بلوچستان دنیا کے ان چند ایک ممالک اور سرزمین میں شامل ہے جو کسی قوم کے نام سے منسوب ہے ۔ تاہم بلوچستان میں بلوچ قوم کے علاوہ پشتون، جاموٹ ،ہزارہ ،ہندو، سکھ، عیسائی اور کشمیری وغیرہ بھی کثیر تعداد میں آباد ہیں اور ان کے درمیان ہم آہنگی کی فضاء قائم ہے ۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شامل رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی رسم و رواج اور روایات خواہ مذہبی تہواروں کا احترام بھی کرتے ہیں ۔ بلوچستان میں اکثریت بلوچوں کی ہے اس لیئے صوبے اور وفاق میں زیادہ تر یہی لوگ اقتدار میں شامل ہوتے رہے ہیں یا حصہ دار بنتے ہیں ۔ اور اقتدار میں شامل ہونے والے زیاہ تر بلوچ نواب، سردار، نوابزادے سردارزادے اور میر وغیرہ ہوتے ہیں ۔ یہ اقتدار میں کس طرح شامل ہوتے ہیں یا ان کو کس طرح اور کن شرائط پر اقتدار میں شامل کیا جاتا ہے، یہ ایک الگ کہانی ہے جس کو ہم بقول شاعر
" یہ کہانی پھر سہی "
بھی نہیں کہہ سکتے
بلوچستان کے بلوچ قبائل میں سے جمالی، مگسی، مری، زہری، رند ، ڈومکی اور کھوسہ وغیرہ ہر دور میں اقتدار میں شامل ہوتے ریے ہیں جبکہ جاموٹ قبائل میں سے جام خاندان شروع سے آج تک اقتدار کا حصہ بنتا آ رہا ہے ۔ بلوچستان کے موجودہ وزیر اعلی جام کمال خان، ان کے والد صاحب جام محمد یوسف اور ان کے دادا محترم جام غلام قادر خان بھی بلوچستان کے وزیر اعلی رہے ہیں ۔ یہاں جن قبائل کا ذکر کیا گیا ہے یہ ہمیشہ وقت اور حالات کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں اور ان کا فیصلہ ہمیشہ" درست " ہی ہوتا ہے جس کے باعث ان کے" فیصلے" کے نتیجے میں ان کے اور اقتدار کے درمیان کا " فاصلہ" ختم ہو جاتا ہے ۔ جمالی قبیلے سے میر ظفراللہ خان جمالی ایک بار بلوچستان کے منتخب وزیر اعلی ایک بار نگران وزیر اعلی اور پھر پاکستان کے وزیر اعظم منتخب کیے گئے ۔ ان کے چچا زاد بھائی میر تاج محمد خان جمالی بھی بلوچستان کے وزیر اعلی اور میر جان محمد جمالی بھی بلوچستان کے وزیر اعلی رہ چکے ہیں ۔ مگسی قبیلے کے سربراہ نواب ذوالفقار علی خان مگسی 2 بار بلوچستان کے وزیر اعلی اور ایک بار بلوچستان کے گورنر کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں ۔ نواب ثناءاللہ خان زہری بھی بلوچستان کے وزیر اعلی منتخب کئے گئے جبکہ نواب ذوالفقار علی مگسی اور نواب ثناءاللہ زہری کے چھوٹے بھائی ہر دور میں صوبائی وزیر رہتے آئے ہیں ۔ رند قبیلے کے سربراہ سردار یار محمد رند بھی ہر دور میں اقتدار میں رہتے آئے ہیں ما سوائے پاکستان پیپلزپارٹی کے دور کے جب نواب اسلم خان رئیسانی بلوچستان کے وزیر اعلی منتخب ہوئے تھے ۔
