تدفین ہو چکی تھی۔ دوسری بستیوں اور شہروں سے آئے ہوئے مہمانوں کو گاؤں کے لوگ راستوں میں کھڑے، درخواست کر رہے تھے کہ کھانا تیار ہے، تناول فرما کر رخصت ہوں۔ کچھ گاڑیاں موڑ رہے تھے،اژدحام تو نہ تھا لیکن لوگ اتنے زیادہ تھے اور موٹریں اس قدر تھیں کہ گرد بہت تھی۔ مٹی اڑتی تھی تو ارد گرد کے چہرے چھپ چھپ جاتے تھے۔ میں اپنے عزیزوں کی اُس حویلی میں کھڑا تھا جہاں مرد حضرات کے بیٹھنے کا انتظام تھا۔ آمد و رفت لگی ہوئی تھی۔ اچانک شدید تھکاوٹ کا احساس ہوا۔ چوبیس گھنٹوں میں شاید ہی آنکھ لگی ہو۔ آنسو خشک اور آنکھیں بنجر تو ہو ہی چکی تھیں، جسم کے دوسرے اعضا بھی ناتوانی کا شکار لگنے لگے تھے۔ نہ جانے کیا ہوا‘ دفعتاً میرے منہ سے الفاظ نکلے، جن کا مخاطب میں خود ہی تھا۔ اظہار الحق، آج تمہیں کسی نے نہیں کہنا کہ ’’میرے بچے تھک گئے ہو، ذرا لیٹ جاؤ‘‘، پھر کسی کو آواز دیتیں، ’’جاؤ، اظہار کے لئے اندر سے تکیہ لے آؤ‘‘، محرومی کا احساس ہوا اور اتنا شدید کہ بے کسی سے، بقول محبوب خزاں، دنیا رگوں میں چلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ تھکے تھکے قدم آہستہ آہستہ اٹھائے، ایک خالی کمرے میں فرش پر بچھی ہوئی دری پر لیٹ گیا۔ تکیہ تھا نہ کوئی تکیہ منگوا کر دینے والی! برہنگی تھی، افق سے افق تک چھائی ہوئی‘ کڑکتی دھوپ، جھلسا دینے والی گرم ہوا، کوئی سایہ نہ تھا۔ وہ روایت یادآئی، موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی رحلت ہوئی تو متنبہ کئے گئے کہ ہوش سے!! اب وہ پہلے والی بات نہیں، ماں کی دعا پشت سے اُٹھ چکی ہے۔
اُسی دن، شام ڈھلے، لاہور سے ایک دوست پہنچے۔ صحن میں چارپائیاں بچھی تھیں، ہوا چل رہی تھی۔ کہنے لگے کیا ہی اچھی ہوا ہے تمہارے گاؤں میں۔ جواب دیا، ہاں! لیکن وہ جو تہہ خاک چلے گئے، انہیں اِس ہوا سے کیا! ؎
ہواؤں اور بادلوں سے اظہارؔ کوئی کہہ دے
کہ اب ملاقات ان سے زیرِ زمین ہوگی!
کہنے لگے یہ وہ زخم نہیں جو چند دنوں یا چند مہینوں یا چند برسوں میں بھر جائے، یہ کھرنڈ چھلتا رہے گا۔ خون رستا رہے گا۔ جہاں کوئی بوڑھی عورت دکھائی دے گی، ماں یاد آ جائے گی۔ یہی ہوا، سترہ سال گزر چکے، سر کے بچے کھچے اور ریش کے بال برف کی لاتعداد تہوں سے ڈھک گئے ہیں۔ اب بھی جھریوں بھرے چہرے والی کوئی بزرگ خاتون نظر آئے تو آنکھوں کے سامنے ایک اور چہرہ آ جاتا ہے!
