ارتقائی نفسیات (ایولیوشنری سائیکلولوجی) کی موجودہ صورت کا آغاز سوشیوبائیولوجی سے ہوا۔ یہ ارتقا کی تھیوری کی شاخ ہے جو جانداروں (اور خاص طور پر انسانوں) کے رویوں کی وضاحت کی کوشش ہے۔ یہ وضاحت کرتی ہے کہ ارتقا کے عمل نے ان کی کیسے تشکیل دیا۔ اس کا اہم سنگِ میل ایڈورڈ ولسن کی لکھی کتاب “سوشیوبائیولوجی” تھی۔ ولسن معاشرتی حشرات کے بہترین محقق تھے۔ ان کی کتاب کا آخری باب انسانوں پر تھا جس نے سب کی توجہ حاصل کی۔ اور اس نے ایک تلخ بحث چھیڑ دی۔
اس بحث کے دونوں اطراف میں سیاسی اور نظریاتی تعصبات تھے اور یہ خوشگوار نہیں تھی۔ کچھ ردِ عمل کنزرویٹو نظریاتی حلقوں کی طرف سے آیا لیکن زیادہ شدت سے لبرل اور پروگریسو نظریاتی لوگوں کی طرف سے۔ اس پر مشہور ایولوشنری بائیولوجیسٹ سٹیفن جے گولڈ نے شدید تنقید کی۔ ولسن پر آوازے کسے گئے۔ ایکٹیوسٹ طلبا نے لیکچر بند کرنے کی کوشش کی۔ ان پر سائنسی میٹنگ میں سرد پانی اور برف کی بالٹی الٹائی گئی۔ ان پر نسل پرست ہونے کے الزام لگے۔ اس کتاب پر آنے والا ردِ عمل ہمیں دکھاتا ہے کہ جب سائنس خود انسان کی اپنی سٹڈی کا رخ کرتی ہے تو پھر جذبات کو چھیڑ دیتی ہے۔ دوسری طرف، اس شعبے کی شہرت خراب کرنے میں کچھ قابلِ اعتراض کتابوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ اس میں “بیل کرو” اور “نیچرل ہسٹری آف ریپ” جیسی کتابیں تھیں جس میں دعوے بڑے تھے لیکن شواہد نہ ہونے کے برابر۔
چونکہ ہم لوگ ان معاملات میں کسی طرح کی کوئی جذباتی یا نظریاتی وابستگی نہیں رکھتے، اس لئے سوال اور تجزیہ جذباتیت یا تعصب کے بغیر کر سکتے ہیں۔ “کیا ارتقائی نفسیات ارتقائی بائیولوجی کی شاخ ہے؟ (جو اس کے حامی دعویٰ کرتے ہیں) یا سوڈوسائنس کے قریب تر ہے؟ (جو دعوٰی اس کے مخالفین کا ہے)”۔
ہم سب اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ ارتقائی بائیولوجی کی سائنس مضبوط بنیادوں پر ہے۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ یہ خیال کہ نفسیات اور کوگنیٹو خاصیتوں کا تعلق اس سے ہے، ایک اچھا خیال ہے۔ ان کا نیچرل سلیکشن سے تعلق ہے۔ اس بارے میں سائنسدانوں میں نہ ہی کوئی تنازعہ ہے اور نہ اس کے متنازعہ ہونے کی کوئی وجہ ہے۔ اب اس سے آگے بڑھتے ہیں۔ کیا ہمارے پاس کسی ایک خاصیت کی وضاحت کرنے کے لئے دستیاب شواہد کافی ہیں جس کی بنا پر ایک خاص دعویٰ کیا جا سکے؟ مسئلہ اس تفصیل کا ہے۔
