قدرتی معدنی وسائل کے لحاظ سے پوری دنیا میں جو ملک سب سے زیادہ مالا مال ہے، وہ ایران ہے۔ تیل کے ذخائر کے حساب سے چوتھے نمبر پر۔ قدرتی گیس کے حساب سے دوسرے نمبر پر۔ تانبے، لوہے، زنک، یورینیم چاندی اور دوسری معدنیات کے حوالے سے بھی دنیا کے چند بڑی ذخائر یہاں پر ہیں۔ صرف یہی نہیں۔ اس کی آبادی تعلیم یافتہ ہے، نوجوان ہے۔ ہر سال پچاس لاکھ طلباء یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اصولی طور پر یہاں پر زندگی آسان ہونی چاہیے لیکن اس کی معیشت تباہ حال ہے۔ بے روزگاری ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ چالیس فیصد آبادی کے پاس کوئی روزگار نہیں۔ مہنگائی کی شرح ڈبل ڈیجیٹ میں ہے۔ کرنسی انتہائی نیچے گر چکی ہے۔ حکومت کو مجبور ہونا پڑا ہے کہ وہ اپنا سوشل بینیفٹ پروگرام محدود کر دے۔ جب اس کی ۲۰۱۵ میں نیوکلئیر ڈیل ہوئی تھی، اس وقت یہاں پر بہت امید تھی۔ اور خیال تھا کہ ان کے لئے ایک نئے دور کی شروعات ہوں گی۔ سرمایہ کاری یہاں پر آئے گی۔ دنیا سے کاروبار شروع ہو گا۔ ایرانی صدر نے یہ سب بارہا کہا۔ پابندیاں کم ہونے والے معاہدے کے بعد چیزیں بہتر بھی ہوئیں۔ تیل کی پیداوار میں بیس فیصد اضافہ ہوا۔ معیشت نے ترقی کی لیکن یہ کافی نہیں تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ایرانی معیشت میں کسی چھلنی کی طرح سوراخ ہیں۔ کرپشن بہت زیادہ ہے۔ معیشت کا بڑا حصہ یا تو سیاستدانوں کے پاس ہے یا مذہبی تنظیمیوں کے ہاتھ میں یا ریولیوشنری گارڈز کے پاس۔ یہ وہ طبقہ ہے جو کمزور معیشت کے اثرات سے بھی بڑی حد تک محفوظ رہتا ہے۔
اس پس منظر کے بعد اب 28 دسمبر 2017 کو شروع ہونے والے حکومت مخالف احتجاج پر جو ابھی تک جاری ہیں۔ مشہد سے شروع ہونے والے اس احتجاج میں پہلے چند روز میں اکیس مظاہرین مارے گئے تھے۔ اس کے بعد سے حکومت اور مظاہرین کی آنکھ مچولی جاری ہے۔ تہران میں مظاہرین کے ایک لیڈر موسیٰ کے مطابق، “مجھے نہیں پتہ کہ حکومت ہمارے پیسے کے ساتھ کیا کر رہی ہے۔ کونسی مذہبی تنظیموں کو دے رہی ہے جو کس مقصد کے لئے اس کو استعمال کر رہی ہیں۔ مجھے یہ پتہ ہے کہ شدید غربت سب کچھ چھین لیتی ہے، یہاں تک کہ مذہب بھی”۔
ایران کی معیشت کا صرف بیس فیصد پرائیویٹ سیکٹر میں ہے۔ صرف بیس فیصد حصے کی وجہ سے لوگوں کا انحصار حکومت پر ہے۔ یہاں پر بزنس کرنا مشکل ہے۔ اقتصادی آزادی کے انڈیکس میں اس کا نمبر 155 ہے۔ (پاکستان کا نمبر 131 ہے۔ تفصیل نیچے لنک میں)۔ ایران عالمی تجارتی تنظیم کا ممبر بھی نہیں۔ یہاں پر درآمدی ڈیوٹی کی شرح انتہائی بلند ہے۔ اوسطا بچیس فیصد کے قریب۔ اور اگر یہ کافی نہیں تو حکومت اپنی ذرائع کا ایک بڑا حصہ بیرونِ ملک خرچ کرتی ہے۔ شام، لبنان، عراق، یمن جیسے ممالک میں۔ ان وجوہات کی بنا پر یہاں سیونگ اور کاروبار کھولنے کا رجحان نہیں۔ ان سب کے نتائج ملک کے لوگوں کے لئے تباہ کن ہیں۔ ان کا بوجھ ایک عام ایرانی شہری کے کندھوں پر آتا ہے۔ خاص طور پر نوجوان نسل پر۔
