آج – 30/اکتوبر 2015
استاد الشعراء ” ارشادؔ جالندھری صاحب “ کا یومِ وفات…
خاک تیری درد مندی خاک تیرا یہ خلوص
تونے گر مجھے سراہا میرے مرجانے کے بعد
—
ارشاد جالندھری پسرام پور ضلع جالندھر 1945 ء میں پیدا ہوئے، نام ارشاد علی رکھا گیا ۔بعد میں اپنے نام کے ساتھ جالندھری لکھنے لگے ۔دو سال کی عمر تھی جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو لاکھوں لٹے پٹے مہاجروں کے ساتھ اس کے والدین بھی ہجرت کر کے پاکستان کبیر والا ضلع خانیوال کے ایک قصبہ نڑھال میں آ گئے ۔ارشاد جالندھری نے بچپن اور جوانی کے ایام وہاں ہی گزارے ۔صرف مڈل تک تعلیم حاصل کی اس کے بعد سکول چھوڑ دیا ۔آپ کا شاعری کا شوق چرایا تو ڈاکٹر بیدل حیدری کی شاگردی کی ۔ارشاد جالندھری نے ایک شعراپنے استاد کی نظر کیا۔
ڈگمگاتی پھر رہی تھی حسرتوں کی نائو بھی
مل گئے ہیں آپ تو مجھ کو کنارا مل گیا
انہوں نے اس قدر شعری مشق کی کہ بیدل حیدری کو جالندھری صاحب پہ ناز ہونے لگا ۔ انہوں نے پان سگریٹ کی دکان کی ،مگر وہ اتنی دیر چل نہ سکی ۔سارا دن ادبی دوستوں کا دکان پر تانا بندھا رہتا تھا ۔غربت انہیں شکست نہ دی سکی چہرے سے مسکراہٹ نہ چھین سکی۔ وہ خود ہی کہتے ہیں۔
اس سے بڑھ کر خوشی نصیبی اور ہوگی کیا بھلا
ہوگئی ہے دوستی جو گردش ایام سے
کاروان ادب کسووال کے سرپرست اعلی اور صدر کی حیثیت سے استاد ارشاد جالندھری نے پورے پاکستان میں اپنے آپ کو منوایا۔
میرے مجروح سینے پر تشدد کے نشانوں کو
زمانہ دیکھنے آیا نیتجہ کچھ نہیں نکلا
وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
بڑا اس دل کو سمجھایا نیتجہ کچھ نہیں نکلا
دوسری طرف مالی حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے ۔پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ،ایک بیٹی گلشن کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں جن کے آپ واحد کفیل تھے ۔دکھ کی بات یہ ہے کہ آپ کا بیٹا بیمار ہوگیا ،آپ اس کا علاج نہ کروا سکے اور واحد سہارا بھی خالق حقیقی سے جا ملا ،بیٹے کی وفات کے بعد آپ غموں کے پہاڑ تلے دب گئے ۔چہرے سے رونق ختم ہو گئی ،اداسی نے ڈیرے ڈال دئیے ۔لیکن وہ ہمیشہ کی طرح کہتے رہے۔
—
چشمِ تر سے آنسوؤں نے رواں ہونا ہی تھا
آخر اس چشمے نے اک دن بیکراں ہونا ہی تھا
دو قدم ہی چل کے دھوکا دے گیا ہم سفر
راہِ منزل نے بھی تو پھر بے نشاں ہونا ہی تھا
کر لیا جب خود غرض لوگوں پہ اندھا اعتماد
پھر مِری قربانیوں نے رائیگاں ہونا ہی تھا
خود ہی میری خوبیوں کو خامیوں میں ڈھال کر
اس بہانے اس نے مجھ سے بدگماں ہونا ہی تھا
وقت کی مجبوریوں نے جب زباں کھلنے نہ دی
حالِ دل نمناک آنکھوں سے عیاں ہونا ہی تھا
یاس و رنج و غم عطا ہوتے نہ کیوں ارشادؔ کو
اس نے میری بے بسی پر مہرباں ہونا ہی تھا
—
ہر درد کی ٹیسوں کو میں نے سینے میں چھپانا سیکھ لیا
چہرے پہ مرے ان ٹیسوں کے احساس کی بھی تحریر نہیں
جنھیں ہم روگ سمجھے تھے وہی مشکل میں کام آئے
دکھوں نے میرے دکھ بانٹے غموں نے غمگساری کی
—
وہ بھی اب پچھتارہے ہیں مجھ کو ٹھکرانے کے بعد
میں کچھ سنبھلا ہوا ہوں ٹھوکریں کھانے کے بعد
خاک تیری درد مندی خاک تیرا یہ خلوص
تونے گر مجھے سراہا میرے مرجانے کے بعد
—
ارشاد جالندھری دل کے عارضہ میں مبتلا تھے اور30اکتوبر2015ء کو کسمپرسی کی حالت میں 70 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔
—
کچھ بول میر کارواں
جب لٹ رہا ہو گلستاں
جب جل رہے ہوآشیاں
جب گر رہی ہو بجلیاں
جب ہو فضائوں میں دھواں
جب شہر ہو آتش فشاں
جب لٹ جائے کون ومکاں
کچھ بول میر کارواں
ہم ہو رہے ہیں بد گماں
ارشادؔ جالندھری
المرسل : اعجاز زیڈ ایچ