یہ اس مجذوب و مجنون جون ایلیا کی فغان بے اثر کی بازگشت ہے۔۔اس نے کہا تھا جن کو پڑھنا چاہےؑ وہ لکھ رہے ہیں
گناہ ان کا سہی جو اپنے شاطرانہ تسلط کی خاطر ایک بے شعور قوم کی تشکیل کیلؑےؑجہل کے اندھیرے کو رضاھوں کوےؑ الہٰی بھی قرار دیتے ہیں۔۔نوشتہ تقدیر بھی۔ نظریہ ضرورت بھی۔۔میں نے ستر برس تک کھلی انکھوں کی بے بسی کے ساتھ دیکھا۔۔میں نے بھی اور کچھ سر پھروں نے جو انسانیت کی فلاح کا خواب دیکھتے رہے۔۔اور تاریک راہوں میں مارے گےؑ۔۔نوید صبح اج بھی سراب ہے۔۔خواب ہے دیوانے کا۔۔اندھے لوگ اندھیری بھول بلیوں میں ہانکے جارہے ہیں
فیس بک کے اایک ؛؛ با خبر،، عالم نے ؎ صھح دم دروازہ خاور کھلا ۔تو اپنی منقار جہالت وا کرتے ہوےؑ بے خبری میں گم پڑھے لکھوں کو بتایا کہ بھٹو نے سب سے پہلے تین سو تین کرپٹ افسران کوفارغ کیا اور اس وقت تک چوبیس تعلیم یافتہ اس انکشاف پر ستایش کی قوالی میں ہمنوا تھے۔۔یہ پرنٹ میڈیا سے ٓ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں قدم رنجہ فرماچکے تھے مگرصرف حال میں جی رہے تھے اور نہ اگے دیکھ سکتے تھے نہ پیچھے۔۔ قابل رحم کاغزی اسناد لہراتے اپنی تاریخ کے گزرے دن سے بے خبر۔۔
قابل رحم یون کہ جو اخبار انہوں نے پڑھے اس میں سب کچھ تھا سواےؑ خبر کے۔۔پھر جو ٹی وی پر دیکھا دام فریب خیال کے سوا کیا تھا۔۔میں نے دیکھا ۔۔خبر دینے والوں کی زباں بندی نظر بندی اور جلا وظنی سے مرگ ناگہاں تک۔۔ خبر کی تعریف اب یہ ہے کہ ہر واقعہ نہ خبرہے ۔۔نہ تاریخ وہ جو ہواْْ۔۔ بلکہصرف وہ ہے جو بنای اور بتایؑ جاےؑ۔۔ رکشاکا الت جانا۔۔ترقی کے اعدادو شنارْْ۔۔ اجتماعی ابرو ریزی کے واقعات۔۔فیشن کے ٹرینڈ۔۔سرحدوں کے گرد دیوارہے۔۔کچھ نظر نہیں اے گا۔۔ اور دیکھ کے کیا کروگے۔۔چلو ہم رعایا کو بتا دیتے ہیں کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے۔۔یہ شینکڑون نیوز چینل تو جھوٹ بولتے ہیں کتابوں کی طرح۔۔بوکو حرام۔۔کتاب حرام ہے۔۔سوال کفر ہے
نتیجہ یہ کہ کراچی کی ایک گریجویٹ نے گڑھی خدا بخش میں مجھ سے سوال کیا۔۔یہ بھٹو کوں تھا؟ اورتاریخ میں ایم اے کا تھیسس ـقاید اعظم کی تقاریر۔منتخب کرنےوالے نے ان کی بایو گرافی کے مصنف ہیکٹر بولیتھو کا نام سن کے سر کھجایا اور بولا،،یار ۔۔۔ ان کی اردو تقریرون کا بتاو۔۔ایسے تو بہت جو سوال پر ٓاپ سے سوال کریں گے کہ یہ مشرقی پاکستان کدھر تھا؟ اور کچھ عجب نہیں اپ سے پوچھیں کہ پھر ہم مغرب میں کب منتقل ہوےؑ؟ سن سیتالیس میں؟ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہونے کیلےؑ ؟
