پاکستان اس لئے بنا تھا کہ ایک مخصوص طبقہ مسلمان عوام کی گردنوں پر مسلط نہ ہو جائے۔ تاریخ کی ستم ظریفی بھی عجیب ہے۔ ہم نے اس طبقے (ہندوﺅں) سے نجات حاصل کر لی لیکن ایک اور طبقہ مسلط ہو گیا جس سے نجات کی بظاہر کوئی صورت نہیں نظر آ رہی۔
آج تک کسی دانشور، کسی مورخ، کسی سیاست دان اور کسی جرنیل نے یہ نہیں بتایا کہ جب 1951ءمیں بھارت میں زرعی اصلاحات نافذ ہوئیں، ریاستیں ختم کی گئیں، نوابوں، راجوں اور مہاراجوں کو چلتا کیا گیا اور زمینداریوں، جاگیرداریوں اور سرداریوں کا باب بند کر دیا گیا تو آخر کیا وجہ تھی کہ پاکستان میں ایسا نہ ہو سکا؟ زرعی اصلاحات ہی کا نتیجہ ہے کہ آج بھارت کا وہ پنجاب، جو پاکستانی پنجاب سے کئی گنا چھوٹا ہے، پورے بھارت کے لیے اناج پیدا کر رہا ہے۔ بھارت کے منتخب اداروں میں متوسط طبقے کے لوگ بھی آ رہے ہیں اور پست طبقات کے نمائندے بھی منتخب ہو رہے ہیں۔ عوامی نمائندوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کے منتخب اداروں میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو اپنی جاگیروں اور زمینداریوں کے برتے پر انتخابات جیتتے ہیں۔ اسمبلیوں میں ان کی نشستیں نسل در نسل چلی آ رہی ہیں۔ دادا پھر باپ پھر بیٹا، پھر پوتا اور پھر پرپوتا، ایک بھائی جاتا ہے تو دوسرا آ جاتا ہے۔ حزب اقتدار میں بھی وہی خاندان ہیں اور حزب اختلاف میں بھی انہی کے اعزہ و اقارب ہیں۔
یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ پاکستان میں آج تک بالائی طبقات ہی برسراقتدار چلے آ رہے ہیں۔ آپ مختلف صوبوں اور علاقوں کا تجزیہ کرکے دیکھ لیجئے، جنوبی پنجاب ہے یا سندھ، خیبر پختونخوا ہے یا ہزارہ، بلوچستان ہے یا وسطی پنجاب، ہر جگہ چند خاندانوں کی اجارہ داریاں ہیں۔ مخدوم ہیں یا مہر، سید زادے ہیں یا پیر، لغاری ہیں یا کھوسے، گیلانی ہیں یا قریشی یا کھر، سیف اللہ خاندان ہے یا ایوب خان کی اولاد، بھٹو ہیں یا جتوئی، دولتانے ہیں یا جھنگ کے ایک یا دو خانوادے، گجرات میں چودھری صاحبان ہیں اور ان کے مخالف نواب زادے، پینسٹھ سالوں میں انہی خاندانوں کے چشم و چراغ اسمبلیوں کے ارکان بھی رہے ہیں اور وزارتیں بھی انہی کے پنجہ اقتدار میں رہی ہیں۔ بلوچستان میں یہ صورتحال اس سے بھی زیادہ مایوس کن ہے۔ تقسیم سے لے کر اب تک قبیلوں کے سردار ہی حکومت کر رہے ہیں۔ یہی گورنر بنتے ہیں اور یہی وزیراعلیٰ۔ کبھی جمالی کبھی مینگل، کبھی بگتی کبھی مگسی اور کبھی رئیسانی!
