ایرانی اساطیر کی تاریخ بہت پرانی ہے
۱۵۰۰ سال قبل مسیح سے اس کی ارتقائی منزلوں کی خبر ملتی ہے
زرتشتی مذہب سے قبل جو عقائد اور دیوتا تھے اور جو حکایتیں کہانیاں تھیں وہ آہستہ آہستہ اس میں جذب ہوتی گئیں
لیکن ساتھ ہی نئے عقائد اور مِتھ بھی شامل ہوئیں
ایرانی اساطیر کی دُنیا روشنی اور تاریکی اور اچھائی اور بُرائی کی کائناتی کشمکش پر قائم ہے
ایرانی اساطیر کا رشتہ جنوبی روس اور وسط ایشیائی ملکوں کی روایات سے بہت گہرا رہا ہے
۱۵۰۰ سے ۱۰۰۰ سال قبل مسیح ہند یوروپی آبادی کا ایک بڑا حصّہ ترکی، ایران اور شمالی ہند کی جانب منتقل ہوا
جو لوگ ایران میں رچ بس گئے ان کے اساطیری قصّے ہندوستانی قصّوں سے ملتے جلتے ہیں
مولانا ابوالکلام آزاد نے تفسیر سورۂ فاتحہ کے مقدمے میں تحریر فرمایا ہے:
زردشت کا جب ظہور ہوا تو اس نے ایرانیوں کو ان قدیم عقائد سے نجات دلائی اور مزدیسنا (Mazdayasni) کی تعلیم دی
یعنی دیوتاؤں کی جگہ ایک خدائے واحد اہورا مزدا (Ahura Mazda) کی پرستش کی
یہ اہورا مزدا یگانہ ہے، بےہمتّا ہے، بے مثال ہے، نور ہے
پاکی ہے، سراسر حکمت اور خیر ہے اور تمام کائنات کا خالق ہے
اس نے انسان کے لیے دو عالم بنائے، ایک عالم دینوی زندگی کا ہے دوسرا مر نے کے بعد کی زندگی کا
مرنے کے بعد جسم فنا ہو جاتا ہے مگر روح باقی رہتی ہے اور اپنے اعمال کے مطابق جزا پاتی ہے
دیوتاؤں کی جگہ اس نے امش پند (Amahraspand) (پہلوی لفظ ہے)
اور یزتا (Yazad) (یہ بھی پہلوی لفظ ہے) کا تصوّر پیدا کیا یعنی فرشتوں کا
یہ فرشتے اہوار مزدا کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں، برائی اور تاریکی کی طاقتوں کی جگہ انگرامے نیوش (Angrame Niyush) کی ہستی کی خبردی یعنی شیطان کی
یہی انگرامے نیوش یازند کی زبان میں اہرمن ہو گیا
مولانا آزاد نے آگے تحریر کیا ہے کہ زردشت کی تعلیم میں ہندوستانی آریاؤں کے ویدی عقائد کا ردّ صاف صاف نمایاں ہے
ایک ہی نام ایران اور ہندوستان دونوں جگہ اُبھرتا ہے اور متضاد معنی پیدا کر لیتا ہے
اوستا کا ’اہورا‘ سام اور یجروید میں ’اسورا‘ ہے اور اگرچہ رِگ وید میں اس کا اطلاق اچھے معنوں میں ہوا تھا مگر اب وہ برائی کی شیطانی روح بن گیا ہے
ویدوں کا ’اِندرا‘ اوستا کا ’انگرا‘ ہو گیا، ویدوں میں وہ آسمان کا خدا تھا، اوستا میں زمیں کا شیطان ہے
ہندوستان اور یورپ میں دیو (Dev) اور ڈے یوس (Deus)
اور تھیوس (Theus) خدا کے لیے بولا گیا لیکن ایران میں دیو کے معنی عفریتوں کے ہو گئے
گویا دونوں عقیدے ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے، ایک کا خدا دوسرے کا شیطان ہو جاتا تھا اور دوسرے کا شیطان پہلے کے لیے خدا کا کام دیتا تھا
اسی طرح ہندوستان میں ‘یم’ زندگی اور انسانیت کی سب سے بڑی نمود ہوئی اور پھر یہی ‘یم’ جم ہو کر جمشید ہو گیا
مولانا نے کہا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ چند صدیوں کے بعد ایران کے قدیم تصوّرات اور بیرونی اثرات پھر غالب آ گئے اور ساسانی عہد میں جب ‘مزدنیا’ کی تعلیم کی ازسرنو تدوین ہوئی
تو قدیم مجوسی، یونانی اور زرتشتی عقائد کا ایک مخلوط مرکب تھا اور اس کا بیرونی رنگ و روغن تو تمام تر محسوسی تصوّر مجوسی تصوّر ہی نے فراہم کیا تھا
اسلام کا جب ظہور ہوا تو یہی مخلوط تصوّر ایران کا قومی مذہبی تصوّر تھا
مغربی ہند کے پارسی مہاجر یہی تصوّر اپنے ساتھ ہندوستان لائے اور پھر یہاں کے مقامی اثرات کی ایک تہہ اس پر اور چڑھ گئی
مولانا نے واضح کیا ہے کہ مجوسی تصوّر کی بنیاد ثنویت (Duaism) کے عقیدے پر تھی یعنی خیر اور شر کی دو الگ الگ قوتیں ہیں
اہورا مزدا جو کچھ کرتا ہے خیر اور روشنی ہے
انگرامے نیوش یعنی اہرمن جو کچھ کرتا ہے شر اور تاریکی ہے
عبادت کی بنیاد سورج اور آگ کی پرستش پر رکھی گئی کہ روشنی یزدانی صفات کی سب سے بڑی مظہر ہے
کہا جا سکتا ہے کہ مجوسی تصوّر نے خیر اور شر کی گتھی یوں سلجھانی چاہی
کہ کارخانۂ ہستی کی سربراہی دو متقابل اور متعارض قوتوں میں تقسیم کر دی
(ترجمان القرآن مقدمہ تفسیر فاتحہ)
ایرانی اساطیر کے تعلق سے جو ابتدائی معلومات حاصل ہوئی ہیں وہ ژند اوستا ہے
یہ زرتشتی مذہب کی پہلی مقدس کتاب ہے
اس کے بیشتر حصّے سکندر اعظم کے حملے (۳۳۴ قبل مسیح) کی وجہ سے ضائع ہو گئے
سکندر اعظم نے ۳۳۴ برس قبل ایران پر قبضہ کر لیا تھا
۶۰۰۔ ۲۰۰ء کے درمیان میں ژند اوستا کو مرتب کیا گیا
اس کے ایک حصّے میں وہ گا تھائیں (Gathas) ہیں جو زرتشت کے طبع زاد گیتوں اور نغموں سے تعبیر کی جاتی ہیں
اس کے ایک دوسرے حصّے میں اساطیری مواد ملتے ہیں، ان میں یاشت (Yashts) ہیں
یعنی وہ مقدس نغمے کہ جن کا تعلق فرشتوں سے ہے
یاشت پہلوی لفظ ہے، مفہوم ہے روحانی پیکروں کے لیے حمدیہ نغمے (Hymns)
ایرانی اساطیر کی بنیاد خیر اور شرر کی کشمکش، خیر کی فتح اور پیغمبر کی روحانیت اور وجدان پر قائم ہے
دو طاقتور دیوتا ہیں
(کہیں کہیں جڑواں بھائی کے طور بھی پیش ہوئے ہیں)
ایک اہورا مزدا خالق، روشنی کا دیوتا، سچائی اور افضل باطنی اوصاف کا عاشق
دوسرا اہرمن اس کے برعکس تاریکی کی علامت، جھوٹ اور برائیوں کا نمائندہ،
تباہی و بربادی پسند کر نے والا، عفریتوں کا حاکم
دنیا ان دونوں کیجنگ کا میدان ہے، شدید تصادم اور کشمکش اور جنگ کے بعد اہورا مزدا کی فتح
اہورا مزدا ایرانی اساطیر کا عظیم دیوتا ہے جو خالق ہے
مقدس آگ اس کی علامت ہے، آگ کی عبادت اس کی عبادت ہے
متھرس (Mthras) جنگ کا دیوتا بھی ہے اور سورج کا بھی
دنیا میں نظم ضبط وہی قائم کرتے، دنیا کے قانون کا محافظ ہے
(روم میں بھی اس کی عبادت کی جاتی رہی ہے)
اناہیتا (Anahita) پانی اور افزائشِ نسل کی دیوی ہے
ویری تھراغنا (Vereithraghna) جنگ و فتح کا دیوتا ہے
دھرتی پر دس صورتوں میں نمودار ہوتا ہے
ان میں ہوا، سانڈ، گھوڑا اور اونٹ کے علاوہ سؤر، بھیڑ، جوانی اور انسان بھی شامل ہیں
اہورا مزدہ کے سامنے ان کی حیثیت زیادہ نہیں ہے اس لیے کہ اس کی حیثیت خالق کی ہے
اس نے سات فرشتے (Amesha Spentas) پیدا کیے، جو سچائی، توانائی اور ہمیشہ زندہ رہنے والی مخلوق ہیں
ان فرشتوں (Archanges) میں زرتشتی مذہب کی آمد کے قبل کے دیوتاؤں کی کچھ اہم خصوصیات بھی ملتی ہیں
کئی ہیرو اور بادشاہ بھی اساطیری حیثیت اختیار کیے ہوئے ہیں
مثلاً ٹرے ٹونا (Traetaona) کہ جس نے ازہی دہاکا (Azhidahaka) سے جنگ کی تھی جو تین سروں والا اہرمن تھا
جب ٹرے ٹونا نے ازہی دہا کا کے سینے کو چاک کیا تو اس میں سے سانپ اور چھپکلیاں نکلنے لگیں
اس سے قبل کہ ان سانپوں اور چھپکلیوں کا زہر دنیا میں پھیلے ٹرے ٹونا نے اسے ایک پہاڑ کے اندر بند کر دیا
جہاں وہ اُس دن تک رہے گا جب تک کہ قیامت نہیں آ جاتی
اگر اس کے بعد بھی دنیا قائم رہتی ہے تو ایک اور ہیرو آئے گا کہ جس کا نام ‘کرے ساسپا’ (Keresaspa) ہو گا وہ اسے مار ڈالے گا
اسی طرح بہرام گل اور رستم (شاہنامہ فردوسی) وغیرہ ایسے کردار ہیں جو اساطیری حیثیت رکھتے ہیں
اساطیر کی جمالیات
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...