ایرانی مذاہب
مانویت
ایرانی مذاہب میں زرتشت کے بعد جس مذہب نے مقبولیت حاصل کی وہ مانی تھا ۔ اس مذہب کی تبلیغ ترکستان ، شمالی افریقہ ،یورپ میں پھیلاْ یہ ایران و عراق سے مشرق کی جانب افغانستان ، ترکستان و چین تک پھیلا ۔ جب کہ یہ مغرب میں شام و مصر سے ہوتا ہوا قرطاجنہ و مراکش پہنچا ، پھر وہاں سے اسپین ، اطالیہ اور فرانس میں داخل ہوا اور اپنے بنیادی فلسفے نور و ظمت یا خیر و شر سے اس نے مشرق و مغرب کے تمام ادیان کو متاثر کیا ۔
مانی
مانی مذہب اپنے بانی کی نسبت سے مانی کہلاتا تھا ۔ یہ ۲۱۵ء میں بابل کے قریب پیدا ہوا تھا ۔ بارہ برس کی عمر میں اس پر فرشتہ ’ تو ‘ کا نزول ہوا اور اس کے بعد مسلسل وحی آنے لگی اور چوبیس سال کی عمر میں اسے رسالت اور وحی کا حکم ملا ، چنانچہ شاپور اول کی تجپوشی کے دن اس نے اپنی نبوت کا اعلان کیا اور لوگوں کو اس نئے دین کی طرف بلایا ۔ شاہزادوں میں سب سے پہلے شاپور کے بھائی فیروزنے اس کی دعوت پر لبیک کہا اور غالباً اس کی وساطت سے مانی کی رسائی دربار میں ہوئی اور شاپور بھی اس سے متاثر ہوا اور اس نئے دین کو قبول کرنے کا اعلان کیا ۔ شاہی سرپرستی کی وجہ سے یہ دین ایران میں تیزی سے پھیلا اور تقریباًدس سال تک مانی آزادنہ تبلغ کرتا رہا ۔ مانویت کی اشاعت سے زرتشت کے قائدین ، اوردان اور موبدان سخت پیچ و تاب کھا نے لگے اور مانی کو معتیوب و مطعون کرنے کی فکر کرنے لگے ۔ چنانچہ انہوں نے شاپور کی اجازت سے مناظرہ کیا اور اسے شکست دی ۔ شاپور اپنے رسول کی شکست سے سخت برہم ہوا اور اسے قتل کرنے کا حکم دیا ۔ مانی کسی طرح بھاگ نکلا اور کشمیر تبت سے ہوتا ہوا چینی ترکستان پہنچا ۔ وہاں اس کے مذہب کو خاطر خواہ مقبولیت حاصل ہوئی اور اکثر لوگوں نے اسے قبول کرلیا ۔
بہرام کے دور میں مانی واپس ایران آیا ، مگر ایک سال زندہ رہ سکا ۔ موبدوں نے اس کے خلاف پھر اس کے خلاف شورش کی اور بہرام کو اس کے قتل پر آمادہ کیا ۔ چنانچہ مانی گرفتار ہوا اور بڑی بے دردی سے مارا گیا ۔ اس کی زندہ کھال کھنچی گئی اور بھس بھر کر جندی شاپور شہر کے دروازے پر لٹکا دی گئی ( ۲۷۵ء ) ۔ موت کے وقت مانی کی عمر ساٹھ سال تھی ۔ اس کے بعد اس کے پیرؤں پر مصیبت آئی اور ہزاروں کی تعداد میں بے رحمی سے ہلاک ہوئے۔
کتب
مانی کی کتابوں کی تعداد سات بتائی جاتی ہے ۔ جو خود اس کی تصنیف یا وحی بتائی جاتی ہیں ۔ ان میں سے ایک کتاب شاہ برقان یا شاپورگان پہلوی زبان میں باقی سریانی زبان میں تھیں ۔ چوں کہ اس کی کتابیں نقش و نگار اور حسین تصاویر سے آرستہ تھیں ، اس لئے مانی کی شہرت رسول کے بجائے نقاش و مصور سے زیادہ ہوئی ۔ اس کی ایک کتاب خصوصیت کے ساتھ نادر تصاویر پر مشتمل تھی اور ازژتگ یا ارتنگ کے نام سے مشہور ہوئی ۔ مانی کی کتابیں مسلم ور تک باقی تھیں ، شاپورگان کا البیرونی نے مطالعہ کیا تھا ۔ وہ مانی کی دوسری کتب سے واقف تھا ۔ پہلوی کے علاوہ مسلم مورخین نے اس کی کتابوں کے جستہ جستہ اقتسبات دیئے ہیں ، مگر اب ان میں سے ایک کتاب دستیاب نہیں ہے ۔ مانی نے ایک نیا رسم الخط بھی اخترح کیا تھا ، جو سریانی اور پارسی کے بین بین تھا ۔
مانی نے اپنی کتب میں تمام انبیاؑ کی مخالفت کی اور غیب جوئی کی ہے اور انہیں مہتم بکذب ٹہرایا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ ان پر شیاطین کا غلبہ تھا ، وہی ان کی زبان میں بات کرتے تھے ۔ بلکہ بعض مقامات پر اس نے انبیاؑ کو خود شیاطین قرار دیا ہے ۔ اس نے حضرت عیسیٰ ؑ کو بھی شیطان تصور کیا ہے ۔
تعلیمات
مانی کادعویٰ ہے وہ فارقلیط جس کےّ آنے کی بشارت حضرت عیسیٰؑ نے دی تھی ۔ وہ دوسرے انبیا کی طرح پیغمبر ہے اور اس پر نبوت کا نزول ہوتا ہے اور وہ خدا کی طرف سے لوگوں کی کی ہدایت پر مامور ہوا ہے ۔ مانی گوتم بدھ اور زرتشت کی رسالت کا قائل تھا ۔ چنانچہ وہ شاپور گان میں آغاز ان الفاظوں سے ہوتا ہے ، جس کا البیرونی نے اقتسبات دیا ہے ’’ دفعتاً دفعتاً حکمت و عمل کی باتیں خدا کے رسول کے ذریعے انسان تک پہنچائی جاتی رہی ہیں ۔ ایک وقت میں انہیں خدا کے رسول بدھ نے ہندوستان میں پہنچایا ، دوسرے زمانے میں زرتشت نے فارس میں ، دوسرے زمانے میں یسوع نے مغرب میں اور اس کے بعد یہ وہی اور اس آخر زمانے کی پیشن گوئی خداون کے حقیقی رسول مجھ مانی کے ذریعے بابل میں پہنچائی۔ ‘‘
گبن کا خیال ہے کہ مانی نے کوئی نئی بات نہیں کہی ہے ، بلکہ زرتشت اور حضرت عیسیٰ ؑ کی تعلیمات کے درمیان مقامت پیدا کرنے کی کوشش کی اور ان مخلوط مواد سے اپنے مذہب کی تعمیر کی ہے ۔ حقیقت یہی ہے اس کے اکثر تصورات ان مذاہب سے ماخذ ہیں ۔ مگر جہان زرتشت نے اس ازلی تضاد کو ایک ہی ذات بتایاہے ، وہاں مانی نے مستقل طور پر دو متعضاد ہستیوں کو تسلیم کرکے اپنے مذہب کو ثنویت کی بنیادوں پر رکھا ہے ، جو نور و ظلمت کے نام سے موسوم ہیں ، یہ پہلے جدا تھیں پھر مخلوط ہوگئیں اور یہی اختلاط کائنات کی تکوین کا باعث بنا ۔ اس طرح نور و ظلمت میں سے ہر ایک خالق ہے ۔ اس طرح اچھا اور سفید نور ہے اور برا اور مضر ظلمت یا شر ہے ۔ چونکہ کائنات کی تخلیق دو متعضاد اصولوں سے مرکب ہے ، اس لئے انسان اور تمام عناصر ان ہی کا مرکب ہیں اور ان افکارسے ہی متضاد اعمال جنم لیت ہیں اور یہ انسان کو اپنے اصل یعنی نور یا ظلمت کی طرف لے جاتے ہیں ۔
مانی نے اپنی اخلاقی تعلیم میں موسیٰ ؑ کی طرح دس احکام بتائے ہیں ۔ جو بدھ اور عیسیٰ ؑ کی تعلیمات سے ماخوذ ہیں جس حسب ذیل ہیں ۔
( ۱ ) بت برستی نہ کرو ۔
( ۲ ) چھوٹ نہ بولو ۔
( ۳ ) بخل نہ کرو ۔
( ۴ ) کسی جاندار کو کی جان نہ لو ۔
( ۵ ) زنا نہ کرو ۔
( ۶ ) چوری نہ کرو ۔
( ۷ ) حیلہ سازی اور جادوگری سے بچو ۔
( ۸ ) مذہبی معاملات میں شک کو جگہ نہ دو ۔
( ۹ ) کاموں میں سستی نہ کرو ۔
( ۱۰ ) دن رات سات یا چار مرتبہ نماز پڑھو ۔
مذکورہ احکام کے علاوہ خواص کے لئے مزید چند احکام ہیں ، جن میں شہوات ولذت سے پرہیز ، ترک لحم و شراب اور عورت سے مکمل علحیدگی شامل ہے ۔
مذہبی طبقہ میں دو طبقوں اسماعون ( رشندگان ) ۔ یہ عام لوگ ہیں جو سرف احکام عشرہ پر عمل کرتے ہیں اور تجرد ، غربت اور نفس کشی پر عمل نہیں کرتے ہیں ۔ دوسرا صدیقوں ( برگزیدگان ) یہ امارت پر غربت کو ترجیع دیتے ہیں ، عضیب اور شہوت پر قابو رکھتے ہیں ، تجرد کی زندگی بسر کرتے ہیں ، مسلسل روزے رکھتے ہیں اور جو کچھ مل جاتا ہے ، راہ خدا میں خرچ کردیتے ہیں ۔
مانویت کو ساسانی حکمرانوں نے ابھرنے نہیں دیا ، پھر بھی اس کی توسیع جاری رہی ، خود ایران میں عباسیوں کے عہد تک ان کا تذکرہ ملتا ہے ۔ خود مہدی و ہارون الرشید کے زمانے میں ان کو سزا دینے کے لئے باضبطہ عدالت تفتش قائم کی گئی تھی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