چاچے غلام محمد نے گھوڑی پر زین رکھی اور نوار کی اُس چوڑی پٹی کو جسے ’’تنگ‘‘ کہاجاتا ہے، گھوڑی کے پیٹ سے دوسری طرف لا کر زین کسَی۔ پھر اُس نے وسیع و فراح حویلی میں گھوڑی کو کئی چکر لگوائے جب کہ خود اُسکے آگے آگے لگام پکڑ کر چلتا رہا۔ وہ گھوڑی کو وارم اَپ کررہاتھا! پھر وہ اُسے حویلی سے نکال کر دوسری حویلی کی طرف لایا جس میں رہائشی حصے تھے اور دروازے کے باہر چبوترے کے نزدیک انتہائی جچے تُلے حساب کتاب کیساتھ اس طرح کھڑا کیا کہ چبوترے پر کھڑے ہو کر سوار ہونیوالی خاتون کو ذرا بھی دقت نہ ہو۔خاتون سوار ہوئی اور فراخ زین پر جو جگہ باقی تھی وہاں، خاتون کے آگے بچے کو بٹھا دیا گیا۔اس بچے کو چاچا غلام محمد آج بھی کل کی طرح یاد ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ جس دن بچے نے چاچے کو صرف غلام محمد کہہ کر پکارا تھا، دادا نے تھپڑ رسید کیا تھا کہ یہ غلام محمد نہیں چاچا ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ چاچے نے دانت کبھی بھول کر بھی صاف نہیں کئے تھے۔ ویسے تھپڑ بچے کو اُس دن بھی پڑا تھا جس دن اُس نے خود کُشی کو خود کَشی کہا تھا اور تھپڑ مارنے والے نے تھپڑ مار کر کہا تھا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ یہ جھنڈیال والے بابے کا پوتا ہے جس کے پاس چار دانگِ عالم سے لوگ فارسی ادب اور ترکیب (گرامر) پڑھنے آتے ہیں!
گھوڑی روانہ ہوئی۔ آگے آگے لگام پکڑ کر چلنے والا چلا، ساتھ ایک بزرگ نے چلنا شروع کیا۔ چبوترے پر…جہاں سے سواری روانہ ہوئی تھی، ایک بوڑھی خاتون کھڑی ہوگئیں اور اُس وقت تک دیکھتی رہیں جب تک کہ جانیوالے نظروں سے اوجھل نہ ہوگئے۔ بزرگ گھوڑی کیساتھ ساتھ چلتے رہے، اپنی خوبصورت سمارٹ کھُنڈی(لاٹھی) ٹیکتے، پھر گائوں سے کافی باہر جا کر…وہ مقام آگیا جہاں سے رخصت کرنیوالے واپس چلے جاتے تھے اور سفر کرنیوالے آگے روانہ ہوجاتے تھے۔
کوئی ڈیڑھ یا دو گھنٹے گھوڑی چلتی رہی۔ کھیتوں اور میدانوں سے گزرتی وہ ایک گھاٹی سے نیچے اتری، ندی پار کی اور پھر اوپر چڑھی، ذرا سا دور، سامنے بستی تھی۔ مسجد کا مینار نظر آرہا تھا۔ معبدوں کا اپنا جلال ہوتا ہے، آج بھی اس بچے کے ذہن پر، دُور سے نظر آنے والی بستی اور بلند مینار ثبت ہے۔ بستی سے باہر، ایک اور بزرگ کھڑے تھے۔ بچے کے انتظار میں۔انہوں نے بچے کو گھوڑی سے اتارا اور اٹھا لیا۔
پچاس باون سال گزر گئے۔
موٹر وے ٹول پلازاکے باہر بہت سی گاڑیاں کھڑی ہیں۔ ایک گاڑی سے ایک ادھیڑ عمر شخص باہر نکلتا ہے، گھڑی دیکھتا ہے اور ٹہلنا شروع کردیتا ہے۔ پھروہ موبائل فون پر کسی سے بات کرتا ہے۔ ایک بار پھر گھڑی دیکھتا ہے اور ٹہلنے لگتا ہے۔ بہت دیر بعد ایک کار موٹروے ٹول پلازا کو پار کرتی ہے اور اسکے پاس آ کر رُکتی ہے۔ وہ لپک کر آگے بڑھتا ہے اور کار سے ایک دو سالہ بچی کو اٹھالیتا ہے۔ اُسے چُومتا ہے۔ اچھالتا ہے، اور اپنی گاڑی میں بٹھا لیتا ہے۔ تین دن بعد وہ اپنے گھر کے دروازے پر کھڑا ہے۔ ایک گاڑی کھڑی ہے۔ وہ روتی ہوئی بچی کو گاڑی میں اُسکی ماں کی گود میں بٹھاتا ہے۔ روتی ہوئی بچی کہتی ہے۔’’ نانا ابو آپ بھی گاڑی میں بیٹھیں نا‘‘ وہ دروازے کے باہر بے حس و حرکت کھڑا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ گاڑی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے
…؎تارا اور مستول دکھائی دیتے رہے
ڈوب گئی پھر پانی میں پہچان اُس کی
