بی ایس اردو کے پہلے سمسٹر میں ہمارا ایک سبجیکٹ "اردو زبان تشکیل و ارتقا" بھی ہے. اس میں ہم پڑھتے ہیں کہ اردو زبان میں رائج الوقت الفاظ کس طرح اپنی ہئیت تبدیل کرتے کرتے موجود حالت میں ارتقا پذیر ہوئے ہیں. مثلاً پہلے سے کو سوں یا سیتی پڑھا جاتا تھا اسی طرح مختلف الفاظ مختلف زمانوں بادشاہوں فوجوں اور صوفیوں کے لہجوں کے زیر اثر رہتے رہتے آج ایک نئی اور نکھری ہوئی صورت میں ہمارے زیر گفتار ہیں. یوں تو لفظ ارتقا بھی اپنے پیچھے ایک داستان رکھتا ہے اور موجودہ دور میں جوں ہی یہ لفظ ہماری سماعتوں سے ٹکراتا ہے تو سب سے پہلی جو شبیہ ہمارے دماغ میں بنتی ہے وہ چاچا چارلس رابرٹ ڈارون کی ہے جن کا مشہور زمانہ نظریہ ارتقا زمانہء موجودہ میں ڈسکس کیے جانے والے چند بڑے موضوعات میں شامل ہے. کچھ اہلِ مذہب و مسلک اسکے رد و قبول میں مختلف تاویلات پیش کرتے نظر آتے ہیں یعنی بعض صاحبانِ علم و ہنر اسکا رد قرآن کے حوالے سے کرتے ہیں اور کچھ صاحبانِ کمال اسی نظرئیے کو قرآن ہی کی روشن آیات کی روشنی میں قبول کرتے نظر آتے ہیں. دوسرا طبقہ اُن جدید الخیال حضرات کا ہے جو اپنے حواس خمسہ پر کوری تقلید کا شٹر گرا کر یہ ماننے اور منوانے پر بضد ہیں کہ جو اہلِ سائنس کہہ دیں وہی حرفِ آخر ہے. تاہم سائنس اور مذہب گزیدہ افراد کی بھیڑ بھاڑ میں وہ معدودے چند لوگ کہیں گم سے ہو جاتے ہیں جو ان دونوں طبقات کے زیر اثر رہنے کی بجائے خود سے تحقیق و تدقیق کے بحرِ بےکراں میں کود کر اسرارِ جہاں کی اتھا گہرائیوں سے سچائیوں کے موتی تلاش کرنے پر یقین رکھتے ہیں. وہ ہمیشہ غیر مطمئن رہتے ہیں وہ ہمیشہ کھوج اور جستجو میں رہتے ہیں اور ان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ حتمی رائے کسی معاملے میں اختیار کرنے سے گریز کرتے ہیں. وہ تو بس "ابراہیمی سوال" کرتے ہیں. ان کا ماننا ہے کہ ہمیں خود ہمارا مذہب اور ہماری سائنس اندھی تقلید سے روکتے ہیں اور ہمیں جستجو کی بنیادی تحریک بھی مذہب کی تعلیمات اور سائنس کی تحقیقات سے ہی ملتی ہے. وہ اگر راہ راست سے بھٹک بھی جائیں تو انکے لئے یہ عذر کیا کم ہے کہ آئے خدا ہم تو تیری دنیا میں تیری سچائیوں ہی کی کھوج میں سرگرداں رہے اور خود کو اندھے مقلدین سے دور رکھا جیسا کہ تو چاہتا تھا…..!
خیر…! سنجیدہ باتیں ایک طرف، اپنی بات کروں تو باقی جو بات ہے سو ہے لیکن الفاظ کے ارتقا پر مجھے اس وقت یقینِ کامل نصیب ہوا جب گزشتہ روز دوران سفر میری سیٹ حسب سابق حضرت خادم حسین رضوی صاحب کے ایک مریدِ خاص کے ساتھ آ گئی. صاحب سے کچھ تعارف ہوا اور انہیں جب پتا چلا کہ میں اردو ادب کا طالب علم ہوں تو حضرت نے مجھ سے خالص اردو میں گفتگو شروع کر دی. حضرت جی تھوڑی ہی دیر میں دوران گفتگو مختلف محاورات تشبیہات اور استعاروں کا استعمال فراوانی سے کر کے مجھے تقریباً مرعوب فرما چکے تھے. اس دوران اپنی عمومی روایات سے ہٹ کر بغیر گالی دیئے عمران خان کو یہودی ایجنٹ ثابت کرنے کیلئے طویل خطبات ارشاد فرماتے رہے اور میں ازراہ مروت اثبات میں سر ہلا ہلا کر انکے ارشادات کی حقانیت پر مہر تصدیق ثبت کرتا گیا. رات کی تاریکی میں حضرت کے خطبات کے باعث انکی سانسوں سے اٹھنے والے بخارات کھڑکی کے شیشوں کو مکمّل طور پر دھندلا کر چکے تھے. طویل خطابت کے بعد جب انہوں نے بس میں ریوڑی بیچنے والے سے ریوڑی خریدنے کیلئے خطاب میں کچھ توقف اختیار کیا تو میں نے موضوع بدلنے کیلئے بس کا دھندلہ شیشہ صاف کرتے ہوئے پوچھا "قبلہ آپکا سٹاپ ابھی کتنا دور ہے؟ حضرت نے ریوڑی کے دو دانے میری طرف بڑھاتے ہوئے خالص اردوانہ لہجے میں محاورہ پھینکا:
بیٹا ہنوز ''دَلی'' دور است…!