کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ میں باہر نکلتا ہوں، کسی ریستوراں یا کسی بھی تفریحی مقام پر جاتا ہوں تو جعلی چہروں کا ہجوم سا دکھائی دیتا ہے کہ جیسے ماسک لگائے لباس گھوم رہے ہوں، کچھ ہنستے ہوئے مسخرے کچھ اداس، کچھ نہ ہنستے ہیں نہ اداس ہوتے ہیں، سپاٹ چہرے، بے رنگ سے، خالی سے، ویران سے، جیسے کسی فرنیچر کی دوکان پر کوئی کرسی میز پلنگ سجا سنوار کر رکھ دیا ہو۔
مجھے وہ کم سن چہرے بھی دکھائی دیتے ہیں جن کے وجود پر ویرانی سی طاری ہوتی ہے، ایک خاموشی سی، ایک نامعلوم سا خوف۔۔۔ کہ جیسے کوئی آزاد پرندہ اپنے جھنڈ سے بچھڑ کر کسی پنجرے میں قید ہو۔ نئے ماحول اور خونخوار سے جانوروں کے درمیان سہم گیا ہو۔
ان کے یہ چہرے میرے چہرے سے، دل سے، روح سے ایک ہی پل میں زندگی چھین کر لے جاتے ہیں۔ میں جب بھی اپنی ذات کے دکھ گنتا ہوں تو جان پاتا ہوں کہ میری ذات کا یہی تنہا دکھ ہے کہ میرے ہمزاد، میرے ہم سایہ، میرے یہ لوگ، میرا حصہ کیسی بے توقیر زندگی گزارتے ہوئے گزر جائیں گے۔۔۔
یہ سوچ کر بھی وحشت ہوتی ہے کہ ہم بہت بے رحم معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ نجانے یہاں رہنا ہماری مجبوری ہے، بہادری ہے یا سستی ہے کہ اس کو بدلنے کی جستجو کسی سپارک کی طرح پیدا ہوتے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا کہ جیسے محبت و ایثار نام کے جذبے کئی تہوں کے نیچے دب سے گئے ہیں اور احساس لاوے ایسا ہوگیا ہے، جو انسان کے اندر ابلتا رہتا ہے۔۔۔ اور اس کی سطح پر جبر، مصلحت، غربت، خود پسندی، بے رحمی، خود غرضی، خوف، نفرت، عدم اعتماد اور نجانے کیا کیا بھدے نام تیر رہے ہیں۔
آفت پر آفت یہ ہے کہ آج پھر ایک سوشل میڈیا پر ویڈیو دیکھی جس میں ایک شخص کسی جلاد کی طرح 'غلام' بچی کو چھڑی سے پیٹ رہا ہے اور وہ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہی ہے کہ معاف کر دو اس جہان میں آ کر غلطی ہوگئی۔۔۔
بچوں کو غلام مت بنائیں، یہ عمریں ایسی تلخیاں سہنے کی نہیں ہوتی۔۔۔ لے آتے ہیں تو اپنے ہی بچوں کی طرح کیوں نہیں پال سکتے؟
یہ کس صدی میں ہیں ہم۔۔۔؟