ایرانی مذاہب (پہلا حصہ)
دین زرتشت
زرتشت
زرتشت کے سال پیدائش و حالات میں سخت اختلاف ہے ۔ کسی نے چھ ہزار سال ، کسی نے دوہزار سال مسیح بتایا ہے ۔ زمانہ حال کے علماء کی تحقیق کے مطابق ۶۶۰ ق م میں ہوئی تھی ۔ اس طرح زرتشت کی جائے پیدائش میں بھی اختلاف ہے ۔ اکثر روایات میں باخترکو مولد بتایا ہے ۔ طبری اور ابن کثیر نے فلسطین بتایا ہے ۔ مگر دوسرے مسلم مورخین اور جدید محققین اردمیہ آذربئیجان کو جائے پیدائش بتاتے ہیں ۔
اوستا میں زرتشت کے نام کے ساتھ اسپی تمہ آیا ہے ۔ جس کے معنی سپید کے ہیں ۔ یہ کلمہ غالباً زرتشت کی خاندانی نسبت کو ظاہر کرتا ہے اس لئے زرتشت کے خاندان سیتپمان کہا گیا ہے ۔ والد کا نام پورشسپ یا پوروشاسپ بتایا گیا ہے ۔ زرتشت نے تین شادیاں کیں اور اولاد میں تین لڑکے اور تین لڑکیاں بتائی جاتی ہیں ۔
زرتشت کے حالات زندگی تحقیقاً نہیں معلوم ہیں ۔ عام روایات میں بیس سال کی عمر میں گوشہ نشین ہوگئے اور عبادت میں مشغول رہے اور تیس سال کی عمر میں نبوت ملی پھر اپنے دین کی تبلغ میں کوشاں رہے ۔ مختلف آبادیوں کی طرف گئے مگر ہر طرف ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ اور ایک شخص بھی زرتشت پر ایمان نہیں لایا ۔ آخر نبوت کے بارویں سال باختر کے حکمران وشتاسب یا گشتاسب نے زرتشتی مذہب قبول کرلیا اور اس کے ساتھ اس کے وزیر جاماسپ اور اس کے بھائی فراششترنے رسالت کی تصدیق کی ۔ اس کے بعد زرتشتی دین تیزی سے ایران و توران میں پھیل گیا ۔ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ سنتالیس سال تک تبلیغ کرتے رہے اور اس سلسلے میں آپ کو جنگیں بھی لڑنی پڑھیں ۔ ایک جنگ میں توران کے بادشاہ ارجاسب نے باختر پر حملہ کرکے ایرانیوں کو شکست دے کر آتشکدہ میں داخل ہوکر زرتشت اور اس کے متعقدین کو قتل کردیا ، قتل کے وقت زرتشت کی عمر ستر سال بتائی جاتی ہے ۔
اوستا
اوستا جو دین زرتشتی کے مطابق زرتشت پر نازل ہوئی تھی ۔ اسے ایستاغ ، ایستاق یا الپتاک بھی کہتے ہیں ۔ دوسری قدیم کتب کی طرح یہ بھی زمانے کی دستبرو سے بچ نہیں سکی ، اس لئے یہ بتانا مشکل ہے کہ اس میں کتنی تخریبیں اور کتنا اضافہ و حذف ہوا ہے ۔ بہر کیف آج جو بھی زرتشت کی تعلیمات ہیں وہ اسی اوستاسے ماخوذ ہیں اور اسی کے ذریعہ زرتشتی مذہب کے بارے میں کوئی رائے قائم کی جاسکتی ہے ۔ اوستاکا ایک مختصر ساحصہ گاتھا کہلاتا ہے اور اس کی زبان دوسرے حصوں سے مختلف ہے ۔ شاید اس کی زبان وہی ہے جو زرتشت کی ہے ۔ بقیہ کی زبان اوستا ہے ۔ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ اوستا کا اصل نسخہ ہخامنشی خاندان کے زمانے زمانے میں برباد ہوگیا تھا ۔ پھر تقریباً چارسو سال کے بعد اشکانی بادشاہ بلاش اول کے دور میں اس کی تدوین ثانی کی کوشش کی گئی ۔ مگر تکمیل ساسانی بادشاہ ارد شیر اربکان کے زمانے میں ہوئی ۔ غالباً گاتھاکے علاوہ بقیہ حصہ کی تصنیف محض حافظہ پر اعتماد کیا گیا ۔
زرتشتی روایات کے مطابق قدیم اوستا ایک ہزار باب اور اکیس نسکوں ( صیحفوں ) پر مشتمل تھی ۔ تدوین ثانی کے وقت اس کے کل ۳۴۸ ابواب دستیاب ہوئے ، ان کو اکیس صیحفوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ جدید محقیقین کا کہنا ہے یہ دوسرا نسخہ بھی باقی نہ رہا ۔ ساسانی نسخہ میں کل تین لاکھ کلمات تھے ، مگر موجودہ اوستا میں کل تین لاکھ کلمات ہیں ۔ اس طرح دوسرے نسخہ کا بھی چوتھاْئی حصہ باقی بچا ہے ۔ اس موجودہ اوستا کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ ( ۱ ) یسن ( ۲ ) ویسپیرد یا ویسپرت ( ۳ ) وندیداد ( ۴ ) یشت ۔ یہ مناجاتوں یا مذہبی ترانوں اور دوسرے خرافاتوں مثلاً زمین و کائنات کی تخلیق ، جمشید کی داستان ، ارواح خبیث بچنے کے طریقہ ، کفارہ ، توبہ اور تزکیہ نفس پر مشتمل ہے ۔
اوستا خرد
مذکورہ چار حصوں کے علاوہ ایک مختصر سا حصہ بطور ضمیہ بھی اوستا میں شامل ہے ۔ جس کو اوستا خرد کہتے ہیں ۔ اس کو آذربد مہرا سپند نے جو ایک موید مویدان تھا ، شاپور کے عہد میں مدون کیا تھا ۔ اس کے مضوعات مذکورہ بالا کی طرح ہیں ۔
ژند و پاژند
اوستاکے بعد دو اور کتابیں ہیں ، جو ژند اور پاژند کے ناموں سے مشہور ہیں ۔ ژند حقیقتاً اوستا کی پہلوی تفسیریں ہیں ۔ مگر اصل کتاب کے ساتھ اس حد تک خلط ملط ہوگئیں ہیں کہ عام طور پر اس کو اوستا کا حصہ سمجھا جاتا ہے اور لوگ اوستاکو ژند اوستا کہنے لگے ۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ژند کی تصنیف اشکانی بادشاہ بلاش کے عہد میں ہوئی تھی اور اس کو اصل کتاب میں شامل کردیا گیا ۔ یعنی اوستائی عبارت کے ساتھ اس کی تفسیر و ترجمہ بھی درج کردیئے گئے ۔ مگر اشکانی عہد کی تفسیر باقی نہیں رہی ہے ۔ موجودہ ژند ساسانی عہد کی تدوین ہے ۔ پاژند یا پانیتی ازنیتی ژندکی تفسیر ہے اس کی زبان پہلوی کہتے ہیں ، مگر حقیقتاً پہلوی اور فارسی کے درمیان کی زبان ہے ۔ (جاری ہے)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