اسے ایک مزاحیہ مضمون سمجھنے والے ایک نظر ان کتابوں کو دیکھ لیں جواسکول کالج اور یونیورسٹی میں پڑھایؑ جارہی ہیں۔۔کہاں ہے ان میں تاریخ۔۔یعنی وہ جو ہوا۔؟۔اب تو مجھے بھی سوچنا پڑتا ہے کہ جو میں نے دیکھا خواب ہی ہوگا۔۔اس کا ذکرلا حاصل۔۔لیکن جو لکھا گیا وہ دیکھنے کی کسے فرصت اور کیا ضرورت۔۔پیزا برگر کھاو پربھو کے گن گاو،،رب کا شکر ادا کر بھای۔۔جس نے تیری گاےؑ بنایؑ۔۔اللہ میاں کی گاےؑ
کیا ہوا اس سے جو میں نے کہا کہ جاہلو۔۔وہ تین سو تین سول سروس والے بھٹو کے دور سے تیں سال قبل فاتح بنگال جنرل یحیؑ خان قزلباش نے 1969 میں تخت اسلام اباد پر فرولش ہونے کے بعد سابق حکمراں عالی جاہ فیلڈ مارشل ایوب خان سے وفاداری اور فرض شناسی کے جرم میں بر طرف کےؑ تھے۔۔جیسا کہ قاعدہ ہے۔۔ایوب خاں نے تخت پر قبضہ لیا تو وزیر دفاع بھی اپنے نثار کھوڑو کے ابا ایوب کھوڑو تھے۔ اس حیثیت میں کاکول کی پاسنگ ٓوت پریڈ سے خطاب کرنے کو تھے کہ پہنچ گےؑ پس دیوار زبدان۔۔اؑعزازی میجر جنرل اسکندر مرزا مزید پندرہ دن صدر رہے۔جنرل ایوب وزیر اعظم۔۔
یہ ڈراما پندرہ دن چلا۔۔پھر ایوب خاں کے تین دست راست جنرل اعظپ۔۔جنرل برکی۔۔اور جنرل شیخ اییؑنی صدر کی خدمت میں مسلح حاضر ہوے اور کہا کہ؎ بس ہوچکی نماز مصلےٰ اٹھایےؑ۔۔صدر صاحب نے ایرانی زوجہ ناہید کا ہاتھ تھاما اور پہنچ گیا سابق حکنرانون کے دیس میں لندن۔۔سویؑس اکاونٹ اور بییرون ملک اثاثوں کا دور نہ تھا۔۔سنا ہے لندن کے ایک ہوٹل میں مینیجر لگ گیا بعوض دو ہزار پونڈ۔۔مرا تو ایرانی زوجہ تدفین کیلےؑ طہران لے گییؑ۔۔ ؎ بدلتا ہے رنگ اسماں کیسے کئسے۔۔انقلاب ٓایا تو خود شاہ ایران کو؎ دوگز زمین بھی نہ ملی کوےؑ یار میں۔۔ہمارے پہلے ایینی صدر کی کیا اوقات۔۔ایک طویل ریش نے شاہ رضا شاہ پہلوی کے دادا کا مزار کھودنے کیلےؑ پہلی کدال چلاتے ہوےؑ اعلان کیا کہ ہم یہاں بیت ایخلا بناییؑں گے۔۔لو جی ہمارے صدر کی ھڈیاؓن بھی نکال باہر پھینکی گییؑں۔۔ ہم تو ٓاج تک چپ ہیں۔۔راضی برضا
ادھرکسی بہی خواہ نے جنرل ایوب کے کان میں کہا کہ حضور ۔یہ جو؎ ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا۔۔اس سے خبردارکہ بغلی چھری نہ ہو۔۔ابھی مصر میں دیکھےؑ کیا ہوا۔۔جنرل ایوب نے تینوں جنرلوں کو فارغ کیا اور افسر بکار خاص بنادیا۔۔جنرل اعظم ہوےؑ وزیر بحالیات۔۔جنرل شیخ وزیر داخلہ اور جنرل برکی وزیو صحت۔۔ھذا من فضل ربی کہ ایوب خاں از خود فیلڈ مارشل ہوےؑ اور چین سے گیارہ سال حکمرانی کے بعد جنرل یحیٰ کو عنان حکومت سونپا۔۔
ہے کہیں کسی درسی کتاب میں یہ تاریخ جو میرے جیسے از کار رفتہ دوچار کی کھوپڑی میں ہی رہے گی۔۔اور جب لکھی نہ جاےؑ گی تو پڑھی کیسے جاےؑ گی؟
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...