انسان اشرف المخلوقات ہے، اس میں بلکل کوئ شک نہیں ۔ حاکمیت صرف اللہ تعالی کی ہے ۔ ہر انسان اسی ایک خدا کے تابع اور اسی ہی کی رضا کا طالب ہے ۔ اسی خدا کا یہاں اس دنیا میں نائب ۔ یہی حقیقت ہے یہی سارا قصہ ، یہی ساری قدرت کی کہانی ، باقی سارا فراڈ ، ڈرامہ بازی اور زاتی لالچ اور حوس والا معاملہ ۔ حضرت محمد ص ، ہمارے پیارے بنی نے یہی ثابت کر کے دکھایا ۔بعد کے آنے والے مسلمان حکمرانوں میں سے چند انگلیوں پر گنے جانے والوں کے علاوہ کوئ بھی اس معیار کے مطابق ریاست کو چلا نہیں سکا ۔ یہ سنہری اور بنیادی اصول پیغمبر اسلام محمد ص نے متعین کیے تھے کاش ان پر عمل کیا جاتا ، اس میں سب کی نجات تھی ۔ یہ قوانین اور اصول بہت جامع اور قابل عمل تھے ، لیکن ان میں کھانچے نہیں تھے ، شہنشایت نہیں تھی ، اقربا پروری نہیں ہونی تھی لہازا کسی نے لفٹ ہی نہیں کروائ ۔ انسان کو خدا بننے میں زیادہ دیر نہیں لگتی خاص طور پر اگر وہ اقتدار میں ہو تو ۔ امام حسین کی بھی یہی جنگ تھی یزید کے ساتھ اور منصور اور سرمد کا بھی گردن کٹوانا اسی گلہ کی وجہ سے تھا جو انہوں نے حکمرانوں سے متعدد بار کیا ۔ سعودی صحافی جس کی ترکی میں سعودی سفارت خانہ میں شاہی فرمان کو بجا لاتے ہوئے گردن اتاری گئ وہ بھی یہی ماجرا تھا ۔ آج مسلمان اسی وجہ سے زلیل و خوار ہو رہا ہے ۔ طلال چوہدری نے ججوں کو بتوں سے ٹھیک تشبیح دی تھی صرف یہ تھا کے وہ کہ رہا تھا یہ بُت وزیراعظم کے صرف جائز ہیں ۔ باقی سب جعلی ۔
آج کل پاکستان کا خدا عمران خان ہے ۔ میرے جیسا تو گردن اتروانے سے بچنے کے لیے باہر دوڑ آیا ۔ کل میرے دوست کلاسرا صاحب نے بھی ہتھیار پھینک دیے یہ کہ کر کے خان صاحب کریں غلطیاں اعظم خان اور ارباب شہزاد کے زریعے اور سابقہ حکمرانوں کی طرح جیل جانے کی تیاریاں بھی ۔ بلکل درست کہا ۔ عمران کا انجام بلکل بھٹو والا لگ رہا ہے جسے فوج لائ اور پھر فوج نے ہی تختہ دار پر لٹکایا ۔ یہ کھیل بہت بے رحم اور کرما والا بھی ہے ۔ بھٹو بھی بات بات پر عوام کو اکٹھا کرنے کا ماہر تھا اور عمران سے ہزار گنا شاطر لیکن پھر بھی منطقی انجام تک پہنچا ۔ عمران بھی اپنے پلے بوائے امیج کی وجہ سے لوگ تو اکٹھے کر لیتا ہے لیکن نفرتیں پھیلانے کا بھی بے تاج بادشاہ ۔ کرکٹ ٹیم میں بھی ایسا ہی کرتا تھا ۔ مجھے نجانے ٹائم میگزین کے وہ الفاظ بار بار یاد آتے ہے جو ایک مضمون میں عمران کے حلف کے بعد لکھے گئے ۔
“He has neither strategy nor team , over to Imran Khan for batting .. “
یہی سچ ہے ۔ جب ناصر درانی کو پنجاب میں مشیر لگایا تو میں نے سخت تنقید کی ۔ ایک ادارہ کام کر رہا ہے کرنے دیں آپ اب گھر بیٹھیں ۔ سابقہ حکمران بھی یہی کرتے تھے ۔ شہباز شریف نے پہلے جہانزیب برکی اور بعد میں رانا مقبول کو اسی طرح پالا ہوا تھا ، برکی تو اسی عہدہ پر فوت ہوا ۔ ایک دن میں نے ڈاکٹر توقیر کو کہا کے دونوں کا عمل دخل تو کوئ نہیں ، پھر کیوں ؟ اس نے کہا سرکاری گاڑی اور گھر کی خاطر ۔بلکل درست کیونکہ ناصر درانی کو ان کی ضرورت نہیں تھی ، لہٰزا اس نے خیرباد کہا ۔ ڈیرہ غازی خان سے ایک خاتون کہا جاتا ہے بغیر خرچہ کیے گھر گھر جا کر ووٹ مانگ کر جیتی ۔ ایم این اے بننے کے بعد اس کی پہلی تصویر اس کے فیس بک پیج پر کمشنر ڈیرہ غازی خان کے ساتھ تھی اور کل فرمایا کے ناصر درانی تو بے کار آدمی تھا کچھ بھی نہیں کر سکا ۔ اپنی ہی حکومت کے خلاف چارج شیٹ ۔ عوامی نمائیندہ بھی اقتدار کی حوس میں پاگل ہوئے ہوئے ہیں ۔ بس نہیں چل رہا لوگوں کو کچا کھانے کا ۔
