(Last Updated On: )
پاکستان:قصہ صدی گزشت
جنوری1922ء:تحریک خلافت
جنوری1922میں تحریک خلافت زوروں پر تھی۔ پوری ہندوستانی عوام شامل تحریک تھی اور برطانوی سامراج کے خلاف برسرپیکارتھی۔23نومبر1919کوخلافت کمیٹی کا دہلی میں پہلااجلاس ہوا تھا جس میں فیصلہ کیاگیاکہ چونکہ پہلی عالمی جنگ میں فتح کے بعدبرطانوی سامراج نے حرمین شریفین کے مقامات مقدسہ اور خلافت عثمانیہ کے بارے میں وعدہ خلافیاں کی ہیں اس لیے حکومت برطانیہ سے عدم تعاون کرکے انہیں ایفائے عہدپرمجبورکیاجائے۔دسمبر1919میں امرتسرکے شہرمیں مسلم لیگ اور آل انڈیاکانگرس کامشترکہ اجلاس ہواجس میں مہاتماگاندھی نے ہندومسلم اتحادکابیڑہ اٹھایااور تحریک خلافت کی قیادت سنبھال لی۔فروری 1920میں کلکتہ کے اندر کل ہند عظیم الشان خلافت کانفرنس ہوئی۔اس کانفرنس نے تحریک خلافت کوبرطانیہ خلاف جذبات فراہم کیے اورکل ہندوستان میں سول نافرمانی کی وباپھوٹ پڑی اورہرکس و ناکس نے اس میں حصہ لیا۔خلافت کمیٹی کاصدر دفترلکھنومیں تھااور اس کمیٹی کے اجتماعات اورعوامی جلسے ہندومسلم اتحادکے مظہرتھے کیونکہ یہ دونوں انگریزکے خلاف حالت تحریک میں تھے۔اس وقت مسلمانوں کے تمام بڑے بڑے رانمااگرچہ مسلم لیگ میں شامل نہ تھے لیکن تحریک خلافت کی جدوجہدمیں اکٹھے تھے۔آکسفورڈکے فارغ التحصیل مولانامحمدعلی جوہراوران کے بھائی شوکت علی اس فہرست قیادت میں صف اول میں شامل تھے۔ان کے علاوہ ڈاکٹرمختاراحمدانصاری،مولاناحسرت موہانی،رئیس المہاجرین بیرسٹرجان محمدجونیجو،سیدعطااللہ شاہ بخاری،مولاناابواکلام آزاد،حکیم اجمل خان اورشوکت علی صدیقی بھی شامل تھے۔تحریک خلافت کے تحت ملک بھرمیں جگی جگہ خلافت کانفرنسیں منعقدہوتیں اور ہندواورمسلمان راہنماان جلسوں میں شریک ہوتے اور مل کر تحریک کے مقاصد کے حصول تک جدوجہدکرتے رہنے کاعزم کرتے۔
1919سے 1924تک چلنے والی یہ تحریک 1922کے آغازمیں اپنے جوبن پر تھی۔خاص جنوری1922میں مسلمانوں کے تمام راہنما پس دیوار زنداں پابندسلاسل ہو چکے تھے۔مسلمان قیادت کی عدم موجودگی میں تحریک کی زمام کار ہندؤں اورخاص طور مہاتماگاندھی کے ہاتھ میں آچکی تھی۔اس دوران کچھ انتہاپسندوں نے تحریک کے نام پر قانون ہاتھ میں لینے کی کوششیں کیں اور ملک کے بعض علاقوں میں جلاؤ گھیراؤ کی سیاست ہونے لگی۔عوام کے جذبات کااس طرح سے اخراج ایک فطری امر تھااورمیدان میں موجود قیادت کافرض تھاکہ ان حالات کوقابومیں لیاجائے اور پرامن جدوجہدکوحصول مقاصد کاذریعہ بنادیاجائے۔چنانچہ 13،12جنوری 1922کو بمبئی میں ایک اجلاس میں فیصلہ کیاگیاکہ تحریک کو قانون میں دائرے میں رکھاجائے۔لیکن حالات قابوسے باہر ہوئے جارہے تھے اور احمدآباد بری طرح فسادات کی زد میں آچکاتھا۔اس دوران خواتین بھی تحریک میں شامل ہوگئیں۔خاص طور پر علی برادران کی والدہ بی اماں،بیگم محمدعلی جوہراورترک نژاد خاتون عطیہ فیضی نے اس تحریک میں شامل ہوکر اسے گویاایڑھ لگادی۔تحریک اس قدر زورپکڑچکی تھی کہ دن بدن حالات قابوسے باہر ہوچلے تھے۔