ایک بڑی حقیقت ہے ایران اپنے ہر دور میں سامی تہذیب کے زیر اثر رہا ہے بعد ازاں اسلام کے بعد عرب و اسلام کے زیر اثر آگیا اور پروفیسر براؤن کا بھی یہ کہنا ہے۔ قدیم ایرانی کتبوں اور سکوں میں ارامی زبان و تحریر استعمال ہوتی تھی اور یہ زبان سرکاری دستاویزات میں بھی استعمال ہوتی تھی۔ جیسا کہ پروفیسر نویدیکی کا کہنا ہے کہ مشرق میں وادی فرات اور اس کے گرد و نواح ارمنی اور کروی پہاڑی علاقوں میں اور دجلہ کے جنوب و مغرب اور صوبہ اساسیس میں جہاں اشکانی اور ساسانی بادشاہوں کا دارلحکومت تھا آرامی زبان کا علاقہ تھا۔ ایرانی تحریروں میں آرامی میخی رسم الخط استعمال کرتے تھے اور ایرانیوں کے ہخامنشی سے یہ خط استعمال ہوتا رہا ہے۔ اکثر کتبے کئی زبانوں میں لکھے گئے اور ان میں ایک آرامی زبان ضرور ہوتی تھی۔ ارد شیر سوم (م 338ء) کے کتبے میں پہلوی ملتی ہے مگر سخت ناقص انداز میں لکھے گئے ہیں۔ یوں لگتا ہے یہ زبان کے کئی لہجے تھے اور انہیں سمجھنے میں اور لکھنے میں دشواری پیش آتی تھی۔ کیوں کہ پورے ملک میں ارامی زبان تجارت اور دستاویزات میں استعمال ہوتی تھی اور اسی زبان میں سکے بھی ڈھالے جاتے تھے۔
بقول پروفیسر براؤن کے پہلوی رسم الخط کو قدیم کتابوں سے نقل کی جاتی تھیں رفتہ رفتہ ان کی شکلیں اتنی بگڑ گئیں تھیں کہ مختلف حروف ہم شکل ہوگئے اور ایک حروف سے کئی آوازیں ادا کی جاتی تھیں۔ مثلاً ایک حروف سے چار آوازیں ز، د، گ اور ے کی آوازیں ادا کی جاتی تھیں۔
ایرانیوں کا کہنا ہے یہ سکندر اور مسلمانوں کے حملے میں اوستا اور ان کتب ضائع ہوگئی اور اسکندر انہیں اٹھاکر اسکندریہ لے گیا تھا اس لیے ایران علم سے خالی ہوگیا۔ ایرانی علم و فنون سے دلچپی نہیں رکھتے تھے اور ہمیں پانسو سال تک کوئی فارسی کتبہ یا علمی کتاب نظر نہیں آتی ہے۔ بقول پروفیسر ایتھے کے 164 ق م تک یونانی تہذیب و تمذن کا اثر ایران سے مٹ چکا تھا۔ جب کہ سیاسی اثر تو اس سے پہلے 139 ق م میں اشکانی فرمان روا فرہاد دوم کے ہاتھوں ڈیمٹرس دوم کی شکست کے ساتھ ختم ہوگیا تھا۔ اس دور میں جب اوستا ان کی سمجھ میں نہیں آئی تو انہوں نے موبدوں سے پہلوی میں تفسیر لکھائی۔ جس زبان میں ژند لکھی گئی وہ عجیب و غریب زبان تھی جس کو لکھتے کچھ اور پڑھتے کچھ تھے۔ اس تحریر میں بشتر ارامی الفاظ ملتے تھے۔ بقول ابن المقفع کے پہلوی میں ایک ہزار سے زیادہ الفاظ تھے۔ نقش رستم میں اردشیر بابکان کے کتبہ میں درج ہے دو زبانوں پہلوی اور آرامی میں درج ہے اور۔
پنکری زنا مزد یسن بگی ارتخشر ملکان ملکا ایران منوچتری من برتان یراپاپکی ملکا
اس کا ترجمہ یوں ہے
شبیہ اس مزدا پرست دیوتا اردشیر شاہنشاہ ایران دیوتاؤں کی اولاد شاہ پاپک کے بیٹے کی
یہ آرامی رسم الخط میں ہیں۔ اس جملے میں زنا کو آن، ملکان ملکا کو شہنشاہ، من کو از، برا کو اولاد اور ملکا کو شاہ مراد ہے۔ اس طرح گوشت لکھنا ہوتا تو بسرا اور پڑھتے گوشت، لحمیا کو نان پڑھتے تھے۔
ابن المقفع (۹۳۱ھ) جو مجوسی سے مسلمان ہوا تھا اور پہلوی کا بہت بڑا عالم تھا اور بہت سی کتابیں پہلوی سے عربی میں ترجمہ کیں اس کا کہنا تھا ایران میں پانچ مختلف زبانیں اور سات رسم الخط مروج تھے اور ہر طبقہ کی زبانیں اور علحیدہ تھیں جس کی تفصیل ابن ندیم نے الفہرست میں درج کی ہے۔ یہی وجہ ہے ایران میں علمی سرگرمیاں بڑھ نہیں پائیں۔ اس ناقص تحریر کی دشواریوں کو خود ساسانی عہد محسوس کیا گیا اور اس لیے ژند کا ترجمہ پاژند کی صورت میں کرنا پڑا۔ اس لیے ایران کے ساسانی کتبوں میں پہلوی متن کے علاوہ کئی اور زبانوں مثلاً آرامی اور یونانی میں ترجمہ ہوتا تھا۔
اس کے علاوہ پہلوی بھی دو طرح کی تھیں۔ ایک ساسانی پہلوی جو ایران کے جنوب مغرب فارس میں بولی جاتی تھی اور ساسانیوں کے زمانے کی سرکاری زبان تھی۔ دوسری وہ ساسانی پہلوی کے ساتھ ساسانی کے ابتدائی بادشاہوں کے بعض کتبوں میں پائی گئی۔ اسے شروع میں کلدانی پہلوی اور بعد میں اشکانی پہلوی کا نام دیا گیا۔ یہ دونوں کا رسم الخط آرامی سے ماخوذ تھا لیکن ان کی شکلیں الگ تھیں۔ پہلوی ابجد کے بہت سے حروف کئی طرح سے پڑھے جاتے تھے، جس کی وجہ سے پڑھنے میں بہت غلطیاں ہوجاتی تھیں اس کے علاوہ سے الفاظ آرامی زبان میں لکھ کر انہیں پہلوی میں پڑھا جاتا تھا۔ پھر فعل کے مختلف جزو میں الفاظ کا آخری جزو پہلوی کے مطابق ہوتا تھا۔ چینی ترکستان میں ترخان کے علاقہ میں مانوی کتابیں ایک سریانی رسم الخط اسٹرنگو Esranghelo کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں آرامی نہیں ہے اور خالص ایران شکل میں لکھی گئی ہے۔ اسے اشکانوی پہلوی کا نام دیا گیا۔
حقیقت میں اہل ایران نے آرامی رسم الخط سیکھ کر اس کے معنی اپنی زبان میں سیکھ لیے۔ یعنی وہ لکھتے آرامی زبان اور اس کے مترادف اپنی زبان میں ہوتے تھے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے اتنا مشکل رسم الخط میں علمی سرگرمیاں کیسے آگے بڑھ سکتی تھیں۔ لیکن اس کے علاوہ پہلوی گرامر اور آرامی گرامر میں فرق تھا۔ اس لیے مزید پیچیدیگیاں بڑھ گئیں تھیں۔ اس کا قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ وہ آرامی لٹریچر سے بھی کچھ حاصل نہیں کرسکے۔ سکندر اعظم کے حملے کے بعد وہ پانسو سال تک کسی ایرانی علمی تحریر نشان تک نہیں ملتا ہے جو کہ ان کے رسم الخط اور زبان کے تحریر کے نقص کا نتیجہ تھا۔ پروفیسر براؤن کا نے لکھا ہے کہ ہخامنشیوں کے پرانے کتبوں کے مطالعہ سے ایک عجیب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا زبان کے زوال کو قوم کے زوال سے کوئی واسطہ ہے۔ کیوں کہ قدیم پارسی زبان کا حال کچھ ایسا تھا کہ کتبوں کی تحریروں میں صیغوں تک میں غلطیاں پائی گئیں ہیں۔
تہذیب و تر تیب
(عبدالمعین انصاری)
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...