شہزاد ارباب کو عمران خان نے بلکل اسی طرح ایس اینڈ جی اے ڈی کا مشیر لگایا ، جس طرح بینظیر نے ایک سابقہ پولیس افسر راؤ رشید کو جن کو وہ پاپا کے فرینڈ کہتی تھی ۔ اس نے جو پاکستان میں سب راؤ ، زندہ یا مردہ ، نوازنے شروع کر دیے ۔ میجر راؤ شکیل اسی کا لگایا ہوا بُوٹا ہے ۔ اور اس کے بعد جب نواز شریف کی حکومت بزریعہ حمید گل آئ تو اس نے اپنا سٹاف افسر میجر اعظم سلیمان ڈی ایم جی میں پانچ سال کی سینارٹی سے لگا دیا ۔ موصوف شہباز کے بھی ناک کے بال رہے ، ماڈل ٹاؤن میں بھی قتل و غارت کیا اور آج نیا پاکستان کے سیکریٹری داخلہ ۔ مشرف نے طارق عزیر نامی اِنکم ٹیکس کے افسر کو آسمانوں پر چڑھایا سیاہ سفید کا مالک بنایا ۔ شہباز شریف نے پہلے ڈاکٹر توقیر ، پھر احد چیمہ اور آخر میں تہمینہ کی بیٹی سے شادی کروا کر حضرت بوسال۔ حضرت میں نے اس لیے کہا کیونکہ بوسال گجر ہے اور گجروں کو ثاقب نثار نے برا جانا جس سے میرے دل میں گجروں کے لیے احترام فرض ہو گیا ۔ ہم گجروں نے ہی اتنی ہمت دکھائ کے اپنے گھر رسک لے کر پیرنی سے عمران کا نکاح پڑھوایا ۔ یہ گجروں اور آرائیوں کی جنگ بھی عجیب ہے ایک ہی کھیت میں دونوں ساتھ ساتھ کام کرتے تھے ۔ ایک کاشت کرتا تھا دوسرا جانور پالتا تھا ۔ اب تو یہ جنگ جٹوں تک چلی گئ جب سے چودہریوں نے چوریاں شروع کیں اور پرویز الہی کو تخت پنجاب ملا ۔ امجد جاوید سلیمی جسے پرویز الہی نے آئ جی لگوایا ہے ناصر درانی کو نارااض کر کے وہ سیالکوٹ جیل میں ہونے والے خون میں نہ صرف ملوث بلکہ کلیدی کردار ادا کرنے والا تھا۔ اس وقت سیالکوٹ کے سیشن جج تھے ایک گجر ظفر چوہدری مرحوم ۔ وہ مجھے بتاتے تھے کے کس طرح پرویز الہی نے دہشتگردی کے جج مجاہد مستقیم کو کہ کر امجد جاوید کو بری کروایا ۔ میں ظفر صاحب کو کہتا تھا کے وہ تو کہتے ہیں کے “ایہ سارے ججاں دی پلٹن لے کے کی کرن گیا سی جیل” ثاقب نثار بھی جب پلٹن لے کر جاتا ہے عوامی جگہوں پر مجھے ڈر ہی لگا رہتا ہے کے ہمارا محبوب ترین جج کہیں مارا نہ جائے ۔
تو جناب یہ اقتدار کا کھیل ہی بڑا بھونڈا اور دو نمبری کا کام ہے ۔ یہ سارے نوازے ہوئے کردار پھر وعدہ معاف بنتے ہیں جیسے طارق عزیز اور بریگیڈیئر اعجاز مشرف کے خلاف اور اب فواد اور اعظم سلیمان اور مستقبل میں اعظم خان اور شہزاد ارباب ۔ پاکستانی فوج ، عدلیہ ، سیاستدانوں اور بابؤں کا یہی مقدر ہے انہیں یہ جنگ شدید پسند ہے ۔ کھیلنے دیں ، مرنے دیں ان کو ، بھگتیں ، یہ تو اپنی لپیٹ میں نجانے کن کن معصوموں کو لے جائیں گے وہ خوفناک ہے ۔ مجھے تو فکر ۲۲ کروڑ کی ہے ۔ وہ کیوں اتنی آسانی سے بیوقوف کیوں بن جاتے ہیں ؟ کیوں نہیں پکڑتے عمران کو گلے سے ؟ مرنا تو آپ نے ہے ہی ۔ ستر سال ہوئے پاکستان بنے ، ابھی بھی نیا پرانا کا جھگڑا ، ایک حصہ بھی جدا ہو گیا ۔
موت اور اقتدار سے یاد آیا کے جب ٹالسٹوئے نے فوج چھوڑی تھی تو اس نے کہا تھا شکر ہے اب میرا کوئ دشمن نہیں ہو گا سب دوست ، سب بھائ لیکن ایسا نہ ہوا ۔ اس کی محبوب ترین بیوی جس سے جب اس نے شادی کی تو وہ اس سے آدھی عمر کی تھی نے اسے عین اس وقت بڑھاپے میں چھوڑ دیا جب وہ لاغر ہو گیا تھا ۔ ٹالسٹوئے اپنے موت کے سفر کے لیے بھی عجیب ڈھنگ سے نکلا اور ایک مزدور کا لباس پہنے ہوئے ایک گاؤں میں دوران سفر جان دے دی ۔ اس نے آخری زندگی ایک mystic کی گزاری ، بُدھا سے بڑا متاثر ہوا اور ویسے وہ بھی بُدھا کی طرح شاہی خاندان سے تھا ۔ ٹولسٹوئے نے ایسا ۸۲ سال کی عمر میں کیا میرا ارادہ بھی یہی ہے اگر اتنی زندگی لکھی ہوئ تو یقینا قدرت کے ساتھ جُڑی ہوئ موت کو ترجیح دوں گا ، بہت دور کسی جنگل ، بیابان یا صحرا میں ۔
بہت خوش رہیں ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...