شادی کے بعد پہلا رمضان آیا تو شہر سے تعلق رکھنے والی نئی نویلی بیگم صاحبہ پر حیرتوں کے جو باب وا ہوئے ان کا ذکر وضعدار خاتون نے کئی برس بعد کیا۔ بودوباش تو ہماری بھی اُس وقت شہر ہی میں تھی لیکن بابے ظفر اقبال نے کہا ہے ؎
ظفر میں شہر میں آ تو گیا ہوں
مری خصلت بیابانی رہے گی
بابے کا جو پیار اس نابکار سے ہے‘ اس کے پیش نظر کیا عجب یہ شعر زیر دستخطی ہی کے لیے کہا گیا ہو! شہر کی بودوباش میں بھی اصلیت گائوں کی جھلک جھلک پڑتی تھی۔ سحری کے وقت‘ گھی میں تلے ہوئے دو پراٹھے۔ ایک معقول سائز کی قاب میں کناروں تک ڈالا گیا پگھلا ہوا گھی‘ اس کے درمیان میں شکر کی بڑی سی ڈھیری‘ یوں کہ اس کے اردگرد گھی‘ جیسے گول ناند میں بہہ رہا ہے‘ ساتھ ایک جگ لسّی کا‘ یاد رہے کہ اس جگ میں پورے چھ گلاس ہوتے تھے۔ یہ توند اُس وقت ظہور پذیر نہیں ہوئی تھی۔ دھان پان جسم تھا۔ ہڈیاں زیادہ اور ماس کم۔ کانگڑی پہلوان۔ عفیفہ حیران کہ آخر یہ چھ گلاس لسی کے جاتے کہاں ہیں!
رمضان میں سحری کا یہ معمول چلتا رہا۔ پھر بچے بڑے ہوتے گئے۔ گھریلو ذمہ داریوں میں اضافہ۔ ساتھ سرکاری کلرکی کا بوجھ بڑھتا رہا۔ چودہ پندرہ برس بیت گئے۔ تب ایک رمضان میں بیماری نے حملہ کیا۔ شدید بخار‘ چھاتی جیسے بند دروازہ‘ حلق جیسے مسدود راستہ۔ خدا سلامت رکھے جنرل محمود اختر کو۔ آج تک کرم فرمائی کر رہے ہیں۔ جن دنوں مسلح افواج کے سرجن جنرل تھے‘ تب بھی کلینک جاری رہا اور فقیروں کے لیے دریائوں جیسی فیاضی بھی! کسی زمانے میں طبیب کو حکیم کہتے تھے اس لیے کہ طب کے لیے صرف کتابی علم نہیں‘ دانش و حکمت بھی لازم ہے۔ جنرل محمود اختر پر طب اور حکمت دونوں ناز کرتے ہیں۔ مدتوں ادویات کی کوالٹی کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر کام کرتے رہے۔ لکھتے بھی رہے۔ جب بھی ان کے ہاں جانا ہوا‘ اپنے لیے‘ والدہ مرحومہ کے لیے‘ اہل و عیال کے لیے‘ ہمیشہ مجید امجد کی نظم ’’مسیحا‘‘ یاد آئی:
سدا لکھیں/ انگلیاں یہ/ لکھتی رہیں/ انگلیاں یہ/ کاغذ پر/ رکی ہوئیں/ آنکھیں یہ/ کاغذ پر/ جمی ہوئیں/ گہری سوچ/ جذب عمیق/ سامنے اک/ پارۂ جاں/ درد ہی درد/ ٹیس کراہ بو/ تلچھٹ/ جرثومے/ آنکھیں فکر/ آنکھیں صدق/ آنکھیں کشف/ اک یہ طریق/ اک وہ اصول/ یہ مشروب/ وہ محلول/ کچھ کیپسول/ سطرِ شفا/ حرفِ بقا/ آنکھیں یہ/ سدا جیئیں/ سُکھ بانٹیں/ انگلیاں یہ/ سدا لکھیں/ لکھتی رہیں/ سطرِ شفا/ حرفِ بقا…
اب ضعف اتنا ہے کہ سیڑھیاں نہیں اتر سکتے۔ برقی کرسی کے ذریعے کلینک کی سیڑھیاں اترتے ہیں مگر مسیحائی کا سلسلہ جاری ہے اور دریا دلی بھی!
