پاکستان میں ہر سال جون میں مالیاتی بجٹ پیش کیا جاتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد سے ہر سیاسی عہد میں حکومتی اراکین ہر پیش ہونے والے بجٹ کو ملک و قوم کے لیئے تاریخی بجٹ قرار دیتے ہیں جبکہ اپوزیشن اس بجٹ کو عوام دشمن بجٹ قرار دیتی ہے۔ ہر سال بجٹ پر ایک ہی جیسے بیانات سننے کو ملتے ہیں مطلب یہ کہ فلم کا اسکرپٹ ایک ہی ہوتا ہے جبکہ اداکار تبدیل ہوجاتے ہیں۔ بجٹ بنیادی طور پر الفاظ اور اعداد و شمار کا وہ گورکھ دھندہ ہے جس سے عام آدمی کو کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ پاکستان جیسے پسماندہ ملک جہاں ہر سال خسارے کا بجٹ پیش ہوتا ہو پھر اس پر کیا بحث کرنی اور کیا اس کو برا یا بھلا قرار دینا۔ کسی نے خوب کہا کہ بجٹ سے متعلق سب سے بڑا سچ کسی غریب کے کچن سے معلوم ہوتا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ بجٹ عام آدمی کے لیے فائدہ مند ہے یا نہیں۔
بجٹ سے متعلق عام اصطلاح یہ استعمال ہوتی ہے کہ حکومتی بجٹ بنیادی طور پر کسی حکومت کی آمدنی اور اخراجات کا مالیاتی مجموعہ ہوتا ہے۔ یا اس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بجٹ کسی حکومت کی وہ ایک سالہ مالی منصوبہ بندی ہوتی ہے جس میں وہ ٹیکسز کی مد میں حاصل ہونے والی رقم مختلف شعبہ جات اور منصوبوں پر خرچ کرتی ہے۔ پاکستان میں بجٹ وزیراعظم کی اجازت کے بعد وزیر خزانہ ہر سال جون میں اراکین پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرتا ہے بعد ازاں اراکین اسمبلی پیش ہونے والے بجٹ پر تجاویز پیش کرتے ہیں اس میں کچھ تجازیز منظور ہوتی ہیں کچھ نامنظور اور آخر میں بجٹ کو اسمبلی سے منظور کرایا جاتا ہے۔
ہر سال کی طرح رواں سال بھی خسارے کا بجٹ پیش کیا گیا ۔یہ بھی دلچسپ امر ہے کہ 1947 میں ملک بننے کے بعد سے اب تک جتنے بجٹ پیش کیئے سوائے تین کے سب کے سب خسارے کے بجٹ تھے۔پاکستان کا پہلا بجٹ ملک بننے کے چھ ماہ بعد 28فروری 1947 کو وزیرخزانہ ملک غلام محمد نے پیش کیا ۔ملک غلام محمد علیگ تھے اور اس سے پیشتر وہ ریاست حیدرآباد دکن کے وزیر خزانہ رہ چکے تھے۔یہ پہلا بجٹ ہی 10 کروڑ 11 لاکھ روپے خسارے کا تھا۔اس پہلے بجٹ کا حجم 89 کروڑ 68 لاکھ روپے تھا جس میں آمدن 79 کروڑ 57 لاکھ روپے تھی ۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے پوسٹ کارڈ ، پٹرول ، تمباکو ، بیٹری ، چھالیہ اور شراب وغیرہ پر ٹیکس لگائے گئے۔
اس کے بعد تو گویا سلسلہ چل نکلا کہ ہر بجٹ خسارے کا بجٹ ہی ہوگا۔ملکی تاریخ میں تین مواقع ایسے آئے ہیں جب بجٹ خسارے کا نہیں تھا ۔پہلا بجٹ 54-1953 میں وزیر خزانہ چوہدری محمد علی نے پیش کیا دوسرا بجٹ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 1972 میں پیش کیا گیا جبکہ تیسرا بجٹ محمد خان جونیجو کے دور حکومت میں 87-1986 میں پیش کیا گیا ۔یہ تینوں بجٹ خسارے کے بجٹ نہیں تھے تاہم ان سے قبل اور بعد کے تمام بجٹ خسارے کے بجٹ تھے ۔یعنی ملکی معاشی تاریخ میں کبھی بھی ہمارے اخراجات ہماری آمدن کے مطابق نہیں تھے بلکہ آمدن سے زیادہ تھے جس کی وجہ سے خسارے کے بجٹ پیش ہوتے رہے۔اور دلچسپ بات یہ کہ ہرخسارے کے بجٹ کو عوام دوست بجٹ کا خطاب دیا گیا۔
