اس انسان کا جانا ٹھہر گیا ہے ۔۔
میری زندگی کا فارمولا یہی ہے کہ جیسے بھی حالات ہوں،جس طرح کی بھی صورتحال ہو، زندگی میں جو بھی الٹا سیدھا ہو رہا ہے ،ہر قسم کی صورتحال کو قبول کر لو اور زندگی کو انجوائے کرو ۔مجھے زہن و روح پر دباؤ ڈالنا غیر فطری لگتا ہے ۔اس معاشرے میں ہمیشہ یہی سکھایا جاتا ہے کہ ٹینشن لینی ہے،اپنے آپ کو خوامخواہ پریشان کرنا ہے،لیکن مجھے اس طرح کی کشمکش سے شدید چڑ ہے ۔دل کرتا ہے تو کسی سے ملنے چلا جاتا ہوں ،دل کرتا ہے تو واک کے لئے نکل پڑتا ہوں۔آجکل جو دل کہتا ہے وہی کرتا ہوں۔۔کسی نے درست فرمایا تھا کہ جو دل کرتا ہے مکمل طور پر وہی کرو ۔ہر عمل کی تشریح سے مجھے شدید نفرت ہے ،اگر یہ کردیا تو ایسا ہو جائے گا اور اگر ایسا ہو گیا تو تباہی آجائے گی۔اس طرح میں آجکل نہیں سوچتا ۔طبعیت کی بے چینی کے سبب سائیں بابا سے ملنے باغ جناح چلا گیا ۔سائیں بابا نے دیکھتے ہی فرمایا ،میاں تھکے تھکے لگ رہے ہو؟کیا ہو ا ہے؟میں نے کہا بابا،کچھ نہیں ،بس آجکل ٹمپریچر نے میرے ساتھ دل لگی کی ہوئی ہے،شاید اسی وجہ سے مزاج یار میں تھکاوٹ کا عنصر غالب ہے ۔بابا مسکرائے اور کہا ،کوئی پریشانی ہے ،کسی قسم کے خوف کا شکار تو نہیں ہو ؟میں نے کہا بابا ،مجھے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے؟بس کبھی کبھی حالات و واقعات اداس کردیتے ہیں ،اسی وجہ سے اداسی ہے۔یہ انسانیت کا بحران کب ختم ہوگا ؟بابا نے کہا ،بیٹا جی یہ بحران ختم ہو سکتا ہے ،اگر ایسا چکر چلے کہ زمین گردش کرتے ہوئے آسمان کی جگہ پر چلی جائے اور آسمان زمین کی جگہ پر آجائے ،مطلب یہ کائنات ہر طرح سے تہس و نہس ہو جائے ،تب کہیں جاکر انسانیت کا بحران اختتام پزیر ہوگا ۔اس طرح سے ہی زمین کی تمام گھٹیا روایات اور ماضی کا خاتمہ ہو گا ۔یہ انسانی بحران انہی قدیمی روایات کی وجہ ہے ۔جب تک انسانوں کی دنیا سے نام نہاد اخلاقیات اور پرانے نظریات غائب نہیں ہوں گے ،اس وقت تک شام میں بچے اسی طرح مرتے رہیں گے۔پاکستان اوور بھارت لڑتے رہیں گے ،کشمیر میں قتل و غارت ہوتی رہے گی ۔سعودی عرب یمن میں بمباری کرتا رہے گا ۔امریکہ ایٹم بم بناتا اور برساتا رہے گا ،دنیا جنگ و جدل کا منظر پیش کرتی رہے گی۔سائیں بابا نے کہا جس طرح تباہ کن زلزلہ آتا ہے اور مکمل تباہی و بربادی ہوجاتی ہے اسی طرح ان زہر آلود نظریات ،روایات اور اخلاقیات کے خلاف بھی ایک خوفناک زلزلہ آنا چاہیئے۔اب انسانیت ایک ایسے خطرناک موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں انسانیت کے خلاف بہت کچھ ہونے والا ہے ۔یہ انسانیت مرنے والی ہے ۔یہ وہی نقطہ ہے جب آج سے کروڑوں سال پہلے بندر درختوں سے نیچے اترے تھے اور انسانیت وجود میں آئی تھی ،اب وہی پوائنٹ دوبارہ آگیا ہے۔یہ خطرناک لمحہ ہے،یا تو بہت جلد تیسری جنگ عظیم ہو گی اور انسانیت کا خاتمہ ہو جائے گا یا پھر ایک نئے راستے کا انتخاب کرکے یہ انسانیت ایک نئے انسان کو جنم دے گی ۔پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ،اس صورتحال کو انجوائے کرو ۔بابا نے کہا ،ایسی انسانیت اور ایسے ماضی کے انسان کے لئے کیوں پریشان ہو رہے ہو ،یہ بیچارہ انسان دس ہزار سالوں سے ڈراونی کیفیت میں ہے،درندگی اور وحشت کا شکار ہے ،اسے مرنے دو ۔انسانیت بدترین صورتحال کے آخری مقام تک پہنچ چکی ہے ،اب کچھ ہونے والا ہے ،اسی وجہ سے تم بے چینی کا شکار ہو ۔کچھ شاندار ہونے جارہا ہے ،یا اسانیت صفحہ ہستی سے مٹنے والی ہے یا پھر یہ انسان ماضی سے پیچھا چھڑانے والا ہے۔انسانیت نے نیا راستہ اختیار نہ کیا تو پھر اجتماعی خودکشی کرے گی ۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انسانیت نئے راستے کو اپنا لے ۔بس اب انسانیت کے ڈرامے کا ڈراپ سین ہونے کو ہے ۔یا انسان کو بدلنا ہوگا یا پھر کائناتی خودکشی انسانیت کا مقدر بنے گی ،تیسرا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔بابا نے کہا ،اس خوبصورت زمین کو نئے انسان کی ضرورت ہے ۔یہ جو انسان اب ہے یہ بدبودار اور غلیظ ہے،اس کا کوئی مستقبل نہیں ،یہ اب مزید زندہ رہنے کے قابل نہیں ،یہ بستر مرگ پر ہے۔جب تک نیا انسان نہیں آتا ،مغرب اور مشرق ایک نہیں ہوتے ،انسانیت کی یہی کیفیت رہے گی ،لیکن پریشانی کی ضرورت نہیں ،یہ کیفیت عارضی ہے ۔میں نے پوچھا بابا اس انسان کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟بابا نے کہا ،یہ انسان اب روبوٹ بن گیا ہے ،اس انسان کا تمام رویہ ،عادات اور کلچر اندھیرے سے جنم لیتا ہے ،اس انسان کی اندر کی دنیا تاریکی کا گھر بن چکی ہے۔اس جھنمی تاریکی میں روشنی کی کوئی امید نہیں ،اس لئے انسانیت کے زندہ رہنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ۔ماضی میں انسان مکمل طور پر مرنے سے بچ گئے کیونکہ انسان کو ہلاک کرنے والے ہتھیار مہلک نہیں تھے ۔اب یہ ہتھیار مکمل طور پر مہلک اور خطرناک ہیں ۔اب ماشاللہ یہ انسانیت ایٹم بموں سے مالا مال ہے ۔ہائیڈروجن بم ہیں ،انسانیت کو مارنے والی زہریلی گیسیں ہیں ،اب انسانیت اپنے آپ کو اجتماعی طور پر مارنے کے لئے بھرپور صلاحیتوں سے مالا مال ہے ۔میں نے کہا بابا کیسا انسان اس انسانیت کو بچا سکتا ہے؟ بابا نے کہا ،بیٹا جی جب میں کہتا ہوں کہ نیا انسان اس انسانیت کے لئے ضروری ہے تو وہ انسان ایسا ہوگا جو شعور،آگہی اور بصیرت سے بھرپور ہوگا ،جو ماضی کی روایات ،ماضی کی بیماراخلاقیات اور نظریات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ دے گا ۔شعور اور آگہی والے انسان کے بغیر انسانیت کو محفوظ نہیں کیا جاسکتا ۔اب ایسے انسان کی ضرورت ہے جو شاید پہلے نہ تھی ۔انسانیت کی تقدیر بے وقوف اور جاہل سیاستدانوں ،جرنیلوں اور ملاؤں کے کنٹرول میں ہے ۔یہ سب طاقت کے خواہش مند ہیں ۔پہلے ان کے پاس ایسی طاقت نہ تھی جو اب ہے ،اسی وجہ سے انسانیت خطرے سے دوچار ہے ۔میں نے کہا بابا ،اب میرے لئے کیا حکم ہے؟