اس کا ئنات میں ایک غالب بھی تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
ستائیس دسمبر سے غالب کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑا ہوا ہے ۔۔۔۔معلوم نہیں اچانک مرزا غالب سے اتنی گہری دوستی کیسے ہو گئی ہے۔ستائیس دسمبر رات کے ساڑھے گیارہ بجے یوٹیوب پرغالب پر بنی ایک شاہکار فلم دیکھی ۔یہ فلم چھ گھنٹے اور تیس منٹ پر محیط ہے ۔گلزار صاحب اور کیفی عاظمی نے اس فلم کو تحریر کیا ہے ۔انیس سو اٹھاسی میں یہ فلم بنائی گئی تھی جس کا نام ہے مرزا غالب۔اصل میں مرزا غالب ڈرامہ سریز تھی،۔بعد میں اس ڈرامہ کو فلم کی شکل دی گئی ۔ہندوستان کے معروف اداکار نصیرالدین شاہ اس فلم میں مرزا غالب بنے ہوئے ہیں ۔غالب کون تھے؟کیا تھے ؟وہ کتنے بڑے شاعر تھے ؟اس بارے میں تو کہانی میں کچھ نہ کچھ ضرور ہونا چاہیئے ۔لیکن فلم میں جو کچھ دیکھایا گیا ہے ،وہ بہت دلچسپ ہے ۔غالب جن کی بارہ سال کی عمر میں شادی کردی جاتی ہے اور وہ بھی ایک ایسی لڑکی سے جو بہت مذہبی ہیں ۔اور غالب بلکل ایک غیر مذہبی انسان ہیں ۔جو ہمیشہ اپنی بیوی کو یہ کہتے ہیں کہ انہیں ایک ایمان والی ملی ہے ،لیکن وہ ایمان سے بہت دور ہیں ۔اس کے باوجود ان دونوں کی میں بہت خوبصورت انڈراسٹینڈنگ ہے ۔ایک مذہبی باتیں کرتی ہیں اور ہر وقت توبہ توبہ کرتی رہتی ہیں اور دوسرا ہمیشہ کافرانہ ادائیں دیکھاتا نظر آتا ہے ۔اس کے علاوہ فلم میں یہ بھی دیکھایا گیا ہے کہ مرزا غالب شراب پینے کے رسیا ہیں اور ہر وقت شراب سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں ۔فلم میں مرزا صاحب کی جواء کھیلنے کی عادت کو بھی شانداز انداز میں نمایاں کیا گیا ہے ۔اس جوئے کی علت کی وجہ سے مرزا صاحب کو چھ ماہ کی قید بھی ہوتی ہے ،اس کے باوجود وہ جواء کھیلنا نہیں چھوڑتے ۔غالب جس طرح عید مناتے ہیں ،بلکل اسی انداز میں دیوالی کا جشن بھی انجوائے کرتے نظر آتے ہیں ۔بھارت کے دارالخلافہ دلی کی گلی قاسم خان کی ایک حویلی میں ہندوستان کے عظیم ترین شاعر مرزا غالب نے زندگی کے شب و روز کس طرح گزارے ،اس فلم میں سب کچھ دیکھایا گیا ہے ۔مرزا غالب بارہ سال کی عمر میں آگرہ سے دلی آئے اور پھر مرتے دم تک دلی میں ہی رہے ۔مرزا غالب کی زندگی کے دکھ ،درد اور غم کی کہانی دیکھنی ہے تو یہ فلم جس کا نام مرزا غالب ہے ،ضرور دیکھیں ۔فلم میں کبھی کبھی غالب کی زندگی میں خوشی کا مقام بھی آتا ہے ۔خوشی کی کیفیت بھی دیکھنے کے لائق ہے ۔غالب کی زندگی کی تمام کیفیات کس طرح شاعری کی شکل اختیار کرتی ہیں ،اس چیز کا مشاہدہ سب سے فلم میں سب سے زیادہ خوبصورت محسوس ہوتا ہے ۔غالب کی شاعری ضرور پڑھیں ،دیوان غالب بھی اگر سمجھ آتا ہے ،تو اسے بھی سمجھنے کی کوشش ضرور کریں ،لیکن میری درخواست ہے کہ گلزار جی کی تخلیق کردہ یہ فلم مرزا غالب مرنے سے پہلے ایک مرتبہ ضرور دیکھ لیں ۔غالب اس فلم میں آسانی سے سمجھ آجائے گا ۔دیوان غالب میں اردو کے شاید کوئی اٹھارہ سو شعر ہیں ،اس کے علاوہ غالب کا زیادہ کلام فارسی میں ہے ۔غالب صاحب نے فارسی میں کچھ بہت ہی زیادہ لکھ ڈالا ہے ،لیکن جو کچھ اردو میں تخلیق کیا ہے ،اس کی کوئی مثال نہیں ۔مرزا غالب کے کچھ خطوط بھی ہیں ،جو اب اردو ادب کا نایاب ورثہ ہیں ۔یہ خظوط کس کیفیت میں تحریر کئے گئے ،یہ بھی فلم دیکھنے کے بعد معلوم ہوجاتا ہے ۔