شہر سے دور کسی جھیل کنارے صبح سویرے بیٹھے ہیں۔ درختوں کے بیچ گھِری جھیل کا نیلگوں پانی ٹھہرا ہے۔ افق سے ابھرنے والے سورج کی پہلی پہلی روپہلی کرنیں آہستہ آہستہ جھیل میں اُترتی ہیں اور نظر آنے والے ستارے مدھم ہوتے ہوئے اب غائب ہو گئے ہیں۔ درختوں پر طرح طرح کے پرندے چہچہا رہے ہیں۔ سامنے ایک مینڈک گھات لگائے بیٹھا ہے اور اس نے پھر اڑتے کیڑے کو نگل لیا۔
یہ حسن و رعنائی، رنگ و تنوع، ان کو سراہنے والی آنکھ، یہاں اور اس طرح کیسے؟ یہ پوری کہانی پونے چودہ ارب برس پرانی ہے۔ اسکے شروع کے ابواب چھوڑ کر تازہ باب کی طرف آتے ہیں۔ ہماری زمین کا آغاز ساڑھے چار برس پرانا ہے اور اس پر زندگی کی عمر پونے چار ارب برس ہے۔ لاکھوں انواع ہیں جو اس کے اوپر ہیں اور اس سے کہیں زیادہ وہ جن کی باقیات ہی ملتی ہیں، یہ سب کیسے۔ کسی بھی چیز کا اس زمین پر یکایک اور بغیر کسی اصول کے نمودار ہو جانا تو کائنات کا طریقہ نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو نہ ہی سائنس ہوتی اور نہ ہی اس کو سمجھا جا سکتا اور نہ ہی پھر یہ سراہنے والی آنکھ ہوتی۔
مختصر جائزہ اس کا کہ وہ بنیادی اصول کیا ہیں جو زندگی کا تنوع ممکن بناتے ہیں۔
کیا ارتقا کسی نشئی کی طرح بے قابو ادھر ادھر لڑکھڑاتے بے ہنگم طریقے کا نام ہے؟ نہیں۔ یہ عمل خود ایک لائیبری سے کتاب چننے کی طرح کا ہے۔ اس کی ذہانت چھپی ہے اس کی تبدیلی کے طریقے میں جس تک ہم کمپیوٹیشنل بائیولوجی کی مدد سے کی جانے والی تحقیق کے ذریعے پہنچے ہیں۔ اس پر لکھی ہوئی کتاب اینڈرز ویگنر کی 'ارائیول آف دی فٹسٹ' ہے اور یہاں پر پندرہ سال کی ریسرچ کا نچوڑ ہے۔
آنکھ یا پروں یا گھٹنے کا ارتقا درجنوں جگہ اور الگ ہوا لیکن ہونے والا نتیجہ مماثلت رکھتا ہے اور ایک ہی چیز مختلف طریقے سے بنی ہے۔ مختلف جگہ اور مختلف طرح ہونے والی جدت کا نتیجہ آنکھ، گھٹنا مماثلت کیسے رکھتے ہیں، یہ جواب ہمیں زندگی خود ہی دیتی ہے۔ ہونے والی یہ تبدیلی خود تین قسم کی ہے
میٹابولزم کی تبدیلی
جسمانی نظام کی ریگولیشن کی تبدیلی
میکرومالیکیولز کی تبدیلی
ارتقا میں خود کچھ چیزوں کا توازن درکار ہے۔ تبدیلی تیز ہو۔ اگر تبدیلی نہ ہو سکے تو وہ ختم ہو جائے گی کیونکہ ماحول بدل رہا ہے۔ تبدیلی آہستہ ہو ورنہ جسم کا نظام نہیں چلے گا۔ زندگی جتنی سادہ ہو گی، تبدیلی کی رفتار تیز، مقدار کم۔ بڑی زندگی میں تبدیلی آہستہ اور بڑے قدموں کے ساتھ۔
زندگی کی کتاب بیس حروفِ تہجی سے ہے جو کہ امینو ایسڈ ہیں اور پھر ان کی تین ڈائمنشنز میں بنتی ان گنت حالتیں زندگی ہے۔ ان میں سے کچھ حالتیں مستحکم ہیں۔ کچھ ایک دوسرے سے قریب ہیں اور کچھ فاصلے پر۔ اس بدلاؤ کو زندگی کے سرکٹ کی پیچیدگی ممکن بناتی ہے۔ جب ہم الیکٹرانکس میں سرکٹ کو دیکھیں تو ایک ہی سرکٹ کو کئی طریقے سے ماڈل کیا جا سکتا ہے۔ سادہ سرکٹ کا مطلب یہ کہ اگر ایک تبدیلی ہو تو سرکٹ کام کرنا چھوڑ دے گا لیکن پیچیدہ سرکٹ میں ایک تبدیلی کے لئے ریڈنڈنسی موجود ہو گی۔ زندگی کی کتاب کی تبدیلی اس کی پیچیدگی سے ممکن ہوئی ہے۔ تبدیلی کے عمل کی زیادہ تر تبدیلیاں نیوٹرل ہیں یعنی زندگی بھی چلتی رہتی ہے لیکن تغیر مسلسل ہے۔ یہ پیچیدگی تغیر کو ممکن بناتی ہے اور پھر تغیر اس امر کو کہ ارتقائی عمل میں مطلوبہ توازن بھی برقرار رہے اور زندگی اس لائیبریری میں سے پسند کی حالت ایک ایک حرف کو باری باری بدل کر چن سکے۔ یہ لائیبریری کیا ہے، کس طریقے سے زندگی اس سے اپنی حالتیں چنتی ہے، فیس بک کی پوسٹ پر اس سے انصاف ممکن نہیں۔ اس کے لئے مندرجہ ذیل لنک میں دی گئی ویڈیوز دیکھ لیں اور اس مصنف کی کتاب پڑھ لیں۔
ہمارے اپنے ڈی این اے میں سے ستانوے فیصد ایسا ہے جو کوڈنگ ڈی این اے نہیں اور یہ خود ہی نہ صرف زندگی کی تاریخ بتاتا ہے بلکہ یہی زندگی کا وہ طریقہ ہے جس نے پھر آپ کا جھیل میں دیکھا جانے والا منظر ممکن بنایا۔
کمپیوٹیشنل بائیولوجی سے نکلتے اس نتیجے پر چارلس فیفرمین، جو کہ فیلڈ میڈلسٹ ریاضی دان ہیں (یہ ریاضی میں نوبل انعام کے برابر ہے) کا یہ کہنا ہے اور مصنف کی لکھی کتاب کے شروع میں ہے۔
There's something awe-inspiring. You aren't creating. You are discovering what was there all the time and that is much more beautiful than anything that man can create.
جس ویڈیو کا حوالہ دیا، اس کا پہلا حصہ
اس کا دوسرا حصہ
میٹابولزم کی تبدیلی کے حوالے سے پیپر
پیچیدگی ارتقا کو کیسے ممکن بناتی ہے، اس پر
مصنف کی کتاب
Arrival of the Fittest by Andreas Wagner