ایرانی مذاہب (دوسرا حصہ)
دین زرتشت
تعلیمات
تعلیمات زرتشتی دین کو مزدیسز بھی کہتے ہیں ۔ یہ اوستائی کلمہ ہے اور دوالفاظ مزدہ یعنی دانا اور یسنا یعنی حمد وستائش کے ہیں اور یہ کلمہ اوستا میں بار بار آیا ہے ۔ زرتشت کا فلسفہ شر ہے ، مگر حقیقتاً یہ فلسفہ اضداد ہے ۔ یہ بہت دقیق ہے زرتشت نے اہورا مزدہ کیصفات کے بعد یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اہورا کی ایجابی صفات اس کی سلبی صفات سے متصادم ہیں ۔ واضع الفاظ میں اس کی نورانیت تاریکی سے ، حقانیت کذب سے ، ملکیت عجر سے ، قدوسیت نجات سے ، سا لمیت شگتگی سے اور ابدیت عارفیت کے مدمقابل ہیں ۔ یہ کشمکش ایک ہی ذات کی ایجابی اور سلبی سفات کے اندر جاری ہے ۔ زرتشت نے یہ وضاحت نہیں کی کہ یہ کشمکش بلا ارادہ یا اہورا کے ارادے کے مطابق ہے ۔ شاید کے نزدیک یہ تصادم بلا ارادہ ہے اور اسی کے اندر کائنات کے وجود انسان کی حیات و ممات اور خیر و شر کے اسرار پوشیدہ ہیں ۔ انسان کی دو متعضات کفیت و حالات کے اندر رکھ کر اس سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اہورا کی حفاظت کی طرف قدم بڑھائے ۔
زرتشت کے مطابق کائمات کا ایک خدا ہے ، جس کا ذاتی نام اہورا ہے ۔ چونکہ یہ بری عظمت والا ہے ، اس لئے اسے اہورا مزدہ یعنی خدائے متعان یا دانا سرور کہنا چاہیے ، ارواح مجرد اور فرشتگان اس کی مخلوق ہیں ، وہ قادر و علیم ہے ، وہ خیر کا چشمہ ہے ، وہ تقوایٰ اور پاکیزگی راستی اور سخاوت کا منشاء اور معدد ہے ۔ اہورا کی ہر صفت کے ساتھ یزدان وابستہ ہیں ۔ یہ اہورا کی مخصوص صفت جس سے یزدان وابستہ ہیں پھیلاتے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں تاریکی دور کر تے ہیں ۔ جبکہ یزدان کے مد مقابل ہرمن کے ساتھی ہیں جو دیوا کہلاتے ہیں ۔
زرتشتی تعلیمات کے دو پہلو ایجابی اور سلبی بتائے گئے ہیں ۔ نیز یزدان ( ملائکہ ) کے مقابلے میں دیوا ( ارواح خبیثہ ) کا ذکر کیا گیاہے ، مگر زرتشت کے متعین ایک ہی ذات واحد پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ، بلکہ ثنویت یعنی دو خداؤں کے قائل تھے ۔ ان کے عقیدے کے مطابق اہورا ہرمن دو ازلی ہستیاں ہیں ۔ ایک خیر کا منشاد اور مصدر ہے اور دوسرا شر کا ۔ نیز تمان اشاسہندان ( صفتیں ) اہورا سے علحیدہ اور مستقل ہستیاں ہیں ، ان کی ارواح مجر یا فرشتگان مقرب کی ہے اور یہ یزدان سے بلند مرتبے کی ہیں ۔ نیز اہورا ان کا محتاج ہے اور ان کی مدد سے وہ اہریمن اور اس کے کماریکان و دیوائے کے خلاف جنگ کرتا ہے ۔ نیز یہ جنگ بلا قصد ہے اور اس میں اہورا کے ارادے کا کوئی دخل نہیں ہے ، دوسرے الفاظ میں ثوین کشمکش لازمی ہے اور اس کا سلسلہ لامتناہی ہے ۔ آخر اہورا کو اہریمن پر مکمل فتح ہو جائے گی اور وہی قیامت کا دن ہوگا ۔
زرتشت کے ماننے والے مذکوۃ ہستیوں کو الوہیت کا درجہ دیتے ہیں اور انہیں قابل پرستش سمجھتے ہیں ۔ پرستش کے لئے آتش پرستی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔ چونکہ آتش سراسر نور ہے اور اہورا کی صفت اول کا مظہر ہے ۔ یہی وجہ ہے زرتشتیوں کو آتش پرست بھی کہتے ہیں ۔ ان کا قبلہ بھی آتش ہے اور آتش کو ہمیشہ روشن رکھنا فرض اولین میں داخل ہے ۔
زرتشتی تعلیمات میں حیات بعد الموت ، آخرت ، جہنم ، بہشت کے مطلق عقیدے بھی پائے جاتے ہیں ۔ اخلاقی تعلیمات میں زرتشت کے پندرار نیک ، گن نیک اور طہارت و پاک دامنی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔ سود خوری منع اور چھوٹ و وعدہ خلافی سخت گناہ قرار دیا ہے ، کسب معاش پر زور دیا ہے ۔کاشتکاری کو بہترین پیشہ قرار دیا ہے ۔ تجرد کی زندگی سے نفرت اور تاہل کی زندگی کو پسند کیا گیا ہے ۔ سخاوت و امداد سلوک کا بہترین اعمال میں شمار کیا جاتا ہے ۔
زرتشتی تعلیمات میں عناصر کو پاک رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ اس وجہ سے اس دین کے ماننے والے لاشوں کو دفن کرنے یا جلانے کے بجائے کسی بلند مقامات پر ڈال دیتے ہیں کہ شکاری پرندے کھا جائیں ۔
فرقے
دوسرے ادیان کی طرح زرتشتی اوائل ہیمیں تین فرقوں میں بٹ گئے ۔ شہرستانی نے اپنی کتاب المل و انحل میں ان کے تین فرقوں کا تذکرہ کیا ہے جو حسب ذیل ہیں
( ۱ ) زرتشیتان راسخ ۔یہ فرقہ جس نے اپنے خیال میں دین میں کسی بدت کو جاری نہیں کیا ہے بلکہ سختی کے ساتھ زرتشتی شتیعت پر قائم ہے ۔
( ۲ ) زرؤانیان ۔اس فرقہ کا عقیدہ ہے کہ اہورا اور اہریمن سے بال تر ایک ہستی ہے ، جس کا نام زروان یعنی لامتناہی ہے ۔ اس لئے وہ زروان ہی کو رب اعلیٰ مانتے ہیں ۔
( ۳ ) گیومرثیان ۔ یہ فرقہ بھی توحید کا قائل ہے اور صرف اہورا کو ہی اذلی و ابدی مانتا ہے اور اہریمن کی قدامت پر یقین نہیں رکھتا ہے بلکہ اس کو اہورا کی مخلوق سمجھتا ہے ۔
دین زرتشت کی توسیع
زرتشتی مزہب کو ایران کی سرزمین میں خاطر خواہ مقبولیت حاصل ہوئی ۔ یقین سے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ہخامنشی فرمانروا اس مذہب کے ماننے والے تھے ۔ اشکانی مذہب کی تفصیل معلوم نہیں ہو سکی ۔ مگر کچھ ایسے شواہد ملے ہیں کہ وہ اپنے قدیم مذہب پر اردان دوم کے عہد تک قائم تھے ۔ بلاش اول کے دور میں یہ سرکاری مذہب بنا نیز اوستاکی تدوین ہوئی اور اس کی تفسیر لکھی گئی ۔ ساسانی عہد میں باضابطہ زرتشتی کو شاہی مذہب کو تسلیم کرلیا گیا اور اس کی اشاعت و تبلیغ کی طرف توجہ دی گئی ۔ اردشیر اربکان کے عہد میں اوستا اور ژند کی تدوین ہوئی اور آتش کدہ تعمیر کیا گیا ۔ دوسرے ساسانی بادشاہوں نے بھی مختلف شہروں میں بڑے بڑے آتش کدے بنوائے اور ان کے اخراجات کے لئے جاگیریں وقف کیں ۔ ساسانی آخیر تک دین زرتشتی کو سرکاری حثیت حاصل رہی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