پہلی مرتبہ مجھے غالب کے خطوط کی کچھ کچھ سمجھ آنا شروع ہوئی ہے ۔فلم میں غالب کے جینے کے انداز ،ان کی بے نیازی ،درویشی کو حقیقی شکل میں دیکھایا گیا ہے ،کسی قسم کا رکھ رکھاؤ نہیں رکھا گیا ہے ۔فلم کو دیکھنے کے بعد غالب کے بارے میں جو نظریہ میرے دماغ میں بنتا ہے ،اسے بیان کردیتا ہوں ۔غالب نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے ۔زندگی کے تجربات ،مشاہدات اور تخیل کی وجہ سے وہ ایک عظیم انسان اور عظیم ترین شاعر کے روپ میں سامنے آئے ۔جو انسان زندگی کو بہت قریب سے دیکھتا ہے وہ کبھی بھی زمانے کا محتاج نہیں رہتا ۔زمانے آگے بڑھ بھی جائے ،لیکن زندگی تو وہی رہتی ہے ۔اس لئے ہر زمانے میں غالب زندہ رہے گا ۔ایک دلچسپ بات جو فلم دیکھنے کے دوران معلوم ہوئی وہ یہ کہ غالب کے زمانے میں روائیتی شاعری عروج پر تھی ۔اس شاعری کا دائرہ کار محدود تھا اور اس میں کسی قسم کی گہرائی نہیں تھی ۔لیکن غالب کی فکر اس زمانے میں عالمی نوعیت کی تھی ۔ان کی شاعری کو دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ وہ عالمی سوچ و فکر سے مزین تھے ۔ان کا تخیل کائناتی تھا اوروہ ہندوستان کے پہلے جدید انسان تھے ۔غالب کی شاعری کا فلسفہ انسان ہے ،اس لئے غالب ہر انسان تک آسانی سے پہنچ جاتے ہیں ۔غالب کی زندگی میں جدائی کی تکلیف کا عنصر بہت زیادہ ہے ،اسی وجہ سے شاید ان کے فکر و نظر میں بلندی کی کیفیت ہمیشہ نمایاں نظر آتی ہے ۔وہ ہمیشہ ایک زندہ دل ،خوش اخلاق،غیر مذہبی اور شاید بے دین بھی نظر آتے ہیں ،لیکن حقیقت میں شاید ایسا نہ ہو ،کوئی اور خیال ہو جسے ابھی تک سمجھا نہ گیا ہو ۔غالب کی سب سے ارفع بات یہ ہے کہ وہ ایک خوبصورت ےتخیلاتی فرد تھے ۔ان کو اپنے زمانے کی کوئی فکر نہ تھی ،کہ زمانہ کیا سوچے گا ۔زندگی کے متعلق ان کی اپنی ہی سوچ،اپنے ہی اصول تھے ۔معاشرے کے دباؤ میں آکر کبھی انہوں نے اپنی سوچ پر کمپرو مائز نہیں کیا ،اسی وجہ سے وہ ایک نایاب فرد کے روپ میں نظر آتے ہیں ۔اپنے زمانے میں انہیں شرابی ،جواری اور بے دین کہا جاتا تھا ۔کہا جاتا تھا کہ وہ اتنا پرجوش انداز میں عید نہیں مناتے ،جس پرجوش انداز میں دیوالی منانے کے شوقین تھے ۔اس لئے انہیں کافرکہا گیا ۔اس زمانے کے سنی انہیں شیعہ ہونے کا طعنہ بھی دیتے تھے ۔یہ بھی فلم دیکھنے کے دورا معلوم ہوتا ہے ۔غالب کہا کرتے تھے کہ ابھی تو انہیں یہ لوگ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ،لیکن ایک زمانہ آئے گا جب ان کی سوچ پر کتابیں لکھی جائیں گی ۔دیکھ لیجیئے غالب پر پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر میں ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں ۔ان کی سوچ پر ڈاکومنٹرٰیاں بنائی گئی ،فلم اور ڈرامے بنائے گئے ۔اردو کا بطور زبان اگر کوئی معتبر حوالہ ہے تو وہ ہیں مرزا غالب ۔اردو کی تہذیب و وراثت کا اولین حوالہ کلام غالب ہے ۔اگر اردو سے غالب کو نکال باہر کردیا جائے تو پھر اردو بطور زبان کسی اہمیت کی حامل نظر نہیں آتی ۔رشید رضوی نے بلکل درست فرمایا تھا کہ مغل دور نے ہندوستان کو تین نایاب چیزیں دی ہیں ،انہی تین چیزوں کی وجہ سے مغل بھی ہمیشہ ہمیشہ تاریخ میں زندہ رہیں گے ۔مغل دور نے ہندوستان کو تاج محل ،اردو اور مرزا غالب سے نوازا ہے ۔