ایران کی دھمکی اور چانکیہ
چانکیہ کے نزدیک راج نیتی میں نیکی، اچھائی (Virtue) کی کوئی گنجائش نہیں ہے صرف اور صرف مفادات ہیں، اپنے مفادات۔ حکمران اصول و ضوابط، اخلاق، شرافت، نرمی اور معافی جیسی ”فضولیات“ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کامیابی کے لئے چالاکی، عیاری، فریب، دھوکہ جیسی اعلٰی و ارفع خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔
دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے، یہ مشہور زمانہ مقولہ بھی چانکیہ سے منسوب ہے. درخت مت کاٹو بلکہ اس کی جڑوں میں اُبلا پانی ڈال دو، یہ بھی چانکیہ کی فلاسفی ہے. کہتے ہیں کہ ایک دن چانکیہ راستے سے گزر رہا تھا اس کے پاؤں میں کانٹا چبھ گیا، اس نے پاؤں سے کانٹا نکالا، جا کر دو آنے کی سردائی (ٹھنڈا میٹھا دودھ) لی اور ببول کی جڑوں میں ڈال دی شاگردوں نے سوال کیا استاد محترم اس جھاڑی نے آپ کو کانٹا لگایا اور آپ نے اسے دودھ پلا دیا؟
چانکیہ بولا "اس دودھ اور شکر کے لیے چیونٹیاں آئیں گی اور جھاڑی کی جڑوں کو کھا کر ختم کر دیں گی، مجھے اپنے ہاتھ سے اکھاڑنے کی کیا ضرورت ہے"
چانکیہ کی سیاسی فلاسفی کے مطابق دشمن پر اپنے عزائم کبھی ظاہر نہ ہونے دو، اسے ہمیشہ اندھیرے میں رکھو، اس سے تلخ گفتگو نہ کرو، شیریں بیانی سے کام لو، اسے زہر سے نہیں گڑ سے مارو، دشمن کو کسی صورت وقت نہ دو، اسے سنبھلنے کا موقع نہیں ملنا چاہئے۔ دوست ہمیشہ طاقتور کو بناؤ، کمزوروں کے ساتھ دوستی کا محض ناٹک کرو، ہمیشہ دشمن کے قلب پر حملہ کرو۔ یمین و یسار خود بہ خود چت ہو جائیں گے۔ ہمسائے کو کبھی منہ نہ لگاؤ، ہمسائے سے دشمنی اور ہمسائے کے ہمسائے سے دوستی رکھو تاکہ وہ دو دشمنوں میں پھنس کر رہ جائے۔ ضرورت پڑنے پر دوست سے منہ پھیر لینے میں بھی کوئی حرج نہیں بلکہ اسے قتل بھی کرنا پڑے تو کر گزرو۔ حصول اقتدار اور ملک گیری کی ہوس کبھی ٹھنڈی نہ ھونے پائے۔ ہمسایہ سلطنتوں سے وہی سلوک کیا جائے جو دشمنوں سے کیا جاتا ھے اور ان پر کڑی نظر رکھی جائے۔ غیر ہمسایہ سلطنتوں سے دوستانہ تعلقات رکھے جائیں۔ جن سے دوستی رکھی جائے ان سے دوستی میں ہمیشہ اپنی غرض پیش نظر رہے اور مکارانہ سیاست کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوٹے- دل میں ہمیشہ رقابت کی آگ روشن رکھی جائے۔ ہر بہانے سے جنگ کی چنگاریاں سلگائی جائیں، جنگ میں انتہائی تشدد سے کام لیا جائے کہ خود اپنے شہریوں کے مصائب و آلام کی پرواہ نہ کی جائے۔
دوسرے ملکوں میں مخالفانہ پروپیگینڈا تخریبی کاروائیاں، بدامنی پیدا کرنے کی مہم جاری رکھی جائے۔ وہاں اپنے آدمی ناجائز ذرائع سے داخل کر کے خفیہ محاذ قائم کیا جائے جو حکومت کے خلاف سازشیں برپا کرے۔ رشوت اور دیگر ذرائع سے اقتصادی جنگ جاری رکھی جائے اور دوسرے ملکوں کے غداروں کو خریدنے کی کوشش کی جائے۔ امن کے قیام کا خیال دل میں نہ لایا جائے خواہ ساری دنیا تمہیں اس پر مجبور کرے. یہ تو تھی
علم کے متلاشی احباب کے لیے ارتھ شاستر پیش خدمت ہے.
*ارتھ شاستر*
مصنف: کوٹلیہ چانکیہ
مترجم: سلیم اختر
ناشر: نگارشات، مزنگ لاہور
ارتھ شاستر کوتلیہ چانکیہ کی تصنیف ہے جو ایک برہمن گھرانے میں پیدا ہوا ۔اس کتاب کا زمانہ تصنیف 311 سے 300 قبل مسیح کے درمیان ہے۔ ’ارتھ شاستر‘ نے برصغیر کے تمدن اور اسلوب سیاست پر گزشتہ دو ہزار سال کے دوران جو اثرات مرتب کیے ہیں ان کے نقوش آئندہ کئی صدیوں تک بھی واضح رہیں گے۔ کوٹلیہ نے اس کتاب میں قدیم ہندوستانی تمدن کے ہر پہلو کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا ہے۔علوم وفنون، زراعت، معیشت، ازدواجیات، سیاسیات، صنعت و حرفت، قوانین، رسوم و رواج، توہمات، ادویات، فوجی مہارت، سیاسی و غیر سیاسی معاہدات اور ریاست کے استحکام سمیت ہر وہ موضوع کوٹلیہ کی فکر کے وسیع دامن میں سما گیا ہے جو سوچ میں آ سکتا ہے ۔ علم سیاسیت کے پنڈت کہیں کوٹلیہ کو اس کی متنوع علمی دستگاہ کی وجہ سے ہندوستان کا ارسطو کہتے ہیں اور کہیں ایک نئے اور واضح تر سیاسی نظام کا خالق ہونے کے باعث اس کا موازنہ میکاولی سے کیا جاتا ہے ۔ بہرحال یہ کتاب اس کے افکار ونظریات کو سمجھنے کا معتبر ماخذ ہے۔
کتاب ڈاؤنلوڈ کرنے کے لیے لنک پر کلک کریں
http://www.archive.org/…/Earth-e-Shaster/Earth-e-Shaster.pdf
http://www.mediafire.com/…/67gjbgg0h052…/Earth-e-Shaster.pdf
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