پتہ نہیں کس وقت اُٹھ جاتی تھیں، عید کے دن ہم بیدار ہوتے تھے تو مکھڈی حلوہ بھی پک چکا ہوتا تھا۔ سویاں بھی میز پر تیار پڑی ہوتی تھیں، شلواروں میںکمربند بھی ڈالے جا چکے ہوتے تھے۔ عید کی نماز پڑھ کر گھر میں داخل ہوتے تھے تو کھڑی ہوتی تھیں۔ بسم اللہ کہہ کر بازوؤں میں لپیٹ لیتی تھیں۔ اب تو کچھ بھی نہیں! زیرِ پا زمین ہے نہ سر پر سائبان! کوئی ابرپارہ ہے نہ آسمان! ؎
یہ زندگی کے کڑے کوس! یاد آتا ہے
تری نگاہِ کرم کا گھنا گھنا سایہ
افسوس! جن کے ماں باپ زندہ ہیں، انہیں اکثر و بیشتر احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کتنے خوش بخت ہیں! پیدائش سے ساتھ دیکھ کر، ہم انہیں اپنے وجود، اپنے ماحول کا حصہ سمجھ لیتے ہیں،
Taken for granted
لیتے ہیں! وقت گزرتا جاتا ہے۔ وہ کمزور، پھر ضعیف ہونے لگتے ہیں، ان کے دل نرم ہو جاتے ہیں، بات بات پر رقت طاری ہونے لگتی ہے۔ بچوں کی ذرا سی تکلیف پر بے چین ہو جاتے ہیں، رات کو دیر سے آئیں تو جاگ کر انتظار کر رہے ہوتے ہیں، شام کو کام سے واپس آنے میں تاخیر ہو جائے تو دروازے پر کھڑے ہوتے ہیں، کھانے کا کہا جائے تو آہستگی سے کہہ دیتے ہیں کہ وہ آجائے تو کھا لیں گے! بیٹا بیٹی، پوتا، نیا لباس نیا جوتا یا کوئی اور تحفہ لائے تو یہ فکر کہ بچے کا اتنا خرچ ہو گیا! کیا کبھی کسی نے اس بات پر غور کیا ہے کہ بیٹے کے مکان، مال اور اشیا کی جتنی حفاظت بوڑھے والدین کرتے ہیں اور جتنی فکر انہیں ہوتی ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اپنے رخصت ہونے کے بعد جو کچھ بچوں پر گزرے گی، اس کی فکر الگ۔ فلاں کام اس طرح کر لینا،، فلاں سے ہوشیار رہنا، فلاں پر اعتبار کرنا، فلاں پر نہ کرنا! کچھ خوش قسمت سنتے ہیں۔ کچھ سنی ان سنی کرتے ہیں۔ ہوتا اکثر و بیشتر وہی ہے جو وہ بتا چکے تھے۔ مگر اب کیا ہو سکتا ہے! ؎
عصا در دست ہوں، اُس دن سے بینائی نہیں ہے
ستارہ آنکھ میں آیا تھا، میں نے کھو دیا تھا
افسوس! آدم کی اولاد کو جتنی محبت اپنی اولاد اور اولاد کی اولاد سے ہے، اتنی ماں باپ سے نہیں! شاید اس لئے کہ آدم کے ماں باپ نہیں تھے، محبت کا اور تعلق کا اور دلسوزی کا اور اضطراب کا بہاؤ آگے کی طرف ہے، پیچھے کی طرف نہیں۔ نشیب آگے ہے، پیچھے اونچائی ہے! اس صورتِ حال کا علم پیدا کرنے والے کو تھا‘ اسی لئے تو وارننگ دی کہ بوڑھے ہو جائیں تو اُف نہ کرو‘ درشتی سے نہ جواب دو۔ عجز سے بازو پھیلائے رکھو، یہ کہیں نہیں فرمایا کہ بچوں کا خیال رکھو کہ وہ ہاتھ سے مکھی بھی نہیں اڑا سکتے! بچے کے لئے ماں بھی جاگتی ہے، پیشاب پاخانہ سنبھالتی ہے، باپ بھی ہر وقت بچھنے کے لئے تیار ہے، پھر جب وہ ڈیڑھ فٹ کا بے بس بچہ کڑیل جواب بنتا ہے تو سمجھتا ہے ہمیشہ سے گبھرو تھا؟ پھر وہ بات بات پر بگڑتا ہے، اونچی آواز سے بولتا ہے، گستاخی کرتا ہے، اُن کی دل آزاری کرتا ہے، ان کے آرام کا، ضروریات کا خیال نہیں رکھتا۔ رابطہ نہیں کرتااور اگر بیوی اپنے زعم میں حورپری ملی جائے یا اپنی سطح سے اونچے گھر سے کوئی میم نما، غرور و استکبار سے بھری کم ظرف آ جائے تو اُن دو ہستیوں کو جنہوں نے راتوں کو بیٹھ بیٹھ کر اس کی تیمارداری کی تھی، اُسکی غلاظت صاف کی تھی، اس کے منہ میں دودھ کے قطرے ٹپکائے تھے، اس کے پیروں میں جورابیں اور جوتے ڈالتے تھے، اُسے نہلاتے تھے، اس کے منہ میں ایک ایک حرف ڈال کر بولنا سکھاتے تھے، پاؤں پاؤں چلنے کی مشق کراتے تھے‘ سکول لے جانے سے پہلے ننھے ننھے جوتے چمکاتے تھے، اپنی ضروریات پسِ پشت ڈال کر اُس کے لئے بازاروں سے خریداریاں کرتے پھرتے تھے، قرض لے کر اُسکی فیسیں ادا کرتے تھے‘ چھٹی ہوتی تھی تو دروازے پر بانہیں پھیلائے کھڑے ہوتے تھے، اُن دو ہستیوں کو بھول جاتا ہے، پھر وہ یہ بھی نہیں سوچتا کہ آج جو بو رہا ہے، کل وہی کچھ کاٹے گا۔ ہے نا انسان خسارے میں! اپنے ہاتھوں سے اپنے لئے کنواں کھودتا انسان!!
