ضیغم قدیرآج سے آٹھ سے نو ہزار سال پہلے بالغ انسان دودھ ہضم کرنے والے انزائم مکمل طور پہ نہیں رکھتے تھے جس کی وجہ سے وہ جانوروں کا دودھ پی کر بیمار ہوجایا کرتے تھے۔
اس کی وجہ کیا تھی؟
ایک بچہ دودھ کو ہضم کرنے کے لئے لیکٹیز انزائم رکھتا تھا ۔ یہ انزائم دودھ کو ہضم کرانے میں مدد دیتا ہے مگر بالغ ہونے پہ یہ انزائم ان ایکٹو ہو جاتے تھے۔ سو بالغ انسان دودھ ہضم نہیں کر سکتے تھے۔
مگر پھر انسانوں نے جانوروں کو پالنا شروع کیا ، زرعی انقلاب آنے کے بعد انہوں نے جانوروں کے دودھ کو بھی زیر استعمال لانا شروع کر دیا۔ اور اس سے پنیر اور دہی جو کہ کم لیکٹوز رکھتے ہیں وہ کشید کرنا شروع کردیا۔
لیکن کچھ سر پھروں نے کچا دودھ بھی پینا شروع کیا جس کی وجہ سے انسانی جسموں پہ ایک سلیکشن پریشر پیدا ہوا۔
اس مسلسل سینکڑوں سالوں کے پریشر کے نتیجے میں آج سے آٹھ ہزار سال پہلے ترکی کی چراہ گاہوں سے شروع ہونے والے اس ارتقاء نے اب دنیا کی 40% سے زیادہ بالغ آبادی میں دودھ ہضم کرنے کی صلاحیت پیدا کر دی ہے۔ ورنہ اس سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ آج یورپئین اجداد کی تقریبا ساری اولاد دودھ ہضم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
آج سے آٹھ ہزار سال پہلے چند ایک کے علاوہ باقی بالغ انسان دودھ ہضم نہیں کر سکتے تھے۔
آج بھی آدھی سے زیادہ آبادی دودھ پینے پہ ہیضہ کرا بیٹھتی ہے۔
اسکی وجہ یہ ہے کہ ارتقاء ساری آبادی میں ایکدم نہیں بلکہ آہستہ آہستہ ہوتا ہے۔ دو ہزار سے آٹھ ہزار سال کے اس عرصہ میں فقط چالیس فیصد آبادی ہی دودھ کو ہضم کرنے کی صلاحیت کا ارتقاء کرا سکی ہے۔ باقی کے انسان اگلے چند ہزار سالوں میں اس ارتقاء کا شکار ہوکر دودھ سے محظوظ ہونے کی صلاحیت پا سکیں گے۔ اور یہ ارتقاء کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...