(آسٹریلیا سے لوٹ کر جانے والے ایک پاکستانی طالب علم کی زبانی)
……………………………………..
ایکسپائر ہو گئے ویزے کی قسم
اس دیس میں پھر نہ آؤں گا
گھر والوں نے گر بھیجا بھی تو
سنگا پور سے مڑ جاؤں گا
اس دیس میں پھر نہ آؤں گا
دن رات یہاں ٹیکسی چلانی پڑتی ہے
یا فیکٹری میں شفٹ لگانی پڑتی ہے
گھر جا کر روٹی بھی خود پکانی پڑتی ہے
اب پکی پکائی کھاؤں گا
اس دیس میں پھر نہ آؤں گا
جو کچھ کمایا وہ سب فیسوں میں لگایا
جو بچا امیگریشن ایجنٹوں کے ہاتھ آیا
کسی گوری نے بھی کبھی منہ نہیں لگایا
اب جا کر حمیدہ کو مناؤں گا
اس دیس میں پھر نہ آؤں گا
رات بھر ٹیکسی چلائی خدا کی قسم
دن بھر یونی میں کی پڑھائی خدا کی قسم
سمجھ ذرا بھی نہیں آئی خدا کی قسم
پھر بھی فارن ڈگری کا رُعب جماؤں گا
اس دیس میں پھر نہ آؤں گا
روز کھاتے ہیں لبنانی روٹی یہاں
نہ پھجے کے پائے نہ سٹوڈنٹ کی بریانی یہاں
سوچ سوچ کر آتا ہے منہ میں پانی یہاں
اب برنس روڈ میں ڈیرہ لگاؤں گا
اس دیس میں پھر نہ آؤں گا
نہ جلسے نہ جلوس نہ سیاست کا یہاں ہنگامہ
نہ رحمن ملک کی ٹائیاں ، نہ سہیل احمد کا ڈرامہ
نظر آتے نہیں کہیں دھوتی اور پاجامہ
جا کر ساری پتلونیں جلاؤں گا
اس دیس میں پھر نہ آؤں گا
نہ پی ٹی وی ہے نہ جنگ اخبار یہاں
نہ دھی بھلے ، نہ چاٹ مسالہ ، نہ اچار یہاں
نہ چاچا ، نہ ماما ، نہ کوئی دوست یار یہاں
جا کر تھڑے والی محفل سجاؤں گا
اس دیس میں پھر نہ آؤں گا
ٹیچر کہتا ہے اسائنمنٹ جلد بنانی پڑے گی
مالک کہتا ہے لان میں مشین چلانی پڑے گی
باس کہتا ہے نائٹ شفٹ لگانی پڑے گی
اب کسی کے ہاتھ نہ آؤں گا
اس دیس میں پھر نہ آؤں گا
عید اور شب برات کب گزری خبر نہیں
روزے کب آئے ، چاند رات کب گزری خبر نہیں
بسنت کب آئی ، برسات کب گزری خبر نہیں
اس عید پر سویاں ضرور کھاؤں گا
اس دیس میں پھر نہ آؤں گا
گھر میں لوگ اتنے کہ سونا مشکل
دل گھبرا جائے تو جی بھر کر رونا مشکل
وقت پر نہانا مشکل ، کپڑے دھونا مشکل
اب کسی کام کو ہاتھ نہ لگاؤں گا
اس دیس میں پھر نہ آؤں گا