رواں مالی سال 22-2021کا بجٹ بھی ماضی کی طرح بڑے فخر سے پیش کیا گیا۔گو کہ یہ بجٹ بھی خسارے کا تھا تاہم حکومتی اراکین اس کو عوام دوست بجٹ کہہ کر پھولے نہیں سما رہے۔قومی اسمبلی میں موجودہ بجٹ پیش کرنے والے وزیرخزانہ شوکت ترین نے کچھ دن قبل ہی ملک کی 21-2020کی اقتصادی سروے رپورٹ پیش کرتے ہوئے جہاں معاشی کامیابیوں کا زکر کیا وہاں پر یہ بھی بتایا کہ کچھ شعبہ جات ایسے ہیں جہاں پر کارکردگی اہداف سے کم رہی یا منفی رہی ہے ۔ان میں زراعت قابل زکر ہے جس میں گزشتہ سال کے مقابلے میں کمی دیکھنے میں آئی باوجود اس کے کہ یہ ایک زرعی ملک ہے دوسرا تجارتی خسارے میں اضافہ دیکھنے میں آیا اورتیسرا شعبہ بیرونی سرمایہ کاری کا ہے جہاں کمی دیکھنے میں آئی ۔بیرونی سرمایہ کاری جو ہوئی اس میں بھی زیادہ تر حصہ سی پیک کی خاطر چین سے حاصل ہوا۔اگر سی پیک نا ہوتا تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بیرون ملک موجود کاروباری طبقہ ہم پر کتنا اعتماد کرتا ہے ۔یہ حکومتی معاشی پالیسیوں کی ناکامی ہے کہ بیرونی سرمایہ کار ہمارے ہاں سرمایہ کاری سے گریز کررہا ہے۔اور ان شعبہ جات میں ناقص کارکردگی کی وجہ سے ملک کی مجموعی اقتصادی ترقی متاثرہوئی ہے ۔
جہاں تک نئے بجٹ کی بات ہے تو حکومتی دعوے اپنی جگہ پر درست سہی تاہم اس کو عام آدمی کی معاشی حالت کی بہتری سے مشروط کرنا ہوگا۔اگر عام آدمی کی معاشی حالت بہتر ہوتی ہے اور اس کی قوت خرید میں اضافہ ہوتا ہے ۔اگر موجودہ معاشی پالیسیوں سے بے روزگاری کی شرح میں کمی ہوتی ہے اور عوام کی ایک متاثر کن تعداد خط غربت سے اوپر آتی ہے تو پھر کہا جاسکتا ہے کہ ملک کی معیشت ٹھیک سمت میں سفر کررہی ہے اور حکومتی معاشی پالیسیوں سے عام آدمی کی حالت میں بہتری آنا شروع ہوگئی ہے۔
اگر غربت، مہنگائی، بے روزگاری کا عفریت نئے مالی سال میں بھی عوام پر مسلط رہتا ہے ۔غریب اور متوسط طبقہ مزید خط غربت سے نیچے جاتا ہے اور عام آدمی کو بنیادی ضروریات زندگی تک رسائی آسانی سے نہیں ہوسکتی تو پھر وزیرخزانہ کے معاشی ترقی کے دعووں کو پھر سے جانچنے کی ضرورت ہے ۔ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز سے عوام کی حالت ابتر ہے اور اگلے ماہ سے پٹرول کے نرخوں میں اضافہ ہونے جارہا ہے جس سے مہنگائی کا ایک نیا طوفان آنے والا ہے ۔حرف آخریہ کہ جب تک کوئی حکومت اپنے خساروں کو کم نہیں کرتی اور عام آدمی کی معاشی حالت میں بہتری نہیں ہوتی اس وقت تک ہر بجٹ نا صرف خسارے کا بجٹ ہے بلکہ یہ حکمران اشرافیہ کے لیے تو شائد فائدہ مند ہو مگر کسی غریب کا بجٹ نہیں ہوسکتا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...