رچرڈ لیونٹن کا اس بارے میں کہنا ہے، “ہمیں یہ بچگانہ مفروضہ چھوڑ دینا چاہیے کہ ہمیں ہر دلچسپ سوال کا جواب مل ہی جائے گا۔ کوگنیشن کب پیدا ہوئی؟ کیسے پھیلی؟ کیسے بدلی؟ یہ بہت دلچسپ سوالات ہیں۔ ہمیں اس کے جواب نہیں ملیں گے۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے۔ لیکن کیا کیا جا سکتا ہے”۔ کیا لیونٹن کی بات میں وزن ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوڈوسائنس کی چیدہ چیدہ خاصیتیں کیا ہیں؟ جان کاسٹی کی فہرست میں اس کو پہچاننے کیلئے یہ نکات ہیں۔ حقائق کی شواہد کے بجائے منظرنامے (scenario) سے وضاحت۔ ایسا مفروضہ جس کو جھٹلایا نہ جا سکے۔ شواہد سے اس سے زیادہ اخذ کر لینا جو کیا جا سکتا ہے۔ اپنی پوزیشن بدلنے پر شدید مزاحمت۔ بارِ ثبوت خود نہ لینا؟ تھیوری سے لگاوٗ۔ بے ربط سوچ۔
اگر اس بنیاد پر اس کو پرکھا جائے تو ارتقائی نفسیات کے بارے میں ملا جلا جواب آئے گا۔ اس کی مثال: تھورن ہِل اور پالمر نے کہا کہ ریپ کمزور نر کی حکمتِ عملی تھی کہ وہ “چپکے” سے اپنے جین آگے بڑھا دے۔ کیونکہ اسے مادہ تک رسائی نہیں تھی۔ (اگر یہ خیال اخلاقی طور پر بدمزہ کرتا ہے تو یہ اس کے غلط یا صحیح ہونے کی دلیل نہیں۔ ہم اس طرف توجہ نہیں دیتے اور نہ ہی دینی چاہیے۔ سائنس میں ہمارے جذبات کی نزاکت معیار نہیں)۔ بائیولوجیکل نکتہ نظر سے یہ خیال بالکل باربط ہے۔ مسئلہ اس وقت آتا ہے جب ہم یہ سوال کریں کہ اس کے شواہد کیا ہوں گے۔
اس کے لئے ہم آج کی سوسائٹی سے آغاز کر لیتے ہیں۔ آج کا اکٹھا کیا گیا ڈیٹا یہ دکھاتا ہے کہ ریپ افزائشِ نسل کی اچھی حکمتِ عملی نہیں۔ کرنے والے کے لئے یہ پرخطر ہے۔ اکثر ایسا کرنے کے بعد وہ اپنے جین آگے بڑھانے کے قابل نہیں رہتا۔ (اسقاطِ حمل کا معاملہ اس کے علاوہ ہے)۔ لیکن ارتقائی نفسیات کے ماہر نشاندہی کریں گے کہ جدید رویے کا ارتقا آج کے ماحولیاتی حالات میں نہیں ہوا۔ اس میں اہم دور پلسٹوسین کا تھا۔ یہ وضاحت بیک وقت معقول بھی ہے اور ساتھ ہی ایسی بھی جس کو ٹیسٹ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ معقول خیال ہے کہ جدید انسانوں سے قبل کا طویل دور شخصیت اور بناوٹ تراشنے میں اہم رہا ہو گا۔ (اگرچہ اس شعبے میں عام طور پر اشارہ کئے گئے پلسٹوسین کے دور میں کوئی ایسی جادوئی چیز نظر نہیں آتی کہ ہر رویے کو اس سے جوڑ دیا جائے)۔ بدقسمتی سے رویوں کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ یہ اپنا فوسل ریکارڈ نہیں چھوڑتے۔ سوشل اور کلچرل ماحول میں سلیکشن پریشر ڈھونڈنا بہت مشکل ہے۔ اور یہ پلسٹوسین کے دور سے لے کر کی گئی کئی وضاحتوں کو ایک کہانی تک محدود کر دیتا ہے ہے جس کے پیچھے سائنسی شواہد نہیں۔ (اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ لازمی طور پر غلط ہے، صرف یہ کہ اس کو سائنسی طریقے سے پرکھا نہیں جا سکتا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارتقائی نفسیات کا ایک اور بڑا راستہ تقابلی طریقہ ہے۔ اس میں کسی ایک نوع کا موازنہ اس کی قریبی نوع سے کیا جاتا ہے۔ ارتقائی بائیولوجی میں یہ تکنیک بہت استعمال کی جاتی ہے لیکن انسان کے معاملے میں یہ بہت اچھا کام نہیں کرتی۔ اس کی وجہ تاریخ کا ایک اور بدقسمت حادثہ ہے۔ تقابلی طریقے کو اچھا کام کرنے کے لئے ہمیں کئی قریبی رشتہ دار انواع درکار ہیں تا کہ شماریاتی تجزیہ ممکن ہو۔ لیکن انسان کے قریبی رشتہ داروں کی قلت ہے۔ چمپنیزی اور گوریلا کی ایک دو انواع سے زیادہ قریب کچھ اور نہیں اور ان دو انواع کو بھی الگ ہوئے کئی ملین سال گزر گئے جن میں دونوں شاخوں میں اپنا ارتقا آزادانہ رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے زیادہ قریبی رشتہ دار نہیں ہیں۔ اچھا ہوتا کہ بہتر ڈیٹا میسر ہوتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاریخی سراغ اتنے نہیں کہ اچھے جواب دئے جا سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں پر ایک طرف ارتقائی بائیولوجی سائنس کے مضبوط شعبوں میں سے ہے، وہیں پر یہ مسائل دوسری طرف ارتقائی نفسیات کو سائنس اور غیرسائنس کی درمیانی سرحد پر دھکیل دیتے ہیں۔ یقینی طور پر یہ شعبہ آسٹرولوجی کی طرح کی سوڈوسائنس نہیں ہے لیکن مین سٹریم ارتقائی بائیولوجی کے برعکس مضبوط بنیاد پر نہیں۔ اس کا طریقہ کار خالص ہسٹوریکل ریسرچ کے قریب تر ہے۔ جس میں بہترین امکان یہ ہوتا ہے کہ ہارڈ ڈیٹا کی عدم موجودگی میں کئی اچھی ممکنات بتا دی جائیں۔
اس کو ایک مثال سے: کیا نپولین کو واٹرلو میں شکست پیچیدہ ملٹری یا سیاسی وجوہات سے ہوئی تھی یا اس لئے کہ انہیں اس وقت پیچش لگ گئی تھی اور توجہ نہیں دے پائے؟ دوسرا امکان مزاحیہ لگتا ہے لیکن ایسا ممکن ہے کہ اہم فیکٹر موجود ہو جس کا تعلق اس وقت سے ہو۔ (اور تاریخ کے کئی حصے تو ارتقائی نفسیات کے مقابلے میں زیادہ بہتر ایمپریکل ٹیسٹ سے گزر سکتے ہیں)۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایسا کوئی امکان نہیں کہ ہم یہ جان پائیں کہ ایسا بھی کوئی فیکٹر بھی موجود تھا یا نہیں۔ اور اس وجہ سے رچرڈ لیونٹن کی بات بالکل بے وزن نہیں۔ (اس کا یہ مطلب نہیں کہ پیچیدہ فیکٹرز کو جاننے کی اپنی اہمیت نہیں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس کی نیچر کے وسیع تناظر میں کواسی سائنس (نیم سائنس) وہ جگہ لیتی ہیں جن میں سائنسی ڈسپلن کی کئی چیزیں پائی جاتی ہیں۔ ارتقائی نفسیات میں ارتقائی بائیولوجی کی۔ خلائی مخلوق ڈھونڈنے کے پروگرام میں آسٹرونومی اور بائیولوجی کی۔ سٹرنگ تھیوری میں تھیوریٹیکل فزکس کی۔ نہ ہی ہمیں معلوم ہے اور نہ ہی معلوم ہونے کا فی الحال کوئی طریقہ ہے کہ یہ شعبے آئندہ کیا رخ لیں گے۔ یہ سب باقاعدہ سائنس ہوں یا نہیں، قسم قسم کی سائنس اور قسم قسم کی غیرسائنس کی طرح یہ نیم سائنسی علوم بھی علم کا حصہ ہیں۔ دنیا کو جاننے کی ہماری اپنی بہترین کوشش ہیں۔
اس سے اگلا پڑاوٗ وہ شعبے ہیں جنکا نہ ہی سائنس سے اور نہ ہی علم سے کوئی واسطہ نہیں۔ یہ سوڈوسائنس کا علاقہ ہے۔