اللہ کے بندو! تم میں سے جن کے ماں باپ سلامت ہیں، ان کی قدر کرو، خدا کے لئے جنت کا یہ ٹکٹ ہاتھ سے نہ گنواؤ، اگر وہ ناراض ہیں تو اس عید پر اُن کے قدم چوم لو، اپنی مکروہ انا کو جھٹک کر اُن کے مقدس پیروں پر اپنے سر رکھ دو۔ ان کے کانپتے ہاتھوں پر اپنا چہرے جھکاؤ، آنکھیں اُن کی ہتھیلیوں پر ملو، اُن کے رعشہ زدہ سروں کے لئے اپنے کندھوں کو ٹیک بنا دو۔ اُن کے پوپلے منہ میں اپنے ہاتھوں سے نوالے ڈالو۔ انہیں بٹھا کر، پسِ پشت خود تکیہ بنو۔ وقت اُڑ رہا ہے، کہیں زندگی بھر کا پچھتاوا تمہارے لئے جلتا تنور نہ بن جائے۔ اُن کے پاؤں تلے پلکیں نہیں بچھا سکتے تو اپنے ہاتھوں سے اُن کے پاؤں جوتوں میں ڈالو۔ تمہارے جوتے اگر تمہارے ملازم پالش کرتے ہیں تو ماں باپ کے جوتے اپنے ہاتھوں سے پالش کرو۔ اُن کے جھریوں بھرے رخساروں کے ساتھ اپنے رخسار لگاؤ، یہی بہشت کا مَس ہے۔ اگر وہ بستر سے لگ گئے ہیں، تو پاس بیٹھ کر آگے کو جھکو اور ان کے گلے لگ جاؤ، ان کے دُکھتے جسم کو نرم ہاتھوں کے ساتھ آرام پہنچاؤ۔ اُن کی اجاڑ بے خواب بے آب آنکھوں میں جھانکو، اُن میں بے کنار جہان آباد ہیں، وہ بستر سے نیچے اتریں تو ان کے جوتے سیدھے کرو، عصا پکڑاؤ، ان کے پاس بیٹھو، ان سے باتیں کرو، وہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں سنو، انہیں احساس نہ ہو کہ ان کی بات سننے والا کوئی نہیں۔ ان کی یادداشت بوسیدہ ہو چکی ہے، اگر وہ ایک بات بار بار کر یں، کسی چیز کے بارے میں بار بار پوچھیں، لوگوں اور اشیا کے نام خلط ملط کر دیں تو تحمل سے کام لو۔ بیس بار بھی بات دہرانی پڑے تو دہراؤ‘ لہجے میں اکتاہٹ نہ آنے دو فَلا تَقُل لَھُما اُفٍ وَلا تَنھرھُمَا۔ کیا خبر، اگلی عید پر وہ ہوں نہ ہوں! کیا خبر اگلی عید پر تم خود رہو نہ رہو۔ کسی کو کیا معلوم ایک سال کی تقویم میں کسی تاریخ کے گرد دائرہ لگ جائے؟ کون جانے وقت کتنے الاؤ پھونک دے اور کتنے بگولے پھانک چکا ہو! اُٹھو! ابھی اُٹھو! دیر نہ کرو!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