خاص طور پر مسلمانوں کے اخبارات کی خبریں بھی مسلمانوں کے حوصلے بڑھانے کاکام کررہی تھیں۔ان خبروں کاایک اثریہ بھی تھاکہ خلافت کے خاتمے کاغصہ براہ راست حکومت،حکومتی اداروں حتی کہ حکومتی اہل کاروں پر بھی اترناشروع ہوگیا۔یہ تحریک اب یوپی اور بنگال تک پہبچ چکی تھی اور پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں معمول کی بات بنتی جارہی تھی۔یوپی کے گورنرنے تو برطانوی باشندوں اور اعلی حکومتی عہدیداروں پر اقدام قتل کی مساعی بھی روایت کیں۔لوگ حکومتی ملازمتوں کو خیرآباد کہ رہے تھے،حکومتی تعلیمی اداروں کے مقابلے میں نئے نجی تعلیمی ادارے قائم ہورہے تھے،سرکاری خطابات انگریزکے منہ پرمارے جارہے تھے،حکیم اجمل خان سمیت متعدد مشاہیراب تک اپنے سرکاری خطابات واپس کرچکے تھے۔سرکاری تعلیمی ادارے ویران ہوتے چلے جارہے تھے اورنجی تعلیمی ادارے دھڑادھڑتعمیرہورہے تھے اور ردعمل کے طورپر ان نجی اداروں کامعیارتعلیم بھی بلندپایہ تھا۔جامعہ ملیہ کاقیام اس کی روشن مثال ہے جس کی تفصیل کایہ موقع نہیں۔یہ سلسلہ بڑے شہروں سے چھوٹے شہروں اور پھرقصبات و دیہات تک پھیل گیااور علاقے کے نوابین نے اپنی جیب پراخراجات کابوجھ ڈالا،مقامی علماء کرام کو بھاری تنخواہوں پر ملازمتوں کی پیش کش کی تاکہ وہ سرکار کی جانب نہ دیکھیں اور اپنے اثرورسوخ سے علاقے کے کل بچوں کوداخلہ دلواکریو ں نئے تعلیمی اداروں سے شعوروآگہی کے نئے سفرکاآغازکیا۔
جب حکمران اپنے عوام سے وعدے کریں اور پھران کاایفانہ کریں تو اس طرح کاردعمل فطری اور یقینی ہے۔اورخاص طورپر جب معاملہ کسی مذہبی عقیدے کاہو تو ازمنہ وسطی میں یورپ بھی ان جذبات کے شاخسانے مشاہدہ کرچکاتھا۔لیکن حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے سے ہرفرعون کایہ وطیرہ رہاہے کہ وعدہ خلافی ان فراعین وقت کاوطیرہ ہوتاہے۔مسلمان راہنماؤں نے ملک میں اور ملک سے باہر برطانیہ کی مرکزی حکومت تک مزاکرات اور گفتگوکے راستے معاملہ سلجھانے کی حتی الامکان کوشش کی تھی۔مسلمانان ہندکے نمائندہ وفود لندن اور فرانس تک بھی گئے،مزاکرات کیے،عالمی دباؤ ڈالا اور ہندوستان کے مخدوش مستقبل سے بھی آگاہ کیالیکن نتیجہ صفرہی رہا۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان تمام کوششوں میں ہندوقیادت کاحق اتفاق بھی ساتھ شامل تھا۔لیکن اول روزسے انکار کاسلسلہ جوشروع ہواتو آخری حد تک یہی رویہ ہی سامنے آتارہا۔ایک طرف ہٹ دھرمی اپنی انتہاؤں کوچھورہی تھی تودوسری طرف جذبات کابہاؤبھی قابوسے باہر ہورہاتھا۔درحقیقت پہلی جنگ عظیم کی فتح انگریزسرکارکے سرچڑھ کر بول رہی تھی اور ان کے خیال میں اب دنیاکی کوئی کوئی طاقت ان سے زیادہ قوت کی حامل نہیں ہو سکتی تھی۔انگریزحکمرانوں کایہ رویہ ہندوستان میں حالات کی خرابی کاباعث بنااور مسلمان عوام نے قانون کوہاتھ میں لیناشروع کردیا۔