لفظوں کی اپنی کوئی اہمیت نہیں ۔لفظوں کا استعمال ان لفظوں کو اہم بناتا ہے ۔مرزا غالب کے ہاں لفظ کبھی علامت،کبھی اشاری ،کبھی استعارہ ،کبھی کیفیت ،کبھی خیال اور کبھی احساس بن کے سامنے آتے ہیں ۔اسی وجہ سے غالب دنیا پر چھائے ہوئے ہیں ۔غالب زبان کا بادشاہ انسان ہے ۔جس طرح اردو کے لفظوں کو غالب نے استعمال کیا ،شاید بہت کم لوگوں نے اس طرح لفظوں کا استعمال کیا ہے ۔غالب کی شاعری میں زندگی کی تمام کیفیات ہیں ،زندگی کے تمام احساسات ہیں اور زندگی کے تمام زاویئے غالب کی شاعری میں نظر آتے ہیں ۔وہ برصغیر کا پہلا جدید ،انوکھا اور لاڈلہ انسان تھا جس نے کہا تھا کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے ۔اب اس میں کلیسا کا استعمال کس قدر خوبصورت ہے ۔کلیسا کو یہاں جدیدیت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔کسی مذہبی استعارے کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا ۔اس لئے غالب میں جدت آرائی شفاف انداز میں نظر آتی ہے ۔وہ کسی قسم کا منافق یا دوغلہ انسان نہیں تھا ۔اس نے ہمیشہ سوال کیا ؟یقین پر سوال کیا؟ایمان پر سوال کیا ؟مذہب پر سوال کیا ؟خدا پر سوال کیا؟غالب کے مزاح میں سنجیدہ سوال تھے ؟مثلا غالب کا یہ شعر
نہ تھا کچھ تو خدا تھا ،کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے ،نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
یہاں اس شعر میں غالب ایک کائناتی سوال کر گئے ہیں ۔
اب اس شعر کو ہی ملاحظ فرمایئے
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
غالب کی شاعری میں ہر قسم کا لہجہ ،ہر قسم کا موضوع اور ہر قسم کا خیال نظر آتا ہے
غالب آسانی سے شاعری میں زندگی کے تمام شب و روز کو کھول کھول کر بیان کردیتے ہیں اور ایسا اردو کے کسی شاعر کے ہاں نظر نہیں آتا ۔غالب کے ہاں عالمگیریت ہے ۔غالب کے ہاں جوش تخیل ہے ،غالب نے انسان کو اپنی شاعری میں کسی قسم کا کوئی نظریاتی رنگ نہیں دیا ۔لیکن جو کہنا چاہا وہ آسانی سے کہہ گئے ۔انسان کو علامگیر بنایا اور تقسیم ہونے سے بچایا ۔یہی غالب کی کائناتی شخصیت ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔اسی بات کا ثبوت ان کے یہ دو شعر ہیں
یہ مسائل تصوف ،یہ ترا بیاں غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے،جو نہ بادہ و خوار ہوتا
اور
دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں
بیٹھے ہیں راہ گزر پہ ہم کوئی ہمیں اٹھائے کیوں
کمال تخیل ،فلسفہ انسان بتادیا ،اور انسان کو تقسیم بھی نہیں ہونے دیا اور نہ ہی انسان کو نظریاتی رنگ دیا ۔یہ ہے غالب ۔انسان اور کائنات کا سارا تصور دے دینا اور چپکے سے ہنس دینا ،اسے کہتے ہیں غالب ۔
اس لئے غالب ایک عظیم شاعر ہیں ہی ہیں ،لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ عظیم انسان بھی ہیں ۔ان کے خیال کی پیچیدگی کی خوبصورتی ہی انہیں ایک کائناتی شاعر بناتی ہے ۔وہ ایک ایسے خوبصورت اور معصوم انسان تھے جو کہنے کا فطری ڈھنگ جانتے تھے ۔اور آخر میں ایک بات کہ غالب کے ہاں اداسی دیر تک رہتی ہے اور خوشی پھلجڑی کی طرح آتی ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ غالب ابھی تک ہمارے زہنوں پر سوار ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