اہل یونان نے ایک دیوی بنائی سفید مر مریں بدن تیکھے نقوش کھودے ہر انگ میں جازبیت بھری قامت میں نخرہ اور کاٹھ میں ایک غرور بھرا اور دیوی کو اٹھا کرایتھنز کے مرکزی چوک میں رکھ دیا۔۔
لوگ جمع ہوئے سراپا ناز کے حسن اور اعضا کے توازن پر داد دی۔۔تحسین کا یہ سلسلہ جاری تھا کے کسی نے آواز لگائی۔۔
لوگو دیوی کی تو آنکھیں ہی نہیں۔۔؟
لوگوں نے چونک کر آنکھوں کی طرف دیکھا تو آنکھوں کی جگہ ہموار تھی لوگ اسکے نقوش اور توازن میں اتنا کھو گئے کے انہیں آنکھوں کی کمی کا احساس ہی نہ ہوا۔۔
ارے ارے اس کے تو پاؤں بھی غیر انسانی ہیں
کسی نے ہانک لگائی لوگوں کی نظریں بے اختیار قدموں میں گیئں۔۔دیوی کے پاؤں نہیں تھے بلکہ بت تراش نے پنڈلیوں کے فوراً بعد پنکھ تراش دئیے تھے۔۔چیل کے لمبے لمبے بدصورت
پنکھ ۔۔
ارے اسکا دل۔۔؟ مجمع میں سے کسی نے آواز لگائی سب کی نظریں دل کی جگہ پر گیئں اس مقام پر ایک سوراخ تھا اور اس میں لوہے کا خوبصورت ٹکڑا رکھا تھا۔۔
لوگ سنگ تراش کو ڈھونڈنے لگے بت ساز حاضر ہوا سب اسے برا بھلا کہنے لگے جب لوگ بول بول کر تھک گئے۔۔
تو سنگ تراش نے اداس لہجے میں کہا۔۔
حضرات یہ اقتدار کی دیوی ہے اقتدار کی آنکھیں نہیں ہوتیں۔۔لہذا جو شخص ہم میں سے دیکھ سکتا ہو اورآنکھوں میں حیا رکھتا ہو وہ اقتدار کا پجاری نہیں ہو سکتا۔۔
اقتدار کے سینے میں دل نہیں ہوتا تو ہم میں سے وہ جن کے دل میں رحم ہو جو لوگوں کو دیکھ کر دکھ محسوس کرتا ہو وہ بھی اقتدار پر نہیں پہنچ سکتا۔۔اور حضرات
سنگ تراش سانس لینے کو رکا لوگ اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے۔۔وہ بولا
اقتدار کے پاؤں نہیں ہوتے یہ اُڑتا ہوا آتا ہے اور اُڑتا ہوا ہی واپس چلا جاتا ہے۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...