پوچھا‘ روزے رکھ رہے ہو؟ عرض کیا‘ جی ہاں! ’’سحری میں کیا کھایا؟‘‘ کہا‘ آج تو کچھ نہیں‘ مگر معمول یہ ہے۔ معمول بتایا تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ بس اتنا کہا ’’نومور‘‘۔ پھر سادہ چپاتی‘ سالن اور دہی‘ ساتھ زیادہ سے زیادہ ایک گلاس شربت تجویز کیا۔
لسی پورے پنجاب کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے مگر مغربی اضلاع کے قریوں میں تو دوپہر کو سالن کا تصور ہی نہ تھا۔ ملازم زیادہ تر وہی تھے جو فوج میں بھرتی ہوتے تھے۔ چھٹی آتے تو مائیں‘ دادیاں‘ نانیاں‘ کفِ افسوس مل مل کر کر کہتیں، ’’ہائے سالن کھا کھا کر بچے کا چہرہ اتر گیا ہے‘‘! کیا عیاشی کا زمانہ تھا۔ دہی‘ انڈوں اور پراٹھوں کا ناشتہ‘ (انڈے تب صرف انڈے تھے‘ کہ شیور کے تولد ہی نہیں ہوئے تھے) تھوڑی دیر کے بعد ادھ رڑکا‘ (اب اس کی کیا تشریح ہو!)۔ پھر تنور تپتے‘ روٹیاں لگتیں‘ گرم روٹیوں پر عورتیں انگلیوں سے گڑھے بناتیں تاکہ مکھن اندر رچ جائے۔ مگر اصل مزہ اُس لسی کا ہوتا تھا جو حلق سے اترتے ہی سینے میں ناقابل بیان ٹھنڈا ذائقہ بکھیرتی‘ معدے میں پہنچتی۔ آج بھی وہ منظر یاد ہے‘ مکان کی مرمت تھی‘ تب مزدوروں کا رواج نہ تھا۔ برادری کے ارکان اور دوست احباب ہی سارا کام کرتے۔ مٹی کے کٹوے میں خاص طریقے سے پکا ہوا بکرے کا نرم گوشت بھی تھا‘ گھی بھی‘ روٹیاں اور ساتھ مکھدی حلوے کے انبار بھی‘ مگر چاچے احمد خان نے‘ خدا اس کی قبر کو منور کرے‘ کہا کہ لسی کا خانہ ابھی تک خالی ہے!
یہ عجیب و غریب خدائی نعمت صرف پنجاب میں نہیں‘ دنیا بھر میں مقبول ہے۔ دیارِ غیر میں ایک ترک ریستوران میں کھانا کھایا۔ لسی کو دل چاہا‘ کائونٹر پر بیٹھی خاتون کو انگریزی میں بتایا کہ یوگرٹ ڈرنک درکار ہے۔ وہ مسکرائی اور نمکین لسی کا گلاس لا کر میز پر رکھ دیا۔ دفعتاً یاد آیا کہ انقرہ‘ استنبول اور قونیہ میں‘ جہاں بھی جانا ہوا‘ صاف ستھری لسی بوتلوں میں بند‘ ہر ریستوران میں دیکھی تھی۔ چاول اور
کباب کے ساتھ ترک ضرور پیتے ہیں۔ اسے اَئران کہتے ہیں۔ ترکی میں اسے قومی مشروب کا بلند مقام حاصل ہے۔ جس زمانے میں ترک خانہ بدوش تھے اور قازقستان سے لے کر اناطولیہ تک چلتے پھرتے تھے‘ گھوڑی کا دودھ ان کا پسندیدہ مشروب تھا۔ اسے کُومِس کہا جاتا تھا۔ دودھ خاصا عرصہ پڑا رہنے دیا جاتا تھا‘ جیسے سیال پنیرہو‘ یہ لسی کی قدیم شکل تھی۔ گمان غالب یہ ہے کہ یہ تھوڑا بہت نشہ بھی لاتی ہوگی۔ قفقار کے علاقے (آرمینیا‘ آذربائی جان اور جارجیا) میں لسی کو ترکوں ہی نے مقبول بنایا۔ مگر دلچسپ معاملہ یورپ اور امریکہ کے سفید فام لوگوں سے پیش آیا۔ ان کے ہاں مشروبات دو ہی اقسام کے تھے۔ یا تو سرور آور مشروبات یا کوکا کولا جیسے مشروبات جن میں کھانڈ افراط سے ڈالی جاتی ہے۔ نمکین لسی ان کے لیے نیا تجربہ تھا۔ سو انہوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ مگر اب ’’مینگو لسی‘‘ خوب مقبول ہے۔ نیوزی لینڈ سے لے کر وینکوور اور کیلی فورنیا تک پاکستانی اور بھارتی مینگو لسی فروخت کر رہے ہیں۔ (غالباً اس میں تازہ آم نہیں‘ آم کا جوہر ڈالا جاتا ہے) میلبورن سنٹرل ریلوے اسٹیشن پر ایک پرہجوم جنوبی ایشیائی ریستوران ہے جہاں جنوبی ہند کے کھانے مزے کے ملتے ہیں۔ سفید چمڑی والے ایک گاہک کو دیکھا جو ساتھ والی میز پر بریانی سے بھرا تھال لیے بیٹھا تھا اور بَیرے سے کہہ رہا تھا کہ مینگو لسی بھی لے آئو۔ تعجب ہے کہ پاکستان میں کہ مینگو افراط سے ہیں اور لسی بھی‘ مینگو لسی کا رواج نہیں پڑ رہا۔ جنوبی ایشیا کا ذکر چھڑ گیا ہے۔ جنوبی ہند سے تعلق رکھنے والے ایک دوست کے ہاں کھانے پر جانے کا اتفاق ہوا تو میز پر
جگ میں سبز رنگ کا مشروب پڑا تھا۔ اس نے بتایا کہ یہ چھاچھ ہے۔ اس میں نمک اور زیرے کے ساتھ پودینہ پڑا تھا اور سبز رنگ اُسی پودینے کا غلبہ تھا۔ راجستھان والے اس میں سبز مرچ اور پسی ہوئی ادرک بھی شامل کر لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں غالباً چھاچھ اس لسّی کو کہتے ہیں جس میں پانی کی آمیزش زیادہ ہو۔ پاکستانی پنجاب میں چھاچھ کا لفظ سننے میں نہیں آتا۔ غالباً بھارتی پنجاب میں بھی نہ ہوگا۔ صرف جنوبی ہند میں یہ نام مستعمل ہوگا۔
وسط ایشیا کا ہر وہ گوشہ چھان مارا جہاں فارسی کا چلن ہے مگر فارسی ادب کے اس طالب علم کو جہاں جانا تاحال مقدور نہیں ہوا وہ حافظ اور سعدی کی سرزمین ہے۔ یعنی پطرس بخاری کے بقول مرزا کی بائیسکل میں ہر پرزہ بجا سوائے گھنٹی کے‘ مگر اتنا معلوم ہے کہ ایران میں لسی کو دُوغ کہتے ہیں اور بزرگ جو ایران میں پڑھتے پڑھاتے رہے‘ بتاتے تھے کہ ذائقے میں اپنی مثال آپ ہے۔ یوں بھی ملاوٹ کی لعنت صرف اسلام کے اس قلعہ ہی میں ہے جہاں ہم رہتے ہیں!
کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ ماحول کس قدر گرم ہے۔ جھلسا دینے والی خبریں آ رہی ہیں اور مسلسل آئے جا رہی ہیں۔ ذوالفقار مرزا اقتدار کی بلند مسند سے پھسلے تو عدالت میں آن گرے۔ ماڈل ٹائون معاملے کی جے آئی ٹی رپورٹ پر ڈاکٹر طاہرالقادری کے پیروکار کیا‘ سبھی انگشت بدنداں ہیں۔ ایگزیکٹ نے ایک اور تماشہ برپا کردیا ہے اور کارناموں کی گنتی تاحال جاری ہے۔ ہماری تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ آڈیٹر جنرل کو‘ کہ دستوری پوسٹ ہے‘ برطرف کردیا گیا ہے‘ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کا الگ انتظار ہے‘ اس گرم ماحول میں پیاس نہ لگے تو کیا ہو‘ آپ یہ کرم کیجیے کہ ٹھنڈی لسی کا ایک گلاس عنایت فرما دیجیے‘ اور ہاں! نمک کے بجائے چینی ڈال سکیں تو کیا ہی کہنا!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“