مگسی قبیلے کے سربراہ نواب یوسف عزیز مگسی کو بلوچستان کے اولین سیاسی بلوچ قائد کی حیثیت اور احترام حاصل ہے وہ انگریزی حکومت اور ان کے حاشیہ بردار قلات کے بلوچ حکمرانوں کے خلاف ڈٹ گئے تھے اور اسی طرح جمالی قبیلے کے رہنما میر جعفر خان جمالی بھی برطانوی حکومت کے خلاف قائد اعظم محمد علی جناح کے رفیق خاص بن گئے تھے ۔ نواب نوروز خان زہری اور نواب خیر بخش مری بھی اقتدار سے دور رہے اور حکومت کی نظر میں ناپسندیدہ ٹھہرے ۔ سردار عطاء اللہ مینگل اور میر غوث بخش بزنجو بھی اقتدار سے دور رہے تاہم یہ دونوں شخصیات قیام پاکستان کے بعد بلوچستان کے اولین سیاسی بلوچ قائد کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔ سردار عطاء اللہ مینگل سقوط ڈھاکہ کے بعد بلوچستان کے پہلے منتخب وزیر اعلی اور میر غوث بخش بزنجو بلوچستان کی پہلی منتخب پارلیمانی جماعت " نعپ" نیشنل عوامی پارٹی کی جانب سے بلوچستان کے گورنر مقرر ہوئے لیکن صرف 9 ماہ کے مختصر عرصے کے بعد ہی وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے ان دونوں کو سیاسی اختلافات کی بنا پر ان کے عہدوں سے برطرف کر دیا ۔ نواب خیر بخش مری بھی اقتدار سے دور ہی رہے لیکن ان کے فرزند نوابزادہ چنگیز خان مری اور نوابزادہ گزین خان مری اقتدار کے مزے لوٹتے رہے جس کی وجہ سے نواب خیر بخش مری ان سے ناراض رہے ۔ میر جعفر خان جمالی کی طرح ان کے صاحبزادے میر سکندر حیات خان جمالی اور میر تاج محمد خان جمالی بھی قلندرانہ مزاج کے مالک اور درویش صفت انسان گزرے ہیں ۔ میر تاج محمد خان جمالی بلوچستان کے وزیر اعلی رہے جبکہ میر سکندر حیات خان جمالی بلوچستان کے چیف سیکرٹری رہے اور ان کی دیانت داری کے تمام لوگ معترف ہیں ۔ بلوچستان کو 2 چیف سیکرٹری ایسی شخصیات ملے جن کا دامن کرپشن کے الزامات سے پاک رہا اور وہ دونوں شخصیات سکندر حیات خان جمالی اور میر احمد بخش لہڑی تھے ۔ نواب اکبر خان بگٹی کبھی اقتدار میں کبھی اپوزیشن میں رہے ان کے بعد بگٹی قبیلے کے رہنما صرف اور صرف برسراقتدار جماعت کے وفادار اور اتحادی رہتے آ رہے ہیں اور یہی پالیسی رند، ڈومکی، کھوسہ، مگسی، جمالی ، جام اور مری وغیرہ کی ہے ۔ یہ لوگ پانی میں رہ کر مگر مچھ کی دشمنی "افورڈ " نہیں کر سکتے ۔ اور یہی ان کی کامیابی کا "راز " ہے تاہم ایک عرصہ ہوا نواب ذوالفقار علی خان مگسی اقتدار کے بکھیڑوں سے دور اور لاتعلق ہیں انہوں نے اپنے بھائیوں کو فری ہینڈ دے دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کریں ۔ نواب ذوالفقار علی مگسی کے 2 بھائی نوابزاہ نادر خان مگسی اور عامر خان مگسی شروع سے ہی سندھ میں سرگرم سیاسی کردار ادا کر رہے ہیں ۔ ان کا تعلق 1988 سے پاکستان پیپلزپارٹی سے ہے اور وہ ہر مشکل وقت اور آزمائش میں پارٹی سے وفادار رہے ہیں انہوں نے آج تک اپنی وفاداری تبدیل نہیں کی ہے ۔حالانکہ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پی پی پی کی قیادت ان دونوں بھائیوں کو مسلسل نظر انداز کرتی آ رہی ہے اس کے باوجود انہوں نے اقتدار کی لالچ میں پارٹی علیحدگی اختیار نہیں کی ہے ۔