مشیت الہٰی کی طرف سے انسانیت کو صراط مستقیم پر لانے کے لیے جب ہم سرزمین کے چاروں طرف انبیاء ماسبق کی محنتوں کے اثمار کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ انسانی فلاح کے لیے انبیاء کرام کی بعثت رحمت خداوندی کی افضل ترین مثال ہے۔ شمال میں ظہور ابراہیمی کا مقام تھا۔ حضرت نوع علیہ السلام کا علاقہ اسی کے قرب و جوار میں تھا۔ اسی شمال میں فلسطین و یروشلم کا علاقہ جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پیغام خداوندی پہنچایا۔ اسی طرح جنوب میں عادو ثمود ، سمندر پار مصر کی سرزمین پر حضرت اسماعیل و ابراہیم نے خدائے بزرگ و برتر کی الوہیت کے ڈنکے بجائے۔ جملہ انبیاء و رسل کی دعوتوں پر بہت سوں کو ہدایت خداوندی کی متاع ملی مگر بہت سی انسانی طاقتوں نے الوہیت کے حقوق خدائے وحدہ لاشریک سے الگ کر کے بے شمار الہ باطلہ کی نذر کر رکھے تھے۔ انسان کا اپنا نفس اور اس کی خواہش خاندانی رسم و رواج ، نسل قومی اور قبیلوں وحدتوں کا بھرم ، جاگیر دار اور وڈیروں کی انفرادیت ، پجاری طبقوں کی بالادستی اور درباری اشراف کی کبر پسندی مختلف نہج کی الوہتیں متصور ہوتی تھیں۔ اسی نام نہاد الوہیت کی پاداش میں انسانی عظمت پس رہی تھی۔ لاالہ الا ﷲ صمیم قلب سے کہنے کی جسارت انسانی بساط سے باہر محسوس ہوتی تھی مگر اس ذات بابرکات نے تمام انبیائے کرام کے سردار کی بعثت کا مقصد نہ صرف لا الہ الا ﷲ کو سر تسلیم خم کرانا رکھا بلکہ سرور کونین ﷺ کے کردار لاثانی نے عرب کے امی لوگوں میں سے ایسے ایسے سرفروشان اسلام پیدا کر دئیے ، جن کا جینا مرنا ، سونا جاگنا ، اُٹھنا بیٹھنا ، چلنا پھرنا پرچار اسلام ، ارتقائے اسلام اور بقائے اسلام رہا..
جب ابتدائی دور کش مکش میں منبع رشد و ہدایت کی طرف سے دعوت دین کے لیے گفت و شنید ہوتی تو آپ فرماتے ’’بس وہ ایک کلمہ ہے اسے اگر مجھ سے قبول کر لو تو اس کے ذریعے تم سارے عرب کو زیر نگیں کر لو گے اور سارا عجم تمہارے پیچھے چلے گا۔ میلوں اور حج کے موقعوں پر قبائل کے کیمپوں میں جا جا کر سرکار دو عالمﷺ نے یہ بات ہر سردار قبیلے سے کہی کہ ’’مجھے ساتھ لے چلو ، مجھے کام کرنے کا موقعہ دو اور مجھ سے تعاون کرو یہاں تک کہ خدا کی طرف سے اس پیغام کو میں واضح کر دوں گا جس کے لیے مجھے معبوث کیا گیا ہے ۔‘‘
آپ کی اس دعوت کو قبول کرنے والوں نے جو مراتب اور فضائل حاصل کیے وہ ہمیشہ تاریخ میں سنہری حروف سے رقم رہیں گے۔ یہاں آپ ﷺ کے عشق میں مستغرق ہو کر متاع اسلام حاصل کرنے اور اپنے قلب و روح کو تسکین دینے کے واقعات عشق رسول ﷺ بنائے ایمان پر دلالت کرتے ہیں۔ ابتدا میں اگر عشاق رسول و کی جانثاریوں کا تذکرہ ازخود کر دیا جائے تو اس سے بہتر ہو گا کہ کسی ایسے شخص کی زبان کا سہارا لیا جائے جو سرکار دو عالم ﷺ کے شب و روز معمولات اور شمع رسالت ﷺ کے پروانوں کا بنظر غائر جائزہ لینے کے لیے کفار کی طرف سے مامور کیا گیا ہو پھر وہی شخص نہ صرف خود مسلمان ہو گیا ہو بلکہ تبلیغ اسلام کے لیے سفیر اسلام بن کر اپنی قوم کی طرف بھی گیا ہو۔