ہمیشہ برسراقتدار رہنے والے ان خانوادوں کے سماجی رویوں پر غور کیا جائے تو دلچسپ نتائج سامنے آتے ہیں۔ بظاہر یہ حضرات مخالف سیاسی گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ کوئی پیپلزپارٹی میں ہے اور کوئی مسلم لیگ فنکشنل میں، کوئی نون لیگ کا رکن ہے اور کوئی نون لیگ کے مخالف گروپ قاف لیگ سے وابستہ ہے لیکن بظاہر متحارب وابستگیوں کے باوجود باہمی تعلقات میں کوئی رخنہ نہیں پڑتا۔ اسمبلیوں میں مراعات بڑھانے کا بل ہو یا اسمبلیوں سے باہر مفادات کا سلسلہ یہ ایک دوسرے کی بھرپور مدد کرتے ہیں اور طبقاتی تحفظ کی خاطر ہمیشہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ہیں۔
اس کی تازہ ترین مثال ان دنوں اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے۔ ایک قبیلے کا سربراہ مبینہ طور پر ایک شخص کو اغوا کرتا ہے۔ معاملہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جاتا ہے۔ عدالت اسے طلب کرتی ہے اور انتظار کرتی ہے لیکن وہ کبھی بھی حاضر نہیں ہوتا۔ عدالت اسے قید کی سزا سُناتی ہے۔ اس کے خلاف وہ بلوچستان ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرتا ہے۔ اپیل خارج ہو جاتی ہے۔ پھر وہ معاملے کو سپریم کورٹ میں لاتا ہے۔ چیف جسٹس رولنگ دیتے ہیں کہ جب تک ملزم گرفتار نہ ہو اپیل کی سماعت نہیں کی جا سکتی۔ سردار صاحب کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے وہ دلچسپ ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کے بالائی طبقات کی نظر میں قانون کی کوئی وقعت نہیں۔ ان کے نزدیک زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان کے طبقے سے تعلق رکھنے والے کو قانون سے بالاتر سمجھا جائے۔ سیاسی جماعتوں کے عمائدین جو ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور شدید مخالف، اس معاملے میں ایک ہو گئے ہیں۔ کبھی ایک وفد بھیجتا ہے جو گرفتار شدہ سردار صاحب سے ملاقات کرتا ہے اور کبھی دوسرے بڑے آدمی کے نمائندے جا کر اپنی حمایت کا یقین دلاتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ سردار صاحب وفاق پر یقین رکھتے ہیں اور کوئی دہائی دیتا ہے کہ گرفتاری سے حالات مزید ابتر ہو جائیں گے۔ قانونی کارروائی کی طرف کوئی نہیں بڑھتا۔ یہ بھی کوئی نہیں دیکھتا کہ یہ تیسری عدالت ہے جہاں مقدمہ آیا ہوا ہے اور گرفتاری کا حکم دینے والا ملک کا چیف جسٹس ہے۔
سردار صاحب ایک صوبے کی اسمبلی میں اپوزیشن کے واحد رکن ہیں۔ نگران وزیراعلیٰ چننے کے لیے وزیراعلیٰ اور قائد حزب اختلاف نے مل کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر حزب اختلاف کے رکن یا رہنما نے نگران وزیراعلیٰ کے چناﺅ میں کوئی کردار ادا کرنا ہے تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ جرم کرے تو اسے کچھ نہ کہا جائے؟ ایک دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ صوبے کا وزیراعلیٰ ان کا دشمن ہے اور یہ مقدمہ دشمنی کی بنا پر بنایا گیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس کا ثبوت عدالت کے سامنے رکھنا چاہئے۔
صوبے کا وزیراعلیٰ بھی ایک قبیلے کا سربراہ ہے۔ اس کی قابلیت اور سنجیدگی سے پورا ملک آگاہ ہے۔ اس کا زیادہ وقت دارالحکومت میں گزرتا ہے۔ جس صوبے کی حالت دگرگوں ہے اور عدالت عالیہ اسے مایوس کن قرار دے چکی ہے۔ وزیراعلیٰ اسے دوسرے صوبوں سے بہتر قرار دے رہا ہے۔ پورے صوبے میں قبیلوں کے سربراہوں کے علاوہ کوئی شخص وزیراعلیٰ یا قائد حزب اختلاف بننے کا اہل نہیں!
کیا اس بات کا کوئی امکان دکھائی دے رہا ہے کہ اقتدار بالائی طبقات سے متوسط طبقے کو منتقل ہو جائے؟ بظاہر یہ ناممکن لگ رہا ہے۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اندرونی جمہوریت سے محروم ہیں۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ نون اور مسلم لیگ قاف، اے این پی، جے یو آئی اور اس کے حصے بخرے، سب مخصوص خانوادوں کے قبضے میں ہیں۔ ان جماعتوں کے اندر شفاف انتخابات ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ تمام ارکان اپنی اپنی جماعت کے سربراہ کو وہی حیثیت دیتے ہیں جو اہل دربار بادشاہ کو دیتے ہیں۔ کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ پارٹی کو سربراہ کے خاندان سے باہر نکال لانے کی بات بھی کر سکے۔
رہا زرعی اصلاحات کا مسئلہ تو اس کا امکان بھی دور دور تک نظر نہیں آتا۔ آزادی کے فوراً بعد جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ممکن تھا۔ اب تو بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے۔ عام آدمی کے اسمبلی میں پہنچنے کا کوئی امکان ہے نہ سامان! منتخب اداروں میں وہی لوگ بیٹھ سکتے ہیں جن کے پاس زمینیں ہیں یا جاگیریں یا کارخانے اور کروڑوں اربوں روپے اور محافظوں کی فوج ظفر موج۔ بالائی طبقات ملک میں جہاں بھی ہیں، ایک دوسرے کے ممد اور معاون ہیں۔ جبکہ عوام ان پڑھ بھی ہیں اور مڈل کلاس کی حقیقی لیڈرشپ سے بھی محروم! دور دور تک تبدیلی کے کوئی آثار نہیں!