بابا نے کہا ،بیٹا ،شعور اور آگہی کے ساتھ زندگی کو انجوائے کرو ،فطرت کے ساتھ قدم ملا کا چلتے رہو ،یہی ایک راستہ ہے ،باقی جو تمہاری مرضی ۔کیوں پریشان ہوتے ہو اس خوبصورت زمین کے لئے ،یہ تو جھنم بن چکی ہے ۔ہر طرف آگ و خون کا کھیل ہے اور یہ انسان نہیں جو تمہیں نظر آرہے ہیں ،یہ روبوٹ ہیں ،یہ زمبیز ہیں ،یہ زندہ لاشیں ہیں ۔اب ایک ہی راستہ ہے یا نئے انسان کا ظہور یا پھر زمین کی تباہی۔۔۔میں نے کہا بابا ،انسانیت کے بچنے کا کوئی نہ کوئی تو راستہ ہوگا ؟بابا نے کہا،اگر ایک ایسا انقلاب آجائے جو شاندار اور تابناک ہو ،جس سے انسانی تاریخ کا تمام ماضی تباہ ہو جائے ،پھر تو شاید انسانیت بچ جائے اور ایسا ہونا بھی ممکن ہے ۔میں نے پوچھا ایسا انقلاب کیسے آسکتا ہے؟بابا نے کہا ،جب دنیا کا ہر فرد اپنے آپ کو پہچان اور جان لے گا ،جب وہ اپنے آپ کا آقا بن جائے گا ،جب وہ ماضی سے نجات پاجائے گا،پرانی زہریلی تہذیبوں سے ناطہ طور لے گا اور صرف آگہی اور شعور کی بنیاد پر زندگی کو انجوائے کرے گا تو ایسا انقلاب آجائے گا ۔جب انسان اپنے آپ کا آقا ہو ،تو وہ کیسے کسی دوسرے کی قبر کھود سکتا ہے ۔یہاں تمام انسان ایک دوسرے کی قبریں اس لئے کھود رہے ہیں کیونکہ یہ سب پرانی تہذیبوں اور روایات میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔پرانی تہذیبوں کو باہر کے حملوں نے تباہ کیا اور اب زہریلی انسانی تہذیب کو اندر سے خطرہ ہے۔یہاں اب انسان لامحدود طاقت کے حصول کی خاطر اپنے اندر کی دنیا کو بھلا چکا ہے ۔جس دن انسان اپنے دل اور روح کی گہرائی کو سمجھ لے گا اسی دن نیا انسان جنم لے لے گا ۔ایٹم بم بنانے والی انسانیت روح و دل کی گہرائی کو کیسے سمجھ سکتی ہے؟اس انسانیت نے بے پناہ طاقت تو حاصل کر لی ہے لیکن امن اور بصیرت سے محروم ہو گئی ہے۔اب طاقت جاہل انسانوں کے ہاتھوں میں ہے اوریہی اس انسانیت کی سب سے بڑی غلطی ہے۔کیسی یہ انسانیت ہے جو اپنی ایجادات اور کامیابیوں کی بدولت خطرے میں ہے۔اس انسانیت کا مقصد طاقت ہے،امن نہیں ۔مقصد اگر دنیا کا امن ہوتا تو انسان کا تمام فوکس فطرت سے محبت ہوتا ۔پہلے تو ہولو کاسٹ یہودیوں کا ہوا تھا ،اب یہ ہولو کاسٹ تمام انسانوں کا ہورہا ہے۔اب مسلمان بھی ہولوکاسٹ کا شکار ہے،عیسائی بھی،ہندو بھی ۔سب کے سب ایک دوسرے کا قتل عام کررہے ہیں ۔یہ گلوبل ہولوکاسٹ ہے ۔اب نہ ممبئی رہے گا ،نہ کراچی ،نہ نیویارک بچے گا اور نہ ہی ماسکو ۔اس انسان نے زندگی مکمل کر لی ،اب اس کا جانا ٹھہر گیا ہے ۔اب انسانیت ابلتے ہوئے لاوے پر بیٹھی ہے ۔اس سے بچنے کے لئے بہت زیادہ شعور اور آگہی چاہیئے۔یہ جاہل انسانیت زہنی مریض ہے،اس پر کمپیوٹر غالب ہیں ،یہ مشینوں اور پاگل انسانوں کا دور ہے جو روبوٹ کی شکل اختیار کرچکے ہیں ۔اس کی بنیادوں کو تبدیل کرنا ہوگا ورنہ بچاؤ کا کوئی راستہ نہیں ۔جسے ہم تہذیب تہذیب کہتے ہیں یہ تہذیب نہیں ہے ،یہ صرف لفظ ہے ۔تہذیب تو ابھی تک ظہور پزیر ہوئی ہی نہیں ۔وہ تو نیا انسان لیکر آئے گا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