ہماری زندگیوں میں منظر اور پیش منظربدلتے رہتے ہیں۔ گھوڑی کی جگہ کار لے لیتی ہے۔ چبوترے کی جگہ پورج بن جاتا ہے۔ کبھی بھی دانت صاف نہ کرنیوالے چاچے غلام محمد کی جگہ صاف ستھرا ڈرائیور لے لیتا ہے۔ پگڈنڈیوں اور گھاٹیوں کے بجائے تارکول سے بنی ہوئی پکی سڑکیں بل کھانے لگتی ہیں لیکن اچھلتا دل، بھیگتی پلکیں، راہ تکتی نظریں، ہمکتے بازو، ننھے ننھے رخسار چومتے ہونٹ، رخصت ہوتے وقت نانا اور دادا سے چمٹتے بچے اور انہیں پکڑ کر ساتھ لے جانے والے ماں باپ… یہ سب کچھ اُسی طرح رہتا ہے۔ وہ بچہ جسے اُس کے نانا بستی سے باہر آ کر، گھوڑی سے اُچک لیتے تھے، آج وہی بچہ موٹروے ٹول پلازا کے باہر انتظار کرتا ہے اور کار سے اپنی نواسی کو اٹھا لیتا ہے‘ اس لئے کہ سارے منظر اور سارے پیش منظر بدل جاتے ہیں لیکن انسان کے جذبات وہی رہتے ہیں۔ یہ دنیا اسکے بدلتے مناظر، اس کی ایجادات سب کچھ انسان کے جذبات کے ارد گرد پھرتا ہے۔ لٹنے والے قافلے، حادثوں کا شکار ہونے والی ٹرینیں اور جہاز، سارے منظر آنکھوں سے آنسو لاتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ بندرگاہوں پر لنگرانداز ہونے والے بحری جہازوں کی راہ دیکھتے تھے، کہ کوئی مسافر اُن کے نام لکھا ہوا خط لائے گا۔ وہ ایک خط کیلئے… چند سطروں کیلئے، ہر روز بندرگاہ کا چکر لگاتے تھے۔آج صبح اٹھتے ہی ای میل دیکھی جاتی ہے، بحری جہاز سے آنیوالا خط جن آنسوئوں کو چھلکاتا تھا، وہ آنسو ای میل پڑھ کر بھی اُسی طرح چھلک اٹھتے ہیں۔تعجب ہوتا ہے اُن لوگوں کی بات پر جو کہتے ہیں، یہ کمپیوٹر کا زمانہ ہے، آج کے زمانے میں ادب اور شاعری کا کیا کام؟ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کمپیوٹر کے زمانے میں بھی جدائیاں اور ملاپ اُسی طرح پیش آتے ہیں۔ کیا کسی کی ماں اُس سے ہمیشہ کیلئے چھن جائے تو وہ یہ کہہ کر آنسو روک لے گا کہ یہ کمپیوٹر کا زمانہ ہے۔ اُسکے منہ سے اپنی ماں کیلئے جو بلکتے فقرے نکلتے ہیں وہی تو ادب ہے۔ وہی تو شاعری ہے۔ کوئی محض فقرے کہہ کر آنسو پونچھ لیتا ہے۔ کوئی ان فقروں کو مرثیے میں ڈھال لیتا ہے، کوئی رنگوں والی تصویر پر تخلیق کرلیتا ہے اور کوئی ناول لکھ لیتا ہے۔ جب تک انسان کے سینے میں جذبات موجود ہیں، جب تک اُسکی پلکوں پر چراغ جلتے ہیں، جب تک اسکی نظریں راستہ دیکھتی ہیں، جب تک وصال اور فراق کے مواقع پر اُسکے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی ہیں، شاعری ہوتی رہے گی اور ادب اور مصوری زندہ رہے گی۔
نہیں! جناب! کمپیوٹر نہیں، انسانی جذبات کا قاتل اگر کوئی ہے تو وہ اقتدار ہے! جس زمانے میں کمپیوٹر تھا نہ جہاز، گاڑی تھی نہ پکی سڑک، اُس زمانے میں بھی سگے بھائیوں اور بیٹوں کی آنکھوں میں سلائیاں پھروائی گئیں، آنکھیں نکلوائی گئیں، پنیر میں زہر ملائے گئے، چھتیں گرائی گئیں، کشتیوں کی تہہ میں سوراخ کئے گئے اور آج بھی وہی کچھ ہورہا ہے۔ کل تخت کیلئے قتل ہوتے تھے اور آج اسمبلیوں کی نشستوں کیلئے ہوتے ہیں۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ الیکشن کے دن کیا ہوتا ہے۔ فائرنگ سے کتنے لوگ مرتے ہیں۔ سونے چاندی سے بنا ہوا تخت ہو یا امریکی اطالوی طرز کی بنی ہوئی کرسی ہو، وہی بے وفائیاں اور وہی قتل۔ہمایوں نے اپنے بھائیوں سے کابل چھیننے کیلئے شہر پر حملہ کیا تو اکبر چچا کے پاس تھا۔انہوں نے تین سالہ اکبر کو فصیل پر بٹھا دیا۔ ہمایوں کو گولہ باری روکنا پڑی، شہر فتح ہوگیا تو نرم دل ہمایوں بھائیوں سے گلے ملا، مدتوں بعد چاروں بھائیوں نے قالین پر ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا لیکن چند ہی دنوں میں خواہش اقتدار، جذبات پر پھر غالب آگئی۔ اقتدار میں قاف وہی ہے جو قتل میں ہے۔ اور اقتدار کیلئے قتل صرف دوسروں کو نہیں اپنے ضمیر کوبھی کیا جاتا ہے۔