ان میں سے کم ہی ایسی ہیں جو شادی کے بعد کسی قسم کی جاب وغیرہ کرتی ہوں بلکہ اکثر تو کرتی بھی ہوں تو چھوڑ دیتی ہیں۔۔۔ ایک فرد کماتا ہے، باقی سب اس پر اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ جبکہ اس نیم صنعتی دور میں تو ہر ایک فرد کو کمانا چاہیے، وہ عورت ہو کہ مرد۔
اب مسئلہ ایک طرف روایت کا ہے دوسری جانب تعلیم و صنعت کا ہے۔ کچھ خواتین کم تعلیم کی وجہ سے بے روزگار ہیں، جاب کرنا بھی چاہیں تو کسی صنعت میں بہتر مقام پانا مشکل ہے۔ دوسری طرف کارخانے فیکٹریاں تو بس انسانوں کا خون چوسنے کے لیے ہیں۔ سرمایہ دار کی کوشش ہوتی ہے کہ دس بندوں کا کام ایک سے لے، قانون مزدور کو تحفظ نہیں دیتا، ایڈوانس ٹیکنالوجی نہیں ہے، ماحول اتنا قابلِ اعتماد نہیں ہے اس لیے گھروں سے نکلتے ہوئے جھجکتے ہیں۔
ایسے میں جس عورت کے پاس تعلیم نہ ہو، کوئی ہنر نہ ہو وہ خودمختار کیسے بن سکتی ہے۔۔۔؟
کس طرح سے پیسے کما کر شوہر کے ساتھ مل کر گھر کا خرچہ چلا سکتی ہے؟
میں کئی ایسی خواتین کو جانتا ہوں بلکہ کچھ ایسی بھی ہیں جنہیں میں نے کام کاج کا مشورہ دیا، ثابت قدمی کے ساتھ اس پر ڈٹی رہی ہیں۔ آج انہی میں سے کوئی بیوٹی پارلر چلا کر گھر کا اچھا خاصا خرچ چلا رہی ہیں، کچھ کا کپڑے کا کام ہے، کچھ نے دستکاری کا کام شروع کیا تو کاروبار کو بہترین بنا لیا۔۔۔
میں ذاتی طور پر کچھ ایسی خواتین کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے گھروں میں بہت ساری مرغیاں پالی ہوئی تھیں، وہ انڈے بھی بیچتی تھیں اور مرغیاں بھی، ان میں سے ایک قابلِ ذکر ہیں جن کے شوہر کی ایک چھوٹی سی دوکان تھی، حالات کچھ زیادہ اچھے نہ تھے۔۔۔ سو دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے گھر میں مرغیوں اور انڈوں کا اچھا خاصا کام شروع کر دیا۔ کہا کرتی تھیں کہ دوکان سے تو دو وقت کی روٹی چلتی تھی، اب اللہ کا شکر ہے کہ اس کام سے تھوڑا بہت اچھا گزارہ ہو جاتا ہے، پیسے جوڑ لیتی ہوں، عید وغیرہ پر بچوں کے کپڑے بنا لیتی ہوں، کبھی کوئی کتاب کاپی پینسل لینی ہو تو وہ بھی مشکل نہیں ہوتی۔ بچوں کو پڑھا لیا، سب اچھی جاب کر رہے ہیں اور وہی گھرانا بہت خوشحال ہے۔
میرا مقصد کسی بھی سیاسی پارٹی کی حمایت نہیں ہے بلکہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر عورت کو گھر کے خرچ میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے، حکومت کو چاہیے جیسا کہہ رہے ہیں اس پر قائم رہیں، ایسے چھوٹے کاموں میں لوگوں کی مدد کریں، مرغیوں وغیرہ کا کام ہو تو ویکسین کا انتظام کریں، ان لوگوں کو مزید بتائیں کہ بیماریوں سے بچنے کا کیا طریقہ ہے، جگہ کیسے صاف ستھری رکھنی ہیں، کس طرح نشوونما کرنی ہے۔ یہ ایک بہت بڑی مدد ہوگی۔
جس عورت کے پاس سلائی کڑھائی کا ہنر ہو وہ اس کو استعمال کرے، بیوٹی پارلر کا کام سیکھ کر چھوٹا موٹا سیٹ اپ گھر پر ہی بنا سکتی ہیں، بوتیک بنا سکتی ہیں، مرغیاں پال سکتی ہیں، جگہ ہو تو بھینس رکھ سکتی ہیں، کوئی زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا پاس ہو تو اس پر موسمی سبزیاں اگا کر روز کے روز کسی ریڑھی بان کو بیچ سکتی ہیں۔ بہت سارے کام ہیں اگر کرنا چاہیں لیکن کریں ضرور، ہر فرد کو کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے اور مردوں کو بھی چاہیے کہ اپنے گھر کی خواتین کو سپورٹ کریں۔
یہ صرف معاشی نہیں ذہنی سکون سے جڑا معاملہ ہے، جب تک اس سماج کی آدھی آبادی اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہوگی، تب تک غربت تو بڑھے گی ہی اس کے ساتھ ساتھ ذہنی معزوروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا، اعصابی تناو بڑھتا جائے گا۔
دوسروں کے سہاروں پر زندگی بہت بے توقیر سی ہو کر رہ جاتی ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ تحریر ان لوگوں کے لیے بالکل بے معنی ہے جن کے گھروں میں غربت نہیں ہے البتہ جنہیں صبح کی روٹی کھا کر شام کی فکر رہتی ہے کہ کیسے کھائیں گے ان کے لیے بہت اہم ہو سکتی ہے۔
سب شاد رہیں، آباد رہیں۔