ساسانی عہد تک ایرانیوں میں کوئی خاص علمی آثار نہیں پائے گئے ہیں۔ اسلامی عہد ایران کے لیے رحمت ثابت ہوا اور ان کے ذہنوں میں جمود کو ختم ہوگیا اور انہوں نے وہ دماغی کارنامے انجام دیے کہ لوگوں کو دھوکا ہوا کہ یہ ان کی صدیوں کی مشق کا نتیجہ ہے۔ عہد اسلامی میں ایرانیوں کو اپنے علمی کارناموں کو ناز ہونا چاہیے۔ مگر وہ اس کے برعکس وہ افسانوی عہد یعنی کیانی و ساسانی اور جمشید اور درفش کادیانی کے افسانوں پر پر ناز کرتے ہیں۔ عہد اسلام میں ان کے کارناموں میں ایک شاعری بھی ہے۔ جس کا اسلام سے پہلے دور دور تک پتہ نہیں تھا آج ہم اسی پر بحث کریں گے۔
دولت شاہ سمرقندی نے قدیم شاعری کے کچھ نمونے ثبوت میں پیش کیے ہیں وہ یہ ہیں۔
(۱) بہرام گور (متوفی 440ء) جس نے عربوں میں تربیت پائی اور عربی میں شہر کہتا تھا اور فارسی عروض کا بانی ہے۔ ایک دفعہ شیر کا شکار کیا تو فخرانہ یہ مصرعہ کہا
منم آں پیل دمان و منم آن شیر یلہ
دلارام اس کی محبوبہ نے برجستہ یہ مصرعہ لگایا
نام بہرام تراؤ پدرت بوحیلہ
عوفی نے دونوں مصرے بہرام گور سے منصوب کیے ہیں اور دوسرا مصرعہ یوں لکھتا ہے۔
نام من بہرام گور کنتم بوجبلہ
ثالبی نے ابن خراؤبہ سے یہ شعر یوں نقل کیا ہے
منم آں شیر شلہ منم آں بہریلہ
منم آں بہرام گور منم آں بوجبلہ
(۲) قصر شیریں کی دیوار پر عہد خسرو پرویز (متوفی 600ء) کا یہ شعر کندہ پایا گیا جو عضدالدولہ ویلمی کے عہد تک موجود تھا۔
ہژبربگیہاں انوشہ پذی
جہاں رابدیدار توشہ پذی
اس شعر کا دوسرا مصرعہ شاہنامہ میں موجود ہے، کیا فردوسی نے یہ مصرعہ قصر شیریں سے نقل کیا؟
(۳) پہلی صدی ہجری میں ابو حفص حکیم سغدی کا یہ شعر نقل کیا گیا ہے۔
آہو کوہی دردشت چگونہ رودا
اوندارد یار بے یار چگونہ بودا
یورپین ان دعوں کو شک کی نگا سے دیکھتے ہیں۔ مگر یہ دعوی مشتبہ ہے کیوں کہ یہ اشعار کسی نو آشنا کی نہیں لگتے ہیں۔
(۴) 192ھ میں عباسی خلیفہ المامون الرشید مرو میں داخل ہوا تو بقول عوفی عباس ایک خواجہ زادہ نے اس کی خدمت می ایک قصیدہ پیش کیا تھا۔
لیکن فارسی زبان عہد غزنوی تک قصیدہ سے آشنا نہیں ہوئی تھی اور اس طرح کی بندش تو ایک صدی کے بعد بھی فارسی کلام میں نظر آتی ہے۔ اس لیے روسی مستشرق کازیمرسکی اور پروفیسر براؤن ان اشعاروں کو مشبہ بتاتے ہیں۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے عربی قصیدے کی پیروی میں کچھ اشعار نظم کیے ہوں گے، مگر بندش کی چستی اور صفائی تو ایسی نہیں بلکہ کچھ اور ہوگی۔ کیوں کہ عوفی نے لکھا کہ امیر المومنین نے اسے انعام میں ایک ہزار دینار دیے تھے جس کی وجہ سے ہر شخص فارسی میں شعر گوئی کی کوشش کرنے لگا تھا۔
شبلی نعمانی کا کہنا ہے کہ پہلے پہل ایرانی شعراء نے عربی شاعری کو سامنے رکھ کر شعر کہنے کی کوشش کرتے تھے اور عربی اشعار کا لفظی ترجمہ کرتے تھے۔ آج بھی بہت سے فارسی قطعے، قصیدے ایسے ملتے ہیں جسے عام لوگ ایران کا سرمایا سمجھتے ہیں۔ لیکن وہ حقیقت میں عربی اشعار کے ترجمے ہیں۔ سیف الدولہ کے مشہور قطعہ جس میں قوس قزح کی تشبیہ ہے وہ ابوانواس کے مشہور قطعہ کا ترجمہ ہے۔ اس طرح اسدی، عنصری، کسائی، غفاری کے بہت سے مضامین قطعاً عرب کے مضامین ہیں اور لوگوں کو چونکہ لوگ عرب کے کلام سے واقف نہیں تھے اس لیے انہیں سرقہ یا ترجمہ خیال نہیں کرتے تھے۔ مولانا نے اس طرح کی سرقوں کی بہت سی مثالیں دیں ہیں۔ جس میں مضامین، طرز سخن، تشبہات، استعارت یہاں تک قوافی میں جاہلی قصائد کی پوری پوری نقالی کی ہے۔ ان میں منوچہری، دامغانی اور عمق بخاری نے اپنے قصیدے اس کی مثال ہیں۔
تہذیب و تر تیب
(عبدالمعین انصاری)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...