قریش نے بغض رسول میں عروہ بن مسعود کو مخبری کے لیے بارگاہ رسول ﷺ میں اپنا خصوصی نمائندہ بنا کر بھیجا کہ دیکھ کر آؤ مسلمانوں کے سردار کا رہن سہن کیسا ہے؟ اس آقا ﷺ کا اپنے غلاموں سے برتاؤ کیسا ہے ؟ اور اس کے غلام کس حد تک اس کے تابع فرمان ہیں؟ جائزہ لینے کے بعد عروہ بن مسعود نے قریش کو جا تاثرات دئیے وہ آج بھی بڑے برے غیر مسلموں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ عروہ بن مسعود نے کہا ’’اے قوم ! مجھے بارہا نجاشی (بادشاہ جش ) قیصر (بادشاہ قسطنطنیہ) کسریٰ (بادشاہ ایران) کے دربار میں جانے کا اتفاق ہوا۔ مگر مجھے کوئی بھی ایسا بادشاہ نظر نہ آیا جس کی عظمت اس کے دربار والوں کے دل میں ایسی ہو جیسے اصحاب محمد ﷺ کے دل میں محمد ﷺ کی ہے۔ وہ کہتا ہے مسلمانوں کا نبی تھوکتا ہے تو اس کا آب دہن زمین پر گرنے نہیں پاتا کسی نہ کسی ہاتھ پر گرتا ہے۔ جس ہاتھ میں آب دہن آ جاتا ہے وہ اسے اپنے چہرہ پر ملتا ہے ۔ جب ان کا آقا کوئی حکم دیتا ہے تو سب تعمیل کے لیے دوڑ پڑتے ہیں۔ جب وہ وضو کرتا ہے تو مستعمل پانی کے ایک ایک قطرے کے لیے ایسے کوشاں ہوتے ہیں کہ جیسے ابھی لڑ پڑیں گے۔ جب ان کا نبی ْﷺ کلام کرتا ہے تو سب کے سب چپ چاپ ہو جاتے ہیں۔ ان کے دل میں اپنے آقاﷺ کا اتنا ادب ہے کہ اس کے سامنے نظر اُٹھا کر نہیں دیکھتے۔ اے قوم! میری رائے ہے کہ ان سے صلح کر لو کیسے ہی ہو۔‘‘
یہ ادب و احترام بارگاہ نبوت تک ہی محدود نہ تھا اور نہ صرف صحابہ کرام ؓ کی ذات تک بلکہ صحابیات بھی آپﷺ کے ساتھ والہانہ عشق و محبت کی داعی تھیں ۔ جب غزوہ احد کے موضوع پر حضور ﷺ کی شہادت کی غلط خبر پھیلا دی گئی ہندنامی ایک انصار یہ دیوانہ وار میدان جنگ میں دریافت کر رہی ہے کوئی مجھے بتائے کہ میرے آقاﷺ کس حال حال میں ہیں؟ اتنے میں اس کے سامنے سے ایک جنازہ گزرتا ہے پوچھتی ہے یہ کس کا لاشہ ہے بتایا جاتا ہے کہ تمہارے بھائی نے جام شہادت نوش کیا۔ پھر کہتی ہے میرے آقاﷺ کا بتایا جائے اسی اثناء میں ایک اور لاشہ گزرتا ہے پوچھتی ہے یہ کس کا لاشہ ہے بتایا جاتا ہے کہ تمہارے شوہر نے جام شہادت نوش کیا ہے پھر کہتی ہے کہ کوئی بتائے میرے آقاﷺ کس حال میں ہیں؟پھر ایک جنازہ گزرتا ہے پوچھتی ہے یہ کس لاشہ ہے بتایا جاتا ہے کہ تمہارے والد کا جنازہ ہے ۔ وہ پھر اصرار کرتی ہے کہ مجھے بتایا جائے میرے آقاﷺ کس حال میں ہیں؟ اسے بتایا جاتا ہے کہ سرکارﷺ بالکل صحیح ہیں وہ کہتی ہے شکر ہے الہٰی اگر میرے آقاﷺ خیریت سے ہیں تو کوئی مصیبت بھاری نہیں سب کچھ گوارا ہے ۔ بھائی،شوہر اور باپ کا داغ مفارقت سب کچھ برداشت کرنا کسی غیر معمولی قربانی سے کم نہیں۔ وہ کون سا جذبہ تھا جو اتنے مقدس رشتوں کے خاتمہ پر بھی مغموم نہیں کرتا اور مزید جلا بخشتا ہے وہ جذبہ تھا عشق۔
یہ جذبہ فقط زبانی نہ تھا بلکہ جو خوش نصیب آپ ﷺ کی غلامی قبول کرتا' اس پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جاتا رسیوں سے باندھ کر ریگزار پر لٹایا جاتا۔ چھاتیوں پر بھری پتھر رکھ دئیے جاتے کہ ہل نہ سکیں۔ عاشقان حق کے جسم تمازت آفتاب سے جلنے کے لیے چھوڑ دیئے جاتے۔ انہیں غلامی قبول کرنے کی سزا مار مار کر ادھ موا کرنے کی صورت میں دی جاتی جسم لہو لہان کر دیا جاتا۔ عشق کا نشہ اس قدر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا کہ کہیں باپ بیٹے کو پیٹ رہا ہے' کہیں بھائی بھائی کو، مالک غلام کے جسموں سے خون کے فوارے نکال کر بغض و حسد کی آگ کو ٹھنڈا کر رہے ہیں۔ غرض یہ کہ ذکر حق کی محفلوں پر پہرے بٹھا رکھے تھے ان سب باتوں کے باوجود ساقی توحید نے عشق و محبت کے وہ جام لٹائے کہ جس نے پی لیا وہ اس کے نشہ میں ایسا بے خود ہوا کہ ہر قربانی خندہ پیشانی سے ادا کی اور انگاروں پر تڑپتے ہوئے بھی لا الہ الا اﷲ کا ورد زبان پر رہا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
صحابہ کرامؓ کی قربانی یہاں جان ، اولاد اور مقدس رشتوں کی پرواہ سے عاری تھی اس کے ساتھ ساتھ مال کی قربانی بھی عشق رسولﷺ کا بین ثبوت تھی۔ اگر کسی جنگ کے موقعہ پر پروانوں کو مال و متاع حاضر کرنے کا حکم دیا تو حضرت عثمانؓ نے ۹۰۰ اونٹ پیش خدمت کر دئیے ۔حضرت ابو انصاری نے رات بھر کھیت میں آبپاشی کرنے کے عوض دو سیر چھوہارے مزدوری میں لئے تو وہ بھی لا کر آقا کی خدمت میں ڈھیر کر دئیے۔ پروانہ رسالت حضرت ابوبکر صدیقؓ نے تعمیل حکم میں گھر کا کل سامان قدموں میں پیش کر دیا۔ حتیٰ کہ کرتے کی گھنڈیاں بھی توڑ کر حاضر خدمت کر دی تھیں۔ جب محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ بیوی بچوں کے لیے چھوڑ آئے ہو تو صدق و صفا کے پیکر نے جواب دیا ’’ گھر کے لیے یا رسول اﷲ ﷺ !اﷲ اور اس کا رسولﷺ کافی ہے۔ ‘‘
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اس آقائے رحمت کے ارشادات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے صراطِ مستقیم کے متلاشی ہو جائیں اور اسی نبی ﷺ رحمت کے اسوہ حسنہ کی پیروی کو حتمی پیروی سمجھیں جو اپنے رب کی بارگاہ میں انتہائی عجر انکساری کے ساتھ عرض کرتا ہے کہ ’’اے میرے خدا میری اس عرض کو ایک مضبوط عہد سمجھا جائے کہ اگر میں کسی شخص کو ازراہ بشریت بددُعا بھی دے بیٹھوں میں تو میری اس بددُعا کو بھی اس کے حق میں رحمت و برکت اور زکوٰۃ تقرب بنا دینا۔‘‘ آج جائزہ لیا جائے کہ وہ آقا ﷺ اُمت کے لیے کس قدر کریم تھے۔ اور اُمت کس قدر خدمت دین اور غلامی رسول ﷺ کا حق ادا کر رہی ہے۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“