گورے سامراج کے اس عوام دشمن رویے نے پورے ملک کو بدامنی کی بھٹی میں جھونک دیا۔خاص طورپر جنوبی ہندوستان کے اضلاع زیادہ متاثرہوئے۔چٹاگانگ،آسام اور ان کے پڑوسی علاقے تو تحریک کاگویاگڑھ بن گئے تھے۔اس موقع پر تحریک کی قیادت نے فیصلہ کیاکہ حکومت کے ساتھ عدم تعاون کے ذریعے تحریک خلافت کوآگے بڑھایاجائے۔چنانچہ قیادت کی اپیل پر ہندوستان کی کل عوام نے حکومت کوادائگیاں بندکردیں۔لگان جمع کرانے بندکردیے گئے،صرف کان پورمیں حکومت کو 75%نقصان کاسامناکرناپڑاوریوپی میں بھی لگان اورسرکاری واجبات جمع ہونے بندہوگئے۔عدم تعاون کی تحریک میں گاندھی جی اور کانگریس کی دیگرقیادت بھی پیش پیش تھی۔یہ قیادت خود شہروں،بستیوں اوردیہاتوں میں پہنچ کر بدیسی حکمرانوں کے خلاف زہراگلتی تھی اورعوام کو حکومت اورحکومتی اہل کاروں کے خلاف عدم ادائگی پر اکساتی تھی۔نتیجۃََ حکومت کے لیے مشکلات بہت بڑھ گئیں اور بنگال سمیت مختلف اضلاع میں ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے خزانہ ناکافی ہوگیا۔اس سب کے باوجود حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی اور اپنی ضدپر اڑی رہی۔حکومت سے مایوسی کے بعد تحریک خلافت کی قیادت نے سول نافرمانی کی طرف قدم بڑھانا شروع کیا اورحکیم اجمل خان نے 30اور31جنوری 1922کے ایک اجلاس میں حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لیے گاندھی جی کوجملہ اختیارات سونپ دیے۔اس پرمستزادیہ کہ ہندوستان بھرکے نوسو جیدعلمائے دین نے احیائے خلافت کی تحریک کے لیے ترک موالات کے حق میں فتواجاری کردیا۔
1922کے پہلے مہینے کے اختتام تک تحریک بہت تیزی سے اپنے حتمی مقاصدکی طرف بڑھ رہی تھی۔مقاصد حاصل ہوں گے یانہیں؟؟یہ امرتوابھی اندھیرے میں تھالیکن یہ بات ضرورتھی کہ 1857ء کے بعد ہندوستانی عوام جوایک ہزارسالہ مسلمانوں کے شاندار دوراقتدارکے نتیجے میں اعلی ترین علمی،ادبی،تہذیبی،ثقافتی اور مذہبی روایات کے خوگرتھے لیکن اب ہر لحاظ سے دباؤمیں تھے اور ذہنی و جسمانی طورپرفرنگی ولایتی حکمرانوں سے مرعوب ہوچکے تھے اور کسی طورپر اپنے جذبات کے اظہار پر قدرت نہیں پارہے تھے تو اب خلافت کی برکت اورفیض نے ان کو کھل کر اپنے جذبات کے اظہارکاموقع فراہم کردیاتھا۔انہیں اعتمادنفسی حاصل ہواکہ وہ اس گئی گزری حالت غلامی کے باوجود کچھ بھی کرسکنے کاحوصلہ اور جرات کرسکتے ہیں۔آزادی سلب ہونے کے باوجود ان کے اندر سے ابھی غیرت قومی،اتحادویگانگت اور ملی جذبات کاخاتمہ نہیں ہوا۔اسی کے ساتھ ساتھ بدیسی حکمرانوں کو بھی اندازہ ہوچلاتھا کہ جس قوم کو انہوں نے غلام بنانے رکھاہے اس میں ایک ہزارسالہ مسلمان اقتدار کی پھونکی ہوئی روح آزادی ابھی بہت کچھ باقی ہے۔انگریزنے ایک خاص طبقے کوتو اپنی زنجیروں میں ذہنی طورپر جکڑلیاتھا لیکن اس وقت اورآج تک بھی عام عوام غلامی کاطوق اپنی گردن میں ڈالنے سے منکرہیں۔تحریک خلافت کے دوران ہنداورمسلمان ملتیں جداجدامنازل کے حصول کے باوجود شاہراہ احتجاج پر شانہ بہ شانہ محو سفرتھیں اور ہندومسلم اتحاد کا نعرہ بلکہ پیشکش بھی سب سے پہلے ہندوقیادت کی طرف سے وارد ہوئی تھی۔اللہ تعالی شر سے خیرپیدافرمانے پر قدرت رکھتاہے چنانچہ ہندومسلم اتحاداور ہندوقیادت کی موجودگی مسلمانوں کے لیے آگے بڑھنے کاباعث بنتی رہی۔