نے حضورﷺ سے بغض رکھا، اس کیلئے فخرالدین بلے کے دل میں کوئی گنجائش نہیں۔ پنجتن پاک کی محبت کو یہ حاصلِ ایماں قراردیتے ہیں۔
منقبت کا ایک شعر دیکھئے۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ سامنے کی بات کو کتنے مختلف اورانوکھے انداز میں بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حقائق و واقعات کو یہ اپنے زاویوں سے دیکھتے ہیں۔ مولائے کائنات حضرت علی مرتضی ٰکرم اللہ وجہہ کی ولادت باسعادت حرم شریف میں ہوئی اور ان کا نکاح سیدۂ کائنات بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنھاسے ہوا۔ اس سچائی کو بلے صاحب نے کس زاویے سے دیکھا؟ آپ یہ شعر سنئے اور سوچئے کہ میں نے جو گفتگو کی ہے، کیا اس کی تائید کے لئے یہ شعر کافی نہیں۔
واللہ بے مثال تھی شادی بتول کی
بیٹا خدا کے گھر کا تھا، بیٹی رسول کی
یہ شعرمیں نے ایک روحانی مجلس میں سید فخرالدین بلے سے انیس سو پچپن میں سناتھا لیکن میرے دل پر آج بھی نقش ہے۔
قرآنی آیت کا مفہوم ہے ۔حضور نبی ء کریم ﷺ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے بلکہ وہی کچھ کہتے ہیں،جو اللہ رب العزت کی طرف سے انہیں وحی کیا جاتا ہے۔ یہ بات بھی فخرالدین بلے نے اپنے لفظوں میں اتنے دلکش پیرائے میں بیان کی ہے کہ آپ سن لیں تومدتوں فراموش نہیں کرپائیں گے۔
شرحِ آیات ، حدیثِ نبوی ﷺ ہوتی ہے
آپ ﷺ کہتے ہیں وہی کچھ،جو وحی ہوتی ہے
وہ کہتے ہیں۔۔ ہے عشق ِنبی ﷺ میرا ایماں ۔۔ اور ان کی پوری مدحیہ اور نعتیہ شاعری اس کی گواہی دے رہی ہے۔ اقبال نے کہا تھا بات جو دل سے نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے اور ان کی نعتیہ شاعری مجھے ان کے اندر کے عاشقِ رسول ﷺ کی آواز ہی معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے اثر ہی نہیں رکھتی۔ دل میں اُترجاتی ہے اور جو کوئی اس کا اثر قبول کرلے، مجھے یقین ہے کہ اس کی قسمت سنورجاتی ہے۔مجھے ان کے کلام میں ان کے دل کی دھڑکنیں سنائی دی ہیں۔میں نے اپنے مضمون کیلئے عشقِ محمد بلے بلے کا عنوان تجویز کیا ہے، اس لئے اسی مناسبت سے ان کے نعتیہ شعر پر اپنی گفتگو ختم کر رہا ہوں۔
شوق کا عالم اللہ اللہ، عشقِ محمد ﷺ بلے بلے
نورِ نبیؐ ﷺ ہے وجہِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم
چلتے چلتے محترم سید ہدایت علی صبوحی دہلوی کاشکریہ ادا کرناضروری سمجھتاہوں،جنہوں نے سید فخرالدین بلے کے ملتان سے سرگودھاتبادلے پر ایک پوری شام کو ان کے نام کیا۔ ان کی علمی و ادبی شخصیت اور فن کے مخفی گوشے سامنے لانے کااہتمام کیا۔وہ یہ محفل نہ سجاتے تو جو خوبصورت گفتگو محترم عاصی کرنالی،ممتاز العیشی،قتیل جعفری،اقبال ساغر صدیقی،ڈاکٹر مقصود زاہدی، اوردیگر احباب نے بلے صاحب کے حوالے سے کی ہے،میں کیا سب اس سے محروم رہتے۔مجھے کہنے دیجئے کہ سید ہدایت علی صبوحی صاحب نے خود بھی علم و عرفان کے موتی لٹا کرہم سب کے دامنِ سماعت کو مالامال کردیا ہے۔خداانہیں لمبی زندگی دے اور یہ ایسی بھرپور محفلیں سجاتے رہیں۔
۔یہ مضمون سید فخرالدین بلے کے ملتان سے سرگودھاتبادلے پران کے ساتھ ایک الوداعی ادبی نشست میں پڑھاگیا۔
اب آپ ملاحظہ کیجئے سیدفخرالدین بلے کی دو ایمان افروز نعتیں ، ان میں سےایک نعت کے ایک دو اشعار کاحوالہ بھی ڈاکٹر زاہد علی واسطی نے اپنے اس مضمون میں دیاہے
نعت
ہے خوف ِ خدا ان کو خدا کہہ نہیں سکتے
کچھ اور مگر اس کے سوا کہہ نہیں سکتے
***
اِلّا کو اگر لَا سے جدا کہہ نہیں سکتے
حق بات بہ انداز ِ ثنا کہہ نہیں سکتے
***
وہ ذات جو مطلوب ہے،طالب بھی، طلب بھی
کہنا جو اسے چاہیں تو کیا کہہ نہیں سکتے
***
اَو اَ دنی و ٰ قوسین کی منزل ہے معما
انساں کو تو ہم عرش رسا کہہ نہیں سکتے
***
کیوں میم کے پردے میں ہوئی حمد کسی کی
کیا اس کو بھی شوخیء ادا کہہ نہیں سکتے
***
الفاظ جھجکتے ہیں ،لرزتے ہیں معانی
کچھ اور بجز صلِ عَلیٰ کہہ نہیں سکتے
سید فخرالدین بلے
اب بارگاہ ِ رسالت پناہ ﷺ میں سید فخرالدین بلے کی دوسری نعت بصدادب و احترام پیش کی جارہی ہے۔ اس نعت کے ہردوسرے مصرعے میں انہوں نے درودو سلام کانذرانہ پیش کیا ہے اور
صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی ردیف ہے، جس نے ان کی نعت میں جان ڈال دی ہے۔
اول و آخر ، رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم
حُسنِ سراپا، عشقِ مجسِّم صلی اللہ علیہ وسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مظہرِ نُورِ ذاتِ ا ِلٰہی ، سرِ علوم و رازِ خُدائی
ہادیٔ برحق ، رہبرِ اعظم، صلی اللہ علیہ وسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روئے منور ، سیرتِ اطہر، شافعِ محشر، ساقئی کوثر
تم ہو جمالِ روحِ مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلق تمہارا کامل واکمل ، ذات تمہاری اشرف و افضل
تم سے مفخّر اُمتِ آدم صلی اللہ علیہ وسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روحِ اخوت ، وجہِ محبت ، شمعِ ہدایت ، شانِ نبوت
ارفع و افضل ، سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہرِ گدایاں ، لطفِ یتیماں ، مُحسنِ انساں ، عاشقِ یزداں
شانِ خودی و فخرِ ِ ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وارثِ ایماں، چشمئہ عرفاں، مہرِ درخشاں، صاحبِ قرآں
شانِ یقیں ، ایقانِ مُسلم صلی اللہ علیہ وسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہِ فروزاں، نیرِِّ تاباں، نعمتِ یزداں، دلبرِ رحماں
تم سے مشرف عرشِ معظم صلی اللہ علیہ وسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شوق کا عالم اللہ اللہ ، عشق ِ محمد بلّے بَلّے
نورِ نبی ہے وجہ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم
عشق ِمحمدﷺبَلّے بَلّے
تحریر:ڈاکٹر زاہد علی واسطی،ملتان