سرما ہمیشہ ہی رگوں میں خون منجمد کرنے والا ہوتا مگر یہ سرما بہت ہی سخت تھا۔ تیمور کےفوجیوں کو پینے کا پانی حاصل کرنے کے لیے چھ چھ فٹ برف کھودنا پڑی!
آخر کار تیمور نے چین پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جھگڑا اس وقت شروع ہوا جب مِنگ خاندانکے پہلے شہنشاہ ہونگ وو نے تیمور کو باجگزار قرار دیا۔ شہنشاہ نے فاتحِ عالم تیمور کو سفیر کےہاتھ مکتوب بھیجا جس میں اُسے ماتحت کہہ کر مخاطب کیا۔ تیمور نے سفیر کی گردن اڑا دی اور اسکے پندرہ سو محافظوں کو بھی قتل کرا دیا۔ پھر اس نے چین پر فوج کشی کا فیصلہ کیا مگر وہ جونظیر اکبر آبادی نے کہا تھا ؎
قزاق اجل کا رستے میں جب بھالا مار گراوے گا
دھن دولت نانی پوتا کیا اک کنبہ کام نہ آوے گا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
ابھی سیحوں کا دریا عبور ہی کیا تھا کہ بیماری نے آن دبوچا۔ 1405ء کی فروری کا ایک برف آلوددن تھا جب سمرقند کو اس وقت کی معلوم دنیا کا دارالحکومت بنانے کی آرزو سینے میں لیے تیمورجہانِ فانی سے کوچ کر گیا۔
لیکن سلطنتیں صرف فتوحات سے استحکام نہیں پکڑتیں۔ انہیں انتظام و انصرام درکار ہوتا ہے۔ کچھہی عرصے میں ہر مرزا‘ ہر بیگ اور ہر خان بادشاہی کا دعویدار بن رہا تھا۔ چند عشرے گزرے توحالت دگرگوں ہو گئی۔ طوائف الملوکی اور ایسی کہ خدا کی پناہ۔ سازشیں‘ شب خون‘ حملے‘ لڑائیاں‘شکستیں! قید خانوں کی تعداد محلات سے بڑھ گئی۔ تیمور کی سلطنت ٹکڑوں میں بٹ گئی ع
مرے لاشے کے ٹکڑے دفن کرنا سو مزاروں میں
سمرقند پر سلطان احمد مرزا کا راج تھا۔ بدخشاں اور ہندوکش پر اس کا بھائی محمود حکمران بن گیا۔تیسرے بھائی الغ بیگ نے کابل اور غزنی پر قبضہ جمایا۔ چوتھا بھائی عمر شیخ‘ جو بابر کا باپ تھا‘فرغانہ کا بادشاہ تھا۔ ہرات پر ان بھائیوں کا چچازاد سلطان حسین فرماں روائی کر رہا تھا۔
یہ ہے آج کے پاکستان کی صورتِ حال! پاکستان‘ جس کے عروس البلاد کراچی میں غیرملکی آ کربسا کرتے تھے‘ جس کی پی آئی اے میں مغرب کے حکمران شوق سے سفر کیا کرتے تھے‘ جس کاحکمران ا یوب خان امریکہ کے صدر کا گال یوں تھپتھپاتا تھا جیسے باپ بیٹے کا گال تھپتھپاتا ہے‘وہ پاکستان آج اس خرابے سے بھی زیادہ تباہ حال ہے جس پر تیمور کے کوتاہ اندیش اور احمقوارث حکمرانی کے لیے ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے تھے۔
مشرق میں پنجاب ہے جہاں وزیراعظم کے بھائی اور ان کے فرزند کی فرماں روائی ہے۔ یہ عملیطور پر ایک ریاست ہے جو وفاق کے ماتحت تو کیا ہوگی‘ وفاق کے سارے معاملات میں دخیل ہے۔صوبے کے حکمران وزیر خارجہ کی جگہ دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں۔ کبھی قطر‘ کبھی ترکی‘کبھی چین۔ یہاں تک کہ افغانستان کا صدر آتا ہے تو کابل اور ’’پنجاب‘‘ کے درمیان تعاون بڑھانے کیبات ہوتی ہے اور افغان صدر پاکستان بھر سے صرف وزیراعلیٰ پنجاب کو کابل کا دورہ کرنے کیدعوت دیتے ہیں۔ جس پر کسی دوسرے صوبے کا حکمران چُوں کرتا ہے نہ اُف۔
سندھ پر آصف علی زرداری کا قبضہ ہے اور ایسا قبضہ ہے کہ وزیراعظم کا نامزد کردہ آئی جی تکقبول نہیں کیا جاتا۔ کراچی شہر کو دنیا کے خطرناک ترین شہروں میں سرفہرست قرار دیا گیا ہے۔پورا شہر قاتلوں‘ اٹھائی گیروں‘ اغواکاروں اور بھتہ خوروں کے چنگل میں ہے۔ صدر زرداری جنذاتی وفاداروں کو وفاق میں اعلیٰ مناصب دے گئے تھے اور جن میں سے کچھ اَسّی اَسّی سال کےہیں‘ نون لیگ کی حکومت میں بدستور فائز ہیں۔ سمرقند‘ فرغانہ‘ بدخشاں اور خوارزم کے درمیانرسہ کشی‘ جوڑتوڑ‘ آنکھ مچولی‘ بھاگ دوڑ اور وفاداریاں بدلنے کا یہ عالم ہے کہ جسے شاہراہوںپر گھسیٹنے کا اعلان ہو رہا تھا‘ اس کی گاڑی ڈرائیو کی جا رہی تھی اور اس کے لیے 74 ڈشوں پرمشتمل ضیافت اپنی نگرانی میں سجائی جا رہی تھی!
بلوچستان کی حالت یہ ہے کہ وفاق سے اس کا تعلق روحانی ہو تو ہو عملی طور پر کہیں دکھائی نہیںدیتا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان برملا‘ ڈنکے کی چوٹ کہہ رہے ہیں:
’’کوئٹہ میں مقامی افراد نہیں‘ غیر ملکی آباد ہیں۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو آج کوئٹہ غیر ملکیوںکا شہر لگتا ہے اور ہم یہ مسئلہ بار بار وفاق کے ساتھ اٹھا چکے ہیں…‘‘
اس بیان پر‘ جو کسی اور ملک میں دیا جاتا تو وفاق منہ چھپاتا پھرتا‘ اتنا بھی ارتعاش پیدا نہ ہوا جوسمندر میں کنکر پھینکنے سے ہوتا ہے!
خیبرپختونخوا کی حکومت صبح بنی گالہ کی طرف دیکھتی ہے تو شام رحیم یار خان کی طرف! اسصوبے کے وزیراعلیٰ اس قدر صوفی منش اور اللہ لوک ہیں کہ صوبہ ان کا افغانستان کے ساتھ جڑاہوا ہے‘ اور جغرافیے کے علاوہ ثقافتی‘ لسانی اور نسلی روابط رکھتا ہے مگر کابل اُن کے سر کےاوپر سے تعلقات پنجاب سے بڑھا کر دورے کی دعوت پنجاب کے حاکم کو دے رہا ہے اورخیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کو اس سے کوئی تعرض نہیں!
رہا وفاق تو اس پر اصل حکمرانی وزیراعظم کے ایک عزیز کی ہے۔ کرۂ ارض پر شاید ہی ایسیمضحکہ خیز صورت کہیں اور ہو جو اس وقت پاکستان کے دارالحکومت میں دکھائی دے رہی ہے!مکڑی کا جالا وفاقی سیٹ اپ سے زیادہ مضبوط ہوگا! وفاقی حکومت کے سربراہ اور اس کےوزیروں اور مشیروں کی کیفیت‘ پٹرول کے بحران میں‘ بالکل وہی ہے جو شاہی محل کے زنان خانےمیں سانپ نکلنے پر بیگمات کی ہوئی تھی! اجلاس پر اجلاس‘ بیان پر بیان‘ اور ابھی تک ذمہ داری کاتعین نہیں ہوا۔ پٹرولیم کے وزیر ایک سانس میں تسلیم کرتے ہیں کہ ذمہ دار ہوں‘ دوسری سانس میںکہتے ہیں ’’اگر میں ذمہ دار ہوا تو استعفیٰ دے دوں گا…‘‘ کوئی اوگرا کا نام لیتا ہے اور کوئی نیشنلشپنگ کارپوریشن کو قصوروار ٹھہرا رہا ہے۔ نفسانفسی کا یہ عالم ہے کہ وزیر خزانہ حکومت کینہیں‘ صرف وزارتِ خزانہ کی صفائی پیش کر رہے ہیں‘ وزیر پٹرولیم یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ’’جنابوزیراعظم! آپ کے علم میں ہے کہ بحران کا ذمہ دار کون ہے…‘‘ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وزارت میںتمام عہدوں پر تعیناتی ’’اوپر‘‘ سے ہوئی ہے اور ٹیم ان کی مرضی کی نہیں اور وزارت چھوڑنے کوبھی دل نہیں کر رہا! ترقی یافتہ ملکوں میں ایسے مواقع پر وزیر پریس کانفرنس کر کے مستعفیہونے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ اس سے پہلے خواجہ آصف نے کابینہ کی میٹنگ میں اپنے وزارتی امورمیں پنجاب حکومت کی مداخلت پر احتجاجاً استعفیٰ پیش کیا تھا۔ یہ مداخلتیں‘ یہ وزارتوں میں ’’اوپر‘‘سے تعیناتیاں‘ یہ پنجاب حکومت کا عمل دخل‘ اسی وجہ سے ہے کہ وزراء کو عزت سے زیادہوزارتیں
عزیز ہیں۔ اگر ایک وزیر بھی ’’کام جاری رکھنے‘‘ کی میٹھی گولی کھانے سے انکار کر کے مداخلتپر احتجاجاً مستعفی ہو جاتا تو اس کے بعد مداخلت کار مداخلت کرتے وقت سو بار سوچتے!
عملی طور پر پاکستان کے شہری حکومت کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومت کا وجود اس کےاقدامات سے ثابت ہوتا ہے۔ شہریوں کو بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانا اور امن و سلامتیبہم پہنچانا۔ اگر یہ دونوں چیزیں عنقا ہیں تو حکومت وجود نہیں رکھتی! حکومت نظم و نسق‘ سسٹم‘ضابطے اور قانون سے عبارت ہے۔ اس حقیقت کو شاید ہی کوئی جھٹلا سکے کہ چند افراد کا گروہحکومت کے نام پر من مانی کارروائیوں میں مصروف ہے اور اسے عوام سے دور کا تعلق بھی نہیں۔عملاً ایک خاندان کا اور اس کے حواریوں کا راج ہے۔ سب ایک دوسرے کو بچا رہے ہیں۔
حکومت کے نہ ہونے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ افغان آرمی‘ افغان پولیس اور افغان انٹیلیجنس کے باقاعدہ ملازم‘ پاکستان کے اندر‘ افغان مہاجر بستیوں میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ اہل وعیال سمیت آرام سے اپنے ’’فرائض‘‘ ادا کر رہے ہیں! یہ لوگ باقاعدگی سے افغانستان آتے جاتےہیں۔ کہاں ہے حکومت؟ ریاست کدھر ہے؟ وقت آ گیا ہے کہ عوام اپنے لیے پانی‘ بجلی اور پٹرول کابندوبست کرنے کے علاوہ نجی پولیس اور نجی انٹیلی جنس کا انتظام بھی کریں!
تیل درآمد کرنے والے ادارے ہوں یا تیل تقسیم کرنے والے یا بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں‘ سب پراعزہ و اقربا اور دوست احباب مسلط کیے گئے ہیں۔ ان کے ہاتھ لمبے ہیں اور گلے عوام کے ہاتھوںسے دور!
اس سے پہلے کہ پانی اور آکسیجن کے لیے قطاروں میں کھڑا ہونا پڑے‘ اللہ کے بندو! اٹھو! چھتوںپر چڑھو‘ آسمان کی طرف منہ کرو اور اذانیں دو!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“