کئی لازوال فلمی گیتوں اور ملی نغموں کے شاعرکلیم عثمانی کو اپنے مداحوں سے بچھڑے بیس برس بیت گئے لیکن ان کے تحریر کردہ گیت اور ملی نغمے آج بھی دلوں کو گرما دیتے ہیں۔برصغیر کی فلمی تاریخ میں کچھ نغمہ نگار ایسے بھی تھے جنہیں صرف گیت نگاری کی وجہ سے ہی شہرت نہیں ملی بلکہ انہیں ایک عمدہ غزل گو کی حیثیت سے بھی جانا جاتا تھا۔ ان میں ایک نام کلیم عثمانی کا بھی تھا جنہوں نے بے مثال فلمی گیت تخلیق کئے اور اس کے علاوہ ایک خوبصورت غزل گو کی حیثیت سے بھی اپنے آپ کو منوایا۔۔اردو کے ممتاز شاعر اور ملی و فلمی نغمہ نگار کلیم عثمانی کی تاریخ پیدائش 28 فروری 1928ء ہے۔
کلیم عثمانی کا اصل نام احتشام الٰہی تھا اور وہ دیوبند ضلع سہارنپور میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد کلیم عثمانی نے لاہور میں اقامت اختیار کی اور احسان دانش سے اصلاح لینی شروع کی۔ 1955ء میں انہوں نے کراچی میں بننے والی فلم انتخاب سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ اس فلم کے موسیقار فیروز نظامی تھے۔اس کے بعد انہوں نے ہمایوں مرزا کی فلموں بڑا آدمی، راز، دھوپ چھائوں کے نغمے لکھے۔فلم راز کے لئے تحریر کردہ ان کا نغمہ میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا بے مقبول ہوا۔ یہ نغمہ زبیدہ خانم نے گایاتھا اور اس کی موسیقی فیروز نظامی نے ترتیب دی تھی۔
1966ء میں فلم ہم دونوں میں ان کی غزل ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا نے ان کی شہرت کو بام عروج پر پہنچادیا۔یہ گیت رونا لیلیٰ نے گایا تھا اور اس کی موسیقار نوشاد نے ترتیب دی تھی۔ انہوں نے متعدد فلموں میں مقبول گیت تحریر کئے۔جن میں ان کی اس زمانے کی فلموں میں عصمت، جوش انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب، نازنین، دوستی، بندگی، نیند ہماری خواب تمہارے اور چراغ کہاں روشنی کے نام شامل ہیں۔ 1973ء میں انہوں نے فلم گھرانہ کے گیت تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا اور 1978ء میں فلم زندگی کے گیت تیرے سنگ دوستی ہم نہ چھوڑیں کبھی پر نگار ایوارڈ حاصل کئے۔ فلم فرض اور مامتا میں انہوں نے ایک ملی گیت ’’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘‘ تحریر کیا۔ روبن گھوش کی موسیقی اور نیرہ نور اور ساتھیوں کی آواز میں گایا ہوا یہ نغمہ آج بھی بے حد مقبول ہے۔ اس کے علاوہ ان کا تحریر کردہ ایک اور ملی نغمہ ’’یہ وطن تمہارا ہے ، تم ہو پاسباں اس کے‘‘ کا شمار بھی پاکستان کے مقبول ملی نغمات میں ہوتا ہے۔
کلیم عثمانی کی غزلیات کا مجموعہ دیوار حرف اور نعتیہ مجموعہ ماہ حرا کی نام سے شائع ہوا تھا۔ 28 اگست 2000ء کو کلیم عثمانی، لاہور میں وفات پاگئے اور لاہور ہی میں علامہ اقبال ٹائون میں کریم بلاک کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات پھیلی ہے تیرے ، سرمئی آنچل کی طرح
چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے ، پاگل کی طرح
خشک پتوں کی طرح ، لوگ اُڑے جاتے ہیں
شہر بھی اب تو نظر آتا ہے ، جنگل کی طرح
پھر خیالوں میں ترے قُرب کی خوشبو جاگی
پھر برسنے لگی آنکھیں مری ، بادل کی طرح
بے وفاؤں سے وفا کرکے ، گذاری ہے حیات
میں برستا رہا ویرانوں میں ، بادل کی طرح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پرچم کے سائے تلے ، ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
ایک چمن کے پھول ہیں سارے ، ایک گگن کے تارے
ایک گگن کے تارے
ایک سمندر میں گرتے ہیں سب دریاؤں کے دھارے
سب دریاؤں کے دھارے
جدا جدا ہیں لہریں ، سرگم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
ایک ہی کشتی کے ہیں مسافر اک منزل کے راہی
اک منزل کے راہی
اپنی آن پہ مٹنے والے ہم جانباز سپاہی
ہم جانباز سپاہی
بند مٹھی کی صورت قوم ہم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
پاک وطن کی عزت ہم کو اپنی جان سے پیاری
اپنی جان سے پیاری
اپنی شان ہے اس کے دم سے ، یہ ہے آن ہماری
یہ ہے آن ہماری
اپنے وطن میں پھول اور شبنم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وطن تمھارا ہے،تم ہو پاسباں اسکے. ،یہ چمن تمھارا ہے،تم ہو نغمہ خواں اسکے
اس چمن کے پھولوں پر رنگ و آب تم سے ہے اس زمیں کا ہر زرہ آفتاب تم سے ہے. .
یہ فضا تمھاری ہے بحروبر تمھارے ہیں. کہکشاں کے یہ اجالے راہگزر تمھارے ہیں.
یہ وطن تمھارا ہے،تم ہو پاسباں اسکے…
اس زمین کی مٹی میں خون ہے شہیدوں کا، ارض پاک مرکز ہے قوم کی امیدوں کا
نظم و ضبط کو اپنا میر کارواں مانو. وقت کے اندھیروں میں اپنا آپ پہچانو.
یہ وطن تمھارا ہے تم ہو پاسباں اسکے….
یہ زمیں مقدس پے ماں کے پیار کی صورت اس چمن میں تم سب ہو برگ و بار کی صورت
دیکھنا گنوانا مت دولت یقیں لوگو. یہ وطن امانت ہے اور تم امیں لوگو…..
یہ وطن تمھارا ہے،تم ہو پاسباں اسکے…..
میر کارواں ہم تھے روح کارواں تم ہو. ہم تو صرف عنواں تھے اصل داستاں تم ہو
نفرتوں کے دروازے خود پہ بند ہی رکھنا. اس وطن کے پرچم کو سر بلند ہی رکھنا
یہ وطن تمھارا ہے ،تم ہو پاسباں اسکے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گیت
تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے
لہر بھی ہوئی مستانی سی
تیری زلف کو چھو کر آج ہوئی
خاموش ہوا دیوانی سی
یہ روپ کا کندن دہکا ہوا
یہ جسم کا چندن مہکا ہوا
الزام نا دینا پھر مجھ کو
ہو جائے اگر نادانی سی
بکھرا ہوا کاجل آنکھوں میں
طوفان کی ہلچل سانسوں میں
یہ نرم لبوں کی خاموشی
پلکوں میں چھپی حیرانی سی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابتدا میں دشت صحافت کی مختصر سیاحی کی، پھر مشاعروں میں داد سمیٹی اور اس کے بعد فلمی دنیا میں قدم رکھ دیا۔
یہ 1955 تھا جب انہوں نے ’انتخاب‘ کے گیت تخلیق کیے۔ فلم کی موسیقی فیروز نظامی نے ترتیب دی تھی مگر پردہ اسکرین پہ فلم ناکامی سے دوچار ہوئی لیکن کلیم عثمانی کو شناخت مل گئی۔
1957ء میں جب انہوں نے ’بڑا آدمی‘ کے گیت تخلیق کیے تو مبارک بیگم اور احمد رشدی کی آواز میں گایا گیا دوگانا ’’کاہے جلانا دل کو چھوڑو جی غم کے خیال کو‘‘ بہت مقبول ہوا۔ اس کے بعد ’راز‘ کے گیتوں نے شہرت سمیٹی۔
زبیدہ خانم کی مخملی گائیکی نے ان کے گیت ’’میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا‘‘ کو نہ صرف امر کردیا بلکہ اس بات کو سند عطا کردی کہ کلیم عثمانی مسلمہ نغمہ نگار ہیں۔
مجیب عالم نے جب 1966 میں ان کے تخلیق کردہ گیت کو اپنی مدھر آواز سے سجایا تو فلم بین عش عش کراٹھے۔ جلوہ نامی فلم میں پکچرائز کیے گئے اس گیت کے بول تھے کہ’’ کوئی جا کے ان سے کہہ دے ہمیں یوں نہ آزمائیں۔
اسی زمانے میں ریلیز ہونے والی فلم ’ہم دونوں‘ کے لیے جب رونا لیلیٰ نے گیت گایا کہ ’’ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا‘‘ تو ان کی شہرت بام عروج پر پہنچ گئی۔ اس کے بعد انہوں نے عصمت، جوش انتقام ،ایک مسافر ایک حسینہ، نازنین اور عندلیب کے گیت تخلیق کیے۔
روٹھے سیاں کو میں تو اپنے خود ہی منانے چلی آئی، خاموش ہیں نظارے اک بار مسکرا دو، تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں بچھا دوں اور تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے لہریں بھی ہوئیں مستانی سی جیسے امر گیتوں میں ان کی شاعری بام عروج پہ دکھائی دی۔
بلاشبہ! یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ درج بالا کوئی ایک نغمہ بھی اگر ان کے کریڈٹ پہ ہوتا تو دنیائے شاعری میں انہیں امر کرنے کے لیے کافی تھا چہ جائیکہ ان کے بے مثال نغمات کی گنتی مشکل ہے۔ لیکن انہوں نے صرف غزل اور گیت ہی کو اپنی شاعری کا مرکز و محور نہیں بنایا بلکہ ملی نغمات کے ذریعے بھی بے پناہ داد وصول کی۔ معروف ملی نغمہ یہ وطن تمہارا ہے – تم ہو پاسباں اس کے اور اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، ان کے فنی عظمت کا بین ثبوت ہیں۔
کلیم عثمانی کی غزلوں میں جہاں رومانویت اپنی پوری رعنائی کے ساتھ ملتی ہے تو وہیں عصری صداقتوں کی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔ دنیائے ادب میں انہیں ایک صاف گو اور اصول پسند شخص سمجھا جاتا تھا۔
کلیم عثمانی اپنی نجی زندگی میں جس قدر سچائی سے محبت کرتے تھے اسی قدر ٹوٹ کر منافقت سے نفرت بھی کرتے تھے۔
کلیم عثمانی کے تخلیق کردہ معروف گیتوں میں آج اس شوخ کی تصویر سجالی میں نے، وہ نقاب رخ الٹ کر ابھی سامنے نہ آئیں – کوئی جا کے ان سے کہہ دے ہمیں یوں نہ آزمائیں، لاگی رے لاگی لگن یہی دل میں – دیپ جلیں سُر کے ساگر میں، میرے دل کی محفل سجا دینے والے، پیار کر کے ہم بہت پچھتائے، شکستہ دل ہوں مجھے زندگی سے پیار نہیں، چاند نکلا ہے ترے حسن کی تصویر لیے، تیرے سنگ دوستی ہم نہ چھوڑیں گے، جنگل میں منگل تیرے ہی دم سے، مرا خیال ہو تم میری زندگی تم ہو، قصہ غم سنائے جا اے زندگی رلائے جا اور اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں شامل ہیں ۔
ناقدین تسلیم کرتے ہیں کہ کلیم عثمانی نے فلمی گیت نگاری میں کبھی موسیقار کو رعایت دیتے ہوئے شاعری کی آبرو مجروح نہ کی اور اس بات کا خاص خیال رکھا کہ فلمی گیت کی ادبی حیثیت مسلمہ رہے۔ یہ ہنر کم شعرا کی شاعری میں ملتا ہے۔
ہے اگرچہ شہر میں اپنی شناسائی بہت
پھر بھی رہتا ہے ہمیں احساس تنہائی بہت
اب یہ سوچا ہے کہ اپنی ذات میں سمٹے رہیں
ہم نے کر کے دیکھ لی سب سے شناسائی بہت
منہ چھپا کر آستیں میں دیر تک روتے رہے
رات ڈھلتی چاندنی میں اس کی یاد آئی بہت
قطرہ قطرہ اشک غم آنکھوں سے آخر بہہ گئے
ہم نے پلکوں کی انہیں زنجیر پہنائی بہت
اپنا سایہ بھی جدا لگتا ہے اپنی ذات سے
ہم نے اس سے دل لگانے کی سزا پائی بہت
اب تو سیل درد تھم جائے سکوں دل کو ملے
زخم دل میں آ چکی ہے اب تو گہرائی بہت
شام کے سایوں کی صورت پھیلتے جاتے ہیں ہم
لگ رہی تنگ ہم کو گھر کی انگنائی بہت
آئنہ بن کے وہ صورت سامنے جب آ گئی
عکس اپنا دیکھ کر مجھ کو ہنسی آئی بہت
وہ سحر تاریکیوں میں آج بھی روپوش ہے
جس کے غم میں کھو چکی آنکھوں کی بینائی بہت
میں تو جھونکا تھا اسیر دام کیا ہوتا کلیمؔ
اس نے زلفوں کی مجھے زنجیر پہنائی بہت
کلیم عثمانی 28 اگست 2000 کو لاہور میں خالق حقیقی سے جاملے اور اسی شہر میں آسودہ خاک ہوئے۔۔۔
“