تو پھر یہ مظاہرے شروع کہاں سے ہوئے۔ امریکہ کی مداخلت سے؟ یا اپوزیشن کی طرف سے؟ تنگ آئے عوام سے؟ نہیں۔ ان کا آغاز ایران کے سابق قدامت پرست صدر احمدی نژاد کی طرف سے ہوا (جن کو جنوری میں گرفتار کیا گیا)۔ ان کا نشانہ موجودہ صدر روحانی تھے۔ روحانی کچھ معمولی تبدیلیاں لے کر آئے تھے۔ سخت قوانین میں کچھ نرمی کی گئی تھی۔ ایران کے گشت ارشاد (مذہبی پولیس) کے اختیار کم کئے گئے تھے اور موسیقی کی محفلوں کی محدود اجازت ملی تھی۔ اس احتجاج کا نشانہ یہ تبدیلیاں تھیں۔ انٹرنیٹ اور سمارٹ فون کی موجودگی میں احتجاج کا شعلہ جلد بھڑک جاتا ہے خاص طور پر اگر نوجوان بیروزگار یوتھ موجود ہو۔ ان کے شروع ہوتے ہی چند گھنٹوں میں گاڑیاں اور عمارتیں نذرِ آتش ہونا شروع ہو گئیں اور جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ مشہد میں یہ شروع ہونے کے ساتھ ہی دوسرے شہروں تک پھیل گئے۔ بات قدامت پرست احتجاج کرنے والوں کے ہاتھ سے نکل گئی کیونکہ نئے مظاہرین نے زیادہ آزادی اور معیشت کی خرابی کو احتجاج کا موضوع بنا لیا۔
حکومت نے وہی ردِعمل دکھایا جو اس موقع پر دکھایا جاتا ہے۔ طاقت کے ذریعے ان کو کچل دیا۔ گرفتاری، دھمکی اور بغاوت کے الزام پر سزائے موت سے۔
اس کے نتیجے میں تبدیلیاں کیا ہوئیں؟ پرائمری سکول میں انگریزی زبان پڑھانے پر پابندی لگا دی گئی۔ سوشل میڈیا کی دوسری سائٹس پر پہلے ہی پابندی تھی۔ ان مظاہروں میں ٹیلی گرام ایپ کے ذریعے لوگوں نے رابطہ کیا تھا۔ اب یہ بھی ایران میں مستقل پابندی کا شکار ہو گیا ہے۔ انسٹاگرام پر بھی پابندی رہی۔ انٹرنیٹ پر سنسرشپ میں اضافہ کر دیا گیا۔ میڈیا پر پابندیاں سخت کر دی گئی ہیں۔
اس ناکام انقلاب سے حکومت کی چند کمزوریاں سامنے آئی ہیں۔ موجودہ ایرانی حکومت نے 1979 کے انقلاب کا نظریہ تعلیمی اداروں میں پڑھانے کے لئے پندرہ لاکھ (جی ہاں، پندرہ لاکھ) اساتذہ تعلیمی اداروں میں رکھے ہیں۔ ایران کے پچاس فیصد آبادی تیس برس سے کم عمر ہے۔ یہ مظاہرے اس نظریے سے اس نوجوان آبادی کے انحراف کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس وقت ایران کے نظام اور مقتدر طبقے کو فوری خطرہ نہیں لیکن کیا اگلے چند سال کے بعد بھی یہ ایسا ہی رہے گا؟ کیا معدنی ذخائر سے مالامال زمین اور پڑھی لکھی آبادی بہتر مستقبل بنا پائیں گے؟ یہ ایران کا